القسام بریگیڈ کے جنگجووں نے طوفان الاقصیٰ میں امریکی M4 assault رائفلیں استعمال کیں ۔ ملین ڈالر سوال یہ تھا کہ آخر حماس کے پاس یہ امریکی ہتھیار پہنچے کیسے ۔ اس حوالےسے دو ہی آپشن ہیں کہ یہ یا تو افغانستان سے حماس تک پہنچے یا پھر یہ یوکرین سے جہاں پر امریکا نے روس سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ پہلا شک افغانستان پر ہی کیا گیا کہ طالبان نے یہ حماس کو فراہم کیے ہوں گے تاہم یہ سوال خود ہی اس لیے ختم ہوگیا کہ افغانستان میں امریکی ہتھیار بھاری تعداد میں طالبان کے پاس موجود ہی نہیں ہیں ۔ امریکا افغانستان میں کوئی بھی کارآمد چیز چھوڑ کر نہیں گیا ، وہ تو اپنا اسکریپ بھی اٹھا کر لے گیا ہے ۔ افغانستان میں جو بھی امریکی ہتھیار موجود ہیں ، وہ ہتھیار وہ ہیں جو امریکا نے افغانستان میں داعش جیسے اپنے پٹھووں کے پاس چھوڑے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے داعش جیسے گروپوں کو یہ ہتھیار کسی خاص مقصد کے لیے فراہم کیے گئے ہیں نہ کہ ان سے لے کر آگے فراہم کردیے جائیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ان کا ایمونیشن بھی اتنا ہی اہم ہے اور فی الوقت یہ افغانستان میں اتنی وافر مقدار میں موجود نہیں ہے ۔
اب دوسرا آپشن یوکرین بچتا ہے جہاں سے یہ ہتھیار القسام بریگیڈ کو فراہم کیے گئے ۔ امریکا میں ریپبلکن رکن کانگریس Marjorie Taylor Greene نے یہی سوال اٹھایا ہے ۔ گرینی کا کہنا ہے کہ القسام بریگیڈ کے پاس موجود ہتھیاروں کے سیریل نمبر لے کر تحقیقات کی جائیں کہ یہ ہتھیار القسام بریگیڈ کے پاس کہاں سے پہنچے ۔ اس سوال پر پورے امریکا میں چپ لگ گئی ہے اور کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔ نیوز ویک نے اپنے تازہ شمارے میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے پاس اس امر کے شواہد نہیں ہیں مگر اس کے پاس اطلاعات ہیں کہ طوفان الاقصیٰ میں حصہ لینے والے افراد کی تربیت بھی یوکرین میں ہی ہوئی ہے ۔
یہاں سے دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یوکرین کی موجودہ قیادت مکمل طور پر اسرائیل نواز ہے ۔ یوکرین کا صدر ولادمیر زیلنسکی نہ صرف یہودی ہے بلکہ کئی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ اپنی وفاداری کا علی الاعلان اظہار بھی کرچکا ہے تو پھر یوکرین سے امریکی ہتھیار کیوں کر القسام بریگیڈ کو پہنچے اور کیوں کر ان کی تربیت یوکرین میں ممکن ہوئی ۔ ایسے معاملات عام آدمی کے لیے اس لیے سمجھنا مشکل ہوجاتے ہیں کہ اس کے نزدیک دوستی اور دشمنی کا مطلب وہی ہے جو ہونا چاہیے ۔ مگر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح سیاست میں دوستی اور دشمنی کبھی بھی حتمی نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوست دشمن میں اور دشمن دوست میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح عالمی بساط پر دوستی اور دشمنی کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا ہی ہوگا ۔ ایک محاذ پر حلیف طاقتیں دوسرے محاذ پر حریف بھی نظر آئیں گی ۔ یہ ایک complex situation یا یوں کہیں کہ پیچیدہ صورتحال ہے ۔ اسے ہم مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں ۔
امریکا اور ترکی ناٹو کے اہم رکن ممالک ہیں ۔عراق پر امریکی حملوں میں ترکی کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ مگر یہی امریکا آزاد کردستان کے معاملے پر روز ترکی کے کان مروڑتا ہے ۔ ترکی اور امریکا مل کر شام میں اسد حکومت کے خلاف ہر طرح کی فوجی و مالی مدد فراہم کررہے ہیں ۔ شام میں ترکی کا وہی کردار ہے جو افغانستان میں پاکستان کا تھا مگر یہی امریکا ترک حکومت کے تمام تر غم و غصے اور احتجاج کے باوجود شام میں کرد باغیوں کی بھرپور مدد کررہا ہے ۔ امریکا اور ترکی و عرب ممالک کے خلاف روس بشار الاسد حکومت کی پشت پر ہے اور ترک شہریوں کو شام کی سرحد پر روز نشانہ بناتا ہے ۔ مگر اسی روس کا تیل دنیا بھر میں سپلائی کرنے کے لیے ترکی نے اپنی بندرگاہ تک زمینی پائپ لائن کی سہولت مہیا کی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات روز افزوں ہیں ۔ ترکی نے روس سے میزائل شکن دفاعی نظام بھی خریدا ہے ۔ امریکا داعش کے خلاف روز ایک نئی مہم شروع کرتا ہے ۔ داعش کے نام پر ہر طرح کی طالع آزمائی کرتا ہے مگر اس کا قریب ترین حلیف اسرائیل اسی داعش کو ہر طرح کی زمینی و فوجی سہولت فراہم کرتا ہے ۔ اسی امریکا کی ایجنسی سی آئی اے پر داعش کی پیدائش و حمایت کا الزام ہے ۔ یہ منافقت کا مختصر ترین احوال ہے ۔
خود پاکستان میں دیکھ لیں ۔ افغانستان پر روسی حملے کے خلاف افرادی قوت کی فراہمی کا اولین ذریعہ جماعت اسلامی تھی ۔ جماعت اسلامی کے پاکستان میں اور افغانستان میں افرادی قوت ہی کی بناء پر ضیاء الحق کے لیے ممکن ہو سکا تھا کہ مزاحمت کی تحریک کھڑی کرسکتا مگر اسی جماعت اسلامی کے اثر کے خاتمے کے لیے وہی ضیاء الحق کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھ رہا تھا ۔ آئی ایس آئی جماعت اسلامی کی افرادی قوت کے بغیر کشمیر میں کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی ۔ جماعت اسلامی بھی بخوشی شہادتیں پیش کررہی تھی ۔ اسی زمانے میں کراچی میں آئی ایس آئی کی کٹھ پتلی ایم کیو ایم روز جماعت اسلامی کے کارکنان کو اغوا کرکے ان پر بدترین تشدد کررہی تھی ۔ ایسا تشدد کہ ایک ایک لاش پر تین سو سے زاید تشدد کے نشانات ہوتے تھے ، ناخن پلاس سے کھینچ لیے جاتے تھے، ڈرل سے زندہ جسم میں سوراخ کیے جاتے تھے اور ایک ایک جوڑ چورا کردیا جاتا تھا ۔ مگر نہ تو جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کے آقاوں سے کوئی سوال کیا اور نہ ہی رنجش ہی دکھائی ۔ ایک جگہ جماعت اسلامی آنکھوں کا تارا تھی تو دوسری جگہ ایم کیو ایم ۔ دونوں کے لیڈروں کے اپنے اپنے مفادات تھے جس پر دونوں ہی راضی خوشی تھے ۔
یہاں تک تو بات واضح ہوگئی کہ القسام بریگیڈ کے پاس امریکی ہتھیار ہیں اور انہوں نے یہ لیے نہیں ہیں بلکہ پہنچائے گئے ہیں ۔ اس مرحلے پر مزید دو سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ اسلحہ ان تک پہنچایا کیسے گیا اور دوسری بات کہ اتنا بڑا حملہ ہوگیا اور اسرائیلی ایجنسیوں کو اس کی بھنک تک نہیں پڑی ۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا ۔
ان سوالات پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔