طوفان الاقصیٰ کی ایک خصوصیت جس کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے وہ ہے اس کی رازداری ۔ کہا گیا کہ اس نے تل ابیب کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور ماسکو تک کو بھی متحیر کردیا ۔ تل ابیب کو دفاع کا موقع ہی نہیں مل سکا جس کی وجہ سے اسے جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوا ، یہ اہم ترین سوال ہے ۔ایک بات تو یہ سمجھنے کی ہے حملہ کبھی بھی اچانک نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اس کے لیے ہر لحاظ سے مکمل تیاری کی جاتی ہے۔ سامان رسد کی فراہمی کی بھی اور field placement کی بھی ۔ اس کے لیے مہینوں قبل تیاری کی جاتی ہے ۔ ظاہر سی بات ہے اس حملے کی تیاری حماس نے بھی کی ۔ سامان حرب بھی جمع کیا ، حملے کی فل ڈریس ریہرسیل بھی کی اور فیلڈ پلیسمنٹ بھی ۔ تیاری کے یہ تینوں مراحل ایسے ہیں کہ اسے مکمل رازداری میں رکھنا ناممکن کام ہے ۔ سامان حرب جمع کرنے میں بھی کئی افراد رابطے میں آتےہیں ۔ فیلڈ پلیسمنٹ میں بھی سیکڑوں افراد کو بتانا پڑا ہوگا کہ انہیں کرنا کیا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر فل ڈریس ریہرسیل جس میں مصنوعی طور پر باڑھ بھی لگائی گئی، اسے توڑنے کی پریکٹس بھی کی گئی ، اندر داخل ہو کر منظم کارروائی کی ایکسرسائیز بھی کی گئی اور پیرا گلائیڈنگ کرکے اس کے پار اترا بھی گیا ۔
اسرائیل میں داخلی سلامتی کی ذمہ داری شاباک کے پاس ہے جبکہ ملک سے باہر آپریشن کی ذمہ داری موساد کے پاس ۔ غزہ میں بھی اور سارے عرب ممالک میں موساد انتہائی متحرک ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مصر کی سیکورٹی ایجنسی بھی ۔ امریکا ، روس، چین اور یورپی ممالک کی ایجنسیاں ان سب سے الگ اپنا جداگانہ نیٹ ورک بھی چلاتی ہیں اور معلومات کا اشتراک بھی کرتی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ غزہ، لبنان ، مصر، شام و اردن میں جاسوسی کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ شوہر و بیوی اور باپ بیٹے بھی ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی کررہے ہوتے ہیں ۔ ایسے میں اتنی رازداری اسی وقت ممکن ہے جب کوئی ایک فرد ہی خودکش حملہ کرنے چل پڑا ہو۔ اس کے علاوہ اسرائیل اس وقت آرٹیفیشیل انٹیلی جینس اور دیگر جاسوسی سافٹ ویئر کے حوالے سے دنیا بھر میں چھایا ہوا ہے ۔ غزہ کی سرحد کے ساتھ جو باڑھ لگائی گئی ہے ، اس کے پاس سے بلی بھی گزر جائے تو ان کے کنٹرول روم کو خبر ہوجاتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں رازداری سے حملہ ناممکنات میں سے ہے ۔ اب تو مصر نے باقاعدہ میڈیا کو بتایا ہے کہ ان کی سیکوریٹی ایجنسی نے اسرائیل کو اس حملے سے خبردار کیا تھا جسے اسرائیل نے بظاہر سنجیدہ نہیں لیا اور مسکرا کر ٹال دیا ۔
اسرائیل کی انٹیلی جینس ایجنسیوں کی یہ بے خبری بالکل ایسے ہی تھی جیسے نائن الیون کے واقعے پر امریکی ایجنسیوں کی یا واقعہ ایبٹ آباد میں پاکستانی ایجنسیوں کی یا بنوں و ڈیرہ اسمٰعیل خان میں جیلوں پر حملے کی ۔ آپ دیکھیں گے کہ نائن الیون کے بعد ہر چیز کی نام نہاد تحقیقات ہوئیں مگر انٹیلی جینس کی ناکامی پر کہیں بات نہیں ہوئی ۔ نہ تو سینیٹ کی کسی کمیٹی میں اس پر پوچھ گچھ کی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے کسی کو ذمہ دار ٹھیرا کر اسے سزا دی گئی ۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ یہ کوئی failure تھا ہی نہیں ۔
یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ حملہ کیا نہیں گیا بلکہ کروایا گیا ۔ یہ تحقیق طلب کام ہے کہ اس میں حماس ٹریپ ہوئی یا ان کا کوئی کلیدی فرد اسرائیل کے ہاتھوں استعمال ہوگیا ۔ یہ امریکا کے نائن الیون کی طرح مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا پروجیکٹ ہے ۔امریکی نائن الیون اور طوفان الاقصیٰ میں بہت ساری باتیں مماثل ہیں ۔ جس طرح نائن الیون کے فوری بعد America under attack کا سلوگن دےدیا گیا تھا جسے بعد ازاں وسیع تر مفادات کے حصول کےلیے war on terror سے بدل دیا گیا ۔ بالکل اسی طرح فوری بعد ہی Israel under attack کا سلوگن آچکا تھا ۔ ٹریڈ ٹاور پر حملوں کے بعد دنیا بھر میں ایک فضا ء بنا دی گئی تھی جس میں امریکا کو زخم خوردہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔ دنیا کے سامنے ایک تصویر پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ امریکی سی آئی اے ، ایف بی آئی اور پنٹاگون سب کے سب مکمل طور پر ناکام ہوگئے ۔ بتایا گیا کہ امریکا میں جانی نقصان بے انتہا ہوا ہے ۔ بار بار خبریں جاری کی گئیں کہ امریکی صدر اور نائب صدر خوفزدہ ہیں اور کہیں زیر زمین بنکر میں چھپے ہوئے ہیں ۔ اس سے اسلامی دنیا میں جشن کا ماحول پیدا ہوا اور بتایا گیا کہ یہ امریکا کی بربادی کا آغاز ہے ۔ کچھ ایسا ہی حماس کے حملے میں ہوا ۔ پہلی مرتبہ اسرائیلی اور مغربی میڈیا اسرائیلی جانی و مالی نقصانات کی ایک ایک تفصیل پیش کر رہا تھا ۔ جن میں سے اکثر جھوٹ نکلیں ۔ مثال کے طور پر بتایا گیا کہ صحرا میں ہونے والی محفل موسیقی میں ڈھائی سو افراد مارے گئے جن میں سے آٹھ امریکی تھے ۔ بعد میں پتا چلا کہ اس ایونٹ میں ایک بھی فرد نہیں مارا گیا ۔ مغربی صحافیوں نے کیمرے کے سامنے بتایا کہ حماس کے لوگوں نے اسرائیلی بچوں کے سر قلم کردیے ہیں ، جسے بائیڈن نے بھی دہرایا ۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ سب کچھ جھوٹ تھا ۔
کہتے ہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے ۔ طوفان الاقصیٰ میں بھی یہی ہوا ۔ جس طرح امریکی ٹریڈ ٹاور اور پنٹاگون سے ٹکرانے والے جہازوں کے مسافروں کے لواحقین کہیں پر پائے نہیں جاتے ، بالکل اسی طرح طوفان الاقصیٰ میں حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی اکثریت کا کہیں وجود نہیں ہے ۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل نے جواب میں جو گرفتاریاں کیں اور غزہ میں تین راتوں تک جو بہیمانہ بمباری کی جس کے نتیجے میں دو ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ، ان کا کہیں پر ذکر نہیں ہے ۔
یہاں پر سب سے اہم سوال تو یہی بنتا ہے کہ حماس نے یہ حملہ کیا تو کیوں کیا ۔ اس کے پیش نظر کیا اہداف تھے ۔ اس سے اسرائیل کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا اور حماس کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا ۔ اور اب کیا ہونے کے خدشات ہیں ۔ ان سوالات پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔