طوفان الاقصیٰ کے تحت حملہ حماس نے کیا ہے ۔ حماس مخفف ہے حرکت المقاومۃ الاسلامیہ کا ۔ اس کا قیام 1987 میں اس وقت عمل میں آیا تھا جب فلسطین میں پہلی انتفاضہ چل رہی تھی ۔ بنیادی طور پر یہ مصر کی اخوان المسلمون کی فلسطینی شاخ تھی ۔ اس کے بانی شیخ احمد یاسین کو 2004 میں شہید کردیا گیا تھا۔ اس کی ایک شاخ اردن میں بھی قائم کی گئی تھی جس کے سربراہ خالد مشعل تھے ۔اب اسمٰعیل ہانیہ ہیں ۔ وہی اب حماس کے سیاسی بازو کے سربراہ ہیں ۔ شاہ عبداللہ اول کے انتقال کے بعد اردن میں حماس کے دفاتر بند کرکے اس کے رہنماوں کو جلا وطن کردیا گیا ۔ حماس کے دو حصے ہیں ۔ ایک حصہ سماجی کام کرتا ہے ، جس کے تحت تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جبکہ دوسرا حصہ مسلح جدوجہد میں حصہ لیتا ہے ۔ مسلح جدوجہد میں حصہ لینے والے بازو کو عزالدین القسام بریگیڈ ز کا نام دیا گیا ہے ۔ عرف عام میں اسے القسام بریگیڈ کہا جاتا ہے ۔ طوفان الالقصیٰ کے تحت آپریشن اسی القسام بریگیڈ نے کیا ہے ۔
اپنے قیام کے فوری بعد سے ہی حماس کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات رہے مگر یہ ہنی مون زیادہ عرصے نہیں چل سکا ۔ سرکاری طور پر تو سعودی عرب نے کبھی حماس کو فنڈز فراہم نہیں کیے مگر سعودی عرب حماس کے لیے ایک بہترین پناہ گاہ تھی جہاں سے وہ فنڈز بھی جمع کرتے تھے اور اس کے رہنما اسے اپنے دوسرے گھر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ تاہم امریکا کی فرمائش پر یہ ہنی مون جلد ہی ختم ہوگیا اور سعودی عرب میں حماس کے رہنماوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ۔ انہیں گرفتار کرکے ملک بدر بھی کیا گیا اور بعض اوقات جیلوں میں بھی بند رکھا گیا ۔ اس دوران حماس قطر کے قریب تھی اور اسے قطر کی ہر طرح کی معاونت شامل رہی ۔
بعدازاں قطر بھی امریکی دباو میں آگیا اوریوں حماس کو ایران کی صورت میں ایک نیا ساتھی مل گیا ۔ یہ سنگت دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے والی مثال کے مصداق تھی ۔ شام میں بشار الاسد کی حمایت نہ کرنے پر حماس اور ایران میں پانچ سال تک دوری بھی رہی مگر بعد ازاں پھر سے یہ ایک دوسرے کے سجن بن گئے ۔
طوفان الاقصیٰ کے تحت آپریشن کے شروع ہوتے ہی سب کی آنکھیں ایران کی طرف اٹھ گئی تھیں کہ گزشتہ پانچ برسوں سے حماس کو مالی و سیاسی معاونت صرف اور صرف ایران سے حاصل تھی ۔طوفان الاقصیٰ کی کارروائی پر تھوڑا سا غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ اس حملے میں تباہی دیسی ساختہ راکٹوں نے نہیں پھیلائی بلکہ ان چھوٹے ہتھیاروں نے پھیلائی جو القسام بریگیڈ کے جنگجووں کے ہاتھوں میں تھے ۔ تھوڑا سا اور باریک بینی سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ چھوٹے ہتھیار ایرانی ، ترک یا روسی ساختہ نہیں ہیں۔ ماضی قریب میں ایرانی اور ترک ڈرونز نے دنیا میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں ۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان فیصلہ کن کردار ترک ڈرونز نے ہی ادا کیا تھا ۔ اسی طرح یوکرین کی جنگ میں روس کا اہم ترین ہتھیار ایرانی ڈرونز ہیں ۔ طوفان الاقصیٰ میں کہیں بھی یہ ڈرونز نظر نہیں آئے ۔ قسام بریگیڈز کے ہاتھوں میں جو بھی ہتھیار تھے وہ سب کے سب امریکی ساختہ تھے ۔
یہاں پر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ حماس کو امریکا و اسرائیل کی ایماء پر اقوام متحدہ نے دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے تو پھر ان کے پاس امریکی ہتھیار کیسے ۔ ایران خود پابندیوں کا شکار ملک ہے ، وہ تو یہ ہتھیار حماس کو پہنچا نہیں سکتا اور اگر یہ ہتھیار ایران نے بلیک مارکیٹ سے لے کر حماس کو دیے ہیں ، تو خود کیوں نہیں لے لیے یا پھر یہ ہتھیار شام میں کیوں استعمال نہیں کیے ۔ اس جیسے کئی سوالات ہیں جن کے جوابات کو جانے بغیر فلسطین و اسرائیل کی صورتحال کو سمجھنا مشکل تو کیا ناممکن ہے ۔ ان سوالات کا جواب اگلے آرٹیکل میں بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔