لکھنے کے لیے تو بہت سارے موضوعات ہیں کہ دنیامیں تبدیلی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے تاہم آغاز طوفان الاقصیٰ سے کرتے ہیں کہ یہ معاملہ تازہ ترین بھی ہے اور احباب اس کے بارے میں جاننے کے لیے مشتاق بھی ہیں اور مسلسل اس بارے میں تقاضا بھی کررہے ہیں ۔
گزشتہ سنیچر سات اکتوبر کو مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے چھ بجے راکٹوں کی فائرنگ سے حماس نے اسرائیل پر حملوں کا آغاز کیا ۔ حماس کے مطابق اس نے بیس منٹ میں پانچ ہزار راکٹ فائر کیے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد نصف تھی ۔
حماس کی اسرائیل پر حملے کے دن کی اہمیت صرف اتنی نہیں تھی کہ سنیچر ہونے کی وجہ سے یہ اسرائیل میں چھٹی کا دن تھا کیونکہ پورا اسرائیل گزشتہ ایک ہفتے سے چھٹی پر تھا کہ یہودیوں کی عید یوم العرش (Sukkot) کی وجہ سے اسرائیل میں تعطیلات تھیں ۔ یہ تعطیلات کا آخری اہم دن تھا کہ اس روز (Sabbath) یعنی یوم السبت بھی تھا ۔ اس دن کی اسرائیل کے لیے اپنی ایک اور بھی خاص اہمیت ہے کہ اس دن اسرائیل پر شام اور مصر کے مشترکہ حملے کو پچاس برس پورے ہوئے تھے ۔ چھ اکتوبر 1967 کو بھی اسرائیل کا اہم ترین تہوار یوم الکفارہ (Kippur day) تھا کہ مصر اور شام نے مشترکہ طور پر اسرائیل پر حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں اسرائیل کو نہ صرف شام ، مصر اور اردن کے اہم علاقوں پر قبضے کرنے کا موقع ملا تھا بلکہ اسے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور موجودہ صورتحال تک لانے کے لیے لانچنگ پیڈ قائم کرنے کا بھی موقع ملا تھا ۔ سات اکتوبر کو حملے کے آغاز سے لے کر رات تک جو کچھ بھی ہوا ، اسے دہرانا وقت کا ضیاع ہے کہ یہ سب جانتے ہیں ۔ ہم حملے کی نوعیت اور اس کے بعد کے حالات و نتائج پر بات کرتے ہیں ۔ حماس نے اسرائیل پر جو راکٹ برسائے ، ان کے بارے میں کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ انہیں راکٹ تو کہا جاتا ہے مگر ان کے کبھی بھی وہ نتائج نہیں رہے جو ایک عام سے چھوٹے راکٹ کے بھی ہوتے ہیں ۔ یہ اصل میں لوہے کے پائپ ہوتے ہیں جن میں کھاد اور دیگر دھماکہ خیز مادہ بھرا ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی مواصلاتی یا نیوی گیشن کا نظام نہیں ہوتا کہ یہ کسی خاص اور مطلوبہ ٹارگٹ کو ہٹ کرسکیں ۔ بس یہ کسی ایک مخصوص زاویے سے فائر کیے جاتے ہیں کہ پروجیکٹائل بناتے ہوئے کسی خاص علاقے میں جا گریں ۔ ان کو فائر کرنے کا وہی طریقہ ہے جو ایک فٹبالر فٹ بال کو ہٹ لگاتے ہوئے اپناتا ہے ۔ حماس اس سے قبل بھی دسیوں مرتبہ یہ راکٹ اسرائیل پر فائر کرچکی ہے مگر ان کا قابل ذکر فائدہ نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ اب ہوا
راکٹوں کی فائرنگ کے علاوہ سات اکتوبر کو ہونے والے حملے میں جو نیا تھا وہ حماس کے جنگجووں کی اسرائیل کے اندر پیش قدمی تھی ۔ حماس نے غزہ و اسرائیل کی سرحد کے ساتھ لگی باڑھ کو توڑا، جس کے ذریعے اس کے موٹر سائیکل پر سوار افراد اسرائیل کے اندر داخل ہوئے ، اس نے پیرا گلائیڈنگ کی جس سے اس کے جنگجو اسرائیل کی سرحد کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئے ، اس نے کشتیوں کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہونے کی کامیاب کارروائی کی ۔ گو کہ یہ سب بھی بہت بڑے پیمانے پر نہیں تھا ۔ صرف سات موٹرسائیکلیں ، تین کشتیاں اور دس سے بھی کم پیرا گلائیڈر اس ابتدائی آپریشن کا حصہ تھے ۔ اس کے بعد مزید فلسطینی اندر پہنچے تو انہوں نے بھاگتے اسرائیلیوں کو قیدی بنایا ۔
یہ تو وہ صورتحال ہے جو حالات سے ذرا سی بھی دلچسپی رکھنے والا جان سکتا ہے ۔ اس کارروائی کے بعد اسلامی دنیا میں ایک سرخوشی کی سی کیفیت ہے ۔ ایران اور ترکی میں بڑے بڑے جلوس نکالے گئے ، اس دن کو یوم الفتح قرار دیا گیا ۔ مغربی میڈیا اور خود اسرائیلی میڈیا نے اسے اسرائیل کے خلاف بڑی کارروائی قرار دیا ۔ ماضی کے برخلاف ، اسرائیل نے اپنے ایک ایک نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔ جس کے بعد اسلامی دنیا میں مزید جوش بڑھ گیا اور سوشل میڈیا کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اب اسرائیل کے خاتمے اور القدس کی آزادی کا دن آ پہنچا ہے ۔ کیا ایسا ہی ہے ، اس اہم ترین سوال پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔