سوال تھا کہ پوری دنیا کو افراتفری کا شکار کرنے والے لوگ کون ہیں اور وہ چاہتے کیا ہیں ۔ نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب ہے ، پوری دنیا پرایک مخصوص گروہ کی حکومت ۔ پورری دنیا عملی طور پر اس گروہ کی غلام ہوگی ۔ یہ گروہ فیصلہ کرے گا کہ دنیا کی آبادی کتنی ہونی چاہیے ، کسے بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے اور کسے نہیں ، اس سے بھی بڑھ کر کہ کسے بچے پالنے کی اجازت ہے اور کسے نہیں ۔ کس بچے کو کتنی اور کون سی تعلیم حاصل کرنی اور کون سا پیشہ اختیار کرنا ہے اور کسے کس عمر میں مر جانا چاہیے ۔ کسے کہاں رہنا ہے ، کس کی عبادت کرنی ہے ، کس علاقے کا کیا موسم ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ آپ دیکھیے کہ مستقبل کے شہروں کی تعمیرات شروع کردی گئی ہیں جہاں پر لوگ ایک بڑے بند گنبد میں رہیں گے ، ان شہروں کا موسم کنٹرولڈ ہوگا ۔پوری دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اسے ایک مخصوص تعداد تک کم کرنا ضروری ہے ۔ اس کے لیے متعدد طریقہ کار رو بہ عمل لائے جارہے ہیں ۔ ایک طریقہ قدرتی آفات کا ہے ۔ یعنی زلزلے مصنوعی طریقے سے پیدا کیے جائے ، کسی علاقے کے بادل کہیں اور پر لے جا کر برسائے جائیں ۔ اس طریقے سے جہاں سے بادل کہیں اور لے جائے جاتے ہیں ، وہاں پر خشک سالی پیدا ہوتی ہے تو جہاں پر لے جا کر برسائے جاتے ہیں وہاں پر سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے ۔ یہ دونوں طریقہ کار ہی انسان کے لیے مضر صحت ہیں ۔
آبادی کم کرنے کے لیے اس سے بھی آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان کو بانجھ کردیا جائے ۔ اس کے لیے فاسٹ فوڈ، مشروبات اور ویکسین کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ آپ اعداد و شمار دیکھیں تو پتا چلے گا کہ دن بہ دن بانجھ پن (خاص طور سے مردوں میں ) بڑھتا جارہا ہے اور دنیا کے کئی ممالک کی آبادی منفی میں چلی گئی ہے یعنی بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جارہی ہے ۔ پوری دنیا کو بند دروازوں کے پیچھے بند کرنے کی کامیاب ایکسرسائز تو ہم کورونا کے نام پر دیکھ ہی چکے ہیں ۔
نیوورلڈ آرڈر کو نافذ کرنے کی کوششیں کرنے والا گروہ عملی طور پر شیطان کی عبات کرنے والا ہے ۔ انہیں دیکھیں تو ان میں نام کے مسلمان بھی موجود ہیں ، یہودی بھی اور عیسائی مگر عملی طور پر یہ شیطان کے پیروکار ہیں ، اسی کی عبادت کرتے ہیں ، اس کے نام کی قربانی کرتے ہیں اور اسی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ یوں یہ نہ مسلمان ہیں ، نہ عیسائی اور نہ یہودی ۔انہوں نے شیطان کے ہاتھوں اپنی روح فروخت کررکھی ہیں ۔ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے ، یہ گروہ اس دنیا پر اپنی مکمل عملداری کی سازشوں میں مصروف ہے ۔ گزشتہ پانچ سو برسوں سے ان کی کی جانے والی کوششیں مربوط ہیں اور اب یہ کامیابی کے قریب ہیں ۔ انہوں نے عیسائیوں کو یقین دلا رکھا ہے کہ جیسے ہی شیطان کی حکمرانی دنیا پر مکمل ہوگی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے اور یوں تم ہی دنیا میں واحد مذہب رہ جاؤ گے اور غالب ہوگے ۔ بس تمہیں ہمارا ساتھ دینا ہے ۔ شیطان کے اس عقیدے کے حامل گروہ کے عیسائی العقیدہ لوگ ایونجلیکل عیسائی کہلاتے ہیں
انہوں نے یہودیوں کو یقین دلا رکھا ہے کہ ذلالت کےتمہارے دن پورے ہوئے ۔ ہزاروں برس سے تم بلاوطن کے دربدر گھوم رہے ہو کہ اللہ کی پھٹکار تم پر ہے ۔ اب یہ برا وقت ختم ہوا اور تم دنیا پر حکمرانی کرو گےبس اس کے لیے تمہیں ہماری فوج میں شامل ہونا پڑے گا ۔ اس عقیدہ کے حامل یہودی صہیونی کہلاتے ہیں ۔
یہودیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کے معبد کی تعمیر ہے جو عرف عام میں ہیکل سلیمانی کہلاتا ہے ۔ اسے انگریزی میں Third Temple کہتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلا ہیکل سلیمانی اور اس کے بعد بننے والا دوسرا معبد بھی توڑ دیا گیا ۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ جب تک تیسرا اور آخری معبد تعمیر نہیں ہوجاتا ، انہیں دنیا کی حکمرانی نہیں مل سکتی ۔ اس کی تعمیر کے لیے اسرائیل میں باقاعدہ ایک وزارت موجود ہے جبکہ ایک ادارہ بھی لامتناہی فنڈ کے ساتھ اس مقصد کے لیے کام کررہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ اپنی عبادت گاہ کیوں تعمیر نہیں کرلیتے ، کون ہے جو انہیں اس وقت کسی بھی اقدام سے روک سکے ۔
یہودیوں کی عبادت گاہ کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کی تعمیر کی کڑی شرائط ہیں ۔ عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام معمار گناہوں سے پاک ہوں ۔ گناہوں سے پاک کرنے کے لیے قربانی ضروری ہے ۔ یہودی مذہب کے مطابق جو قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہے اسے کھایا نہیں جاسکتا بلکہ اسے خون اور کھال سمیت مکمل طور پر جلا دیا جاتا ہے ۔ جلانے کے بعد جو راکھ حاصل ہوتی ہے ، اسے پانی میں ملا کر جس پر بھی چھڑکا جائے ، وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے ۔اب اگلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کریں قربانی اور ہوجائیں گناہوں سے پاک۔ یہی اصل مسئلہ ہے ۔ قربانی کے لیے ضروری ہے کہ قربانی کا جانور سرخ رنگ کی بچھیا ہو جس کی عمر دو برس سے زاید ہو ۔ سرخ رنگ سے مراد یہ ہے کہ اس کے جسم پر ایک بھی بال کسی دوسرے رنگ کا نہ ہو یعنی کتھئی یا سیاہ بھی نہ ہو ۔ مزید یہ کہ اس گائے کو نہ جوتا گیا ہو اور نہ ہی اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہو ۔ مکمل سرخ رنگ کی بچھیا ، ایک ایسی شرط ہے جس کی وجہ سے دوہزار برس سے اب تک یہودی قربانی نہیں کرسکے ۔ 2018 میں ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے سرخ رنگ کی بچھیا پیدا کی گئی تھیں تاہم بعد میں ان میں چند بال دوسرے رنگ کے پیدا ہوگئے اور یوں ان کی قربانی 2020 میں نہ ہوسکی ۔ اب ٹیکساس سے پانچ بچھیا اس برس ستمبرمیں دوبارہ اسرائیل لائی گئی ہیں جو مکمل سرخ رنگ کی ہیں ۔ ستمبر میں ان کی عمر ایک برس تھی یعنی اکتوبر 2023 میں یہ قربانی کے لیے تیار ہوں گی ۔ اب پھر ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھئی کریں قربانی اور کریں اپنی عبادت گاہ کی تعمیر ہے
یہ اتنا آسان جواب نہیں ہے ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ن شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔