ایک وقت تھا کہ شہر کے قلب سے تین ہٹی پل کے بائیں جانب نظر رکھنے والوں کے لیے بلوچ آبادی میں واقع ’’لالو‘‘ کے لہلہاتے کھیت کی آبادی اور وہ گلیاں آج بھی ‘‘شاہد‘‘ کے بچپن اور لڑکپن کی گواہ ہیں جہاں ’’شاہد‘‘ نے نہ صرف جنم لیا بلکہ ’’شاہد‘‘کے بچپن کے زمانے سے ہی ’’لالو کھیت‘‘ عوام کی جمہوری اور سیاسی ہلچل کا وہ معرکہ رہا، جہاں کے چھوٹے بڑے ’’ایوبی مارشل لاء‘‘ کے خلاف عوام کی جمہوری آزادی کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہتے تھے۔گرین ووڈ اسکول اور الفلاح نامی دری اسکول آج بھی ’’شاہد‘‘ ہیں کہ اس کے زیر تعلیم رہنے والے طالبعلم کسی بھی طور اس وقت کی آمرانہ حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے، اس سیاسی ہلچل کے شعور نے ’’گرین ووڈ‘‘ میں پڑھنے والے ’’شاہد‘‘اور دیگر بچوں اور نوجوانوں میں لالٹین اور میونسپلٹی کے بلب کی روشنی میں ’’تعلیم‘‘ کی ایسی جوت جگائی کہ ملک میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سوشلسٹ نظریاتی رہنما علی مختار رضوی ایوبی مارشل لاء کے خلاف شعلہ بیان طالب علم رہنما کے طور پر ابھرے اور آخر کار شہر بدری کے باوجود یہ بارہ طالبعلم رہنماملک میں ایوبی آمرانہ اقتدار کے لیے ایک ایسی تحریک جوڑنے میں کامیاب ہوئے جو تمام تر ریاستی جبر و تشدد کے باوجود نہ رکی اور نہ ہی ’’لالو کھیت‘‘ کے ان ہونہار طلبہ کے گروہ نے ہمت ہاری۔لالوکھیت کے مکینوں کا یہ ہی وہ سیاسی شعور تھا جس نے پسے ہوئے محکوم عوام کو جنرل ایوب کے ظالمانہ آمریتی نظام سے نجات دلائی، اور لالو کھیت کی ہر گلی اور ہر قریہ …ایوب…ہائے ہائے سے گونجتا رہتا تھا،یہ وہی لالو کھیت تھا جہاں سے علی مختار رضوی،معراج محمد خان، جوہر حسین، شہنشاہ حسین اور دیگر ساتھیوں نے تمام ترقی پسند اور سوشلسٹوں کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا،لالو کھیت شہر کے تمام جمہوریت پسندوں کی جدوجہد کا وہ ’’شاہد‘‘ تھا جس کی شہادت کے نقوش آج بھی اس شہر کے جمہوری مزاج میں دیکھے جا سکتے ہیں۔کبھی کبھار یہ بات بڑی تکلیف دہ اور مشکل طلب ہوتی ہے کہ جب عہد ساز شخصیت ختم ہوجائے تو اس کی ’’شاہدی‘‘ کے نشانات کی تگ و دو میں وہی افراد مدد گار اورمعاون ہوتے ہیں جو اس دور کی سیاسی اور سماجی ہلچل کا حصہ رہے ہوں،سوچتا ہوں اگر اس دور میں جمہوری تحاریک میں حصہ لینے والے ڈاکٹر توصیف،سلطان نقوی یا عابد علی سید کے ساتھ حسن جاوید یا اعجاز ظفر نہ ہوتے تو ہمارے عہد کے معروف صحافی ’’شاہد حسین‘‘ کا بچپن، تعلیم، سیاسی سرگرمیاں اور صحافتی اقدار کی معلومات کس طرح نئی نسل تک پہنچتیں۔غنیمت ہے کہ یہ ہمارے سرمائے ایسے لوگ ہیں جو جو ہمہ وقت تہذیب و شائستگی اور فراخدلی سے نسل کومعلومات فراہم کرتے رہتے ہیں،دوران گفتگو عابد علی سید بتا رہے تھے کہ جب وہ ایک اخبار میں رپورٹر تھے تو پتہ چلا کہ شاہ ایران کی شہنشاہیت کی صد سالہ تقریبات کے خلاف پمفلٹ بانٹنے کے جرم میں گرفتار ’’شاہد حسین‘‘رہا ہوکر جناح اسپتال کے نفسیاتی شعبہ میں لائے گئے ہیں،چونکہ ’’شاہد حسین‘‘ ریاستی تشدد کی وجہ سے دماغی طور پر متاثر ہوئے تھے، لہٰذا میں نفسیاتی شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر ذکی حسن سے ملا،جنھیں میں نہیں جانتا تھا۔ڈاکٹر ذکی حسن نے مجھے ڈاکٹر ہارون کے پاس بھیج دیا اور یوں میں شاہد حسین کے ریاستی تشدد کی خبر دینے میں کامیاب ہوا۔اب کون جانے کہ سنجیدہ فکر اور کم گو رائٹر نیوز ایجنسی کے رضا حسن کا دکھ کیا ہوگا جس کی صحافتی زندگی اور گفتگو کا اوڑھنا بچھونا ہی ’’شاہد حسین‘‘تھا،کیا اب رضا کی گاڑی پریس کلب سے واپسی میں ’’شاہد‘‘ بنا ہی آیا کرے گی؟موت کے آخری لمحات میں عباس نقوی اور رضا حسن کے سنگ بتانے والا ’’شاہد حسین‘‘نجانے ان بنا کس سے اپنے خواب تقسیم کرے گا۔’’شاہد حسین‘‘سیاسی ہلچل اور سماجی رویوں کی ایک ایسی داستان تھا کہ جب وہ ان کے باب کھولنے لگتا تو کسی لگی لپٹی کے بغیر جو سمجھتا تھا وہ کہہ دیتا تھا،شاہد حسین کا سبط حسن کے متعلق یہ جملہ دیکھیے کہ’’سبط صاحب تھے تو شادی شدہ مگراکیلے رہتے تھے‘‘یا کہ ’’سبط صاحب نوجوانوں سے محبت کرتے تھے اور ان سے توانائی حاصل کرتے تھے۔معروف کمیونسٹ ادیب سبط حسن شاہد سے محبت اوراس کی علمی سطح کے ہمیشہ قائل رہے اور شاہد کو اسی بنا پر سبط حسن کا پرتو کہا جاتا تھا،بلکہ ’’شاہد حسین‘‘ کے متعلق سبط صاحب کا یہ جملہ کٹرک ھال کی تقریب کے بعد زبان زد عام ہے کہ ’’شاہد ایسی دانش میں نے کسی نوجوان میں نہیں دیکھی اور بقول امام علی نازش کے کہ ’’شاہد کمیونسٹ پارٹی میں حسن ناصر کے بعد نہایت قیمتی اثاثہ ہے‘‘اس مرحلے پر افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ دور میں چند نام نہاد سکہ بند ادیب اب سبط صاحب کے نام کو مسلسل استعمال کرکے اور ان کی قربت کا دعویٰ کرکے خود کو دانشور کہلواتے پھر رہے ہیں اور ہر تقریب کا لازم حصہ کر دیے گئے ہیں۔شاہد حسین کی دانش کی سطح پر ہمیشہ ان افراد سے دوستیاں رہیں جن میں شاہد کوتدبر اور سوچ کی کوئی کرن نظر آئی ،وہ ہمیشہ معروف افسانہ نگار قمر عباس ندیم اور منیر احمد مانڑک کے افسانوں اور کہانیوں کو سماج کی مختلف جہتوں کی تبدیلی اور احساس میں دیکھتا تھا،سندھی افسانہ نگار منیر احمد مانڑک سے دوستی کی وجہ بھی مانڑک کی روشن خیال اور سنجیدہ سوچ و فکر تھی،منیر مانڑک سے ایوان دوستی کے دوران دوستی پر شاہد ہمیشہ فاخر رہتا تھا،’’شاہد نے جہاں تشدد اور جیل کی سختیاں سہیں وہیں وہ سیاسی کارکنوں کے دکھ اور کیفیت کو بھی سمجھنے میں دیر نہ کرتا تھا اور خاموشی سے سیاسی ورکر کے لیے جو ہو سکتا تھا وہ کر دیتا۔
ہم سب کے دوست حسن جاوید ’’شاہد‘‘ سے اپنے کمیونسٹ پارٹی کے دور کو یاد کرتے ہوئے جہاں دیگر واقعات بتاتے ہیں، وہیں حسن جاوید نے ’’شاہد حسین‘‘اور کمیونسٹ پارٹی کے نوجوان کامریڈ نذیر عباسی کے رشتے اور اس کی وابستگی پر ایک اہم انکشاف کیا کہ’’بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جنرل ضیا کے تشدد کا نشانہ بننے والے نذیر عباسی کی خبر کے لیے شاہد نے اقبال جعفری کی منت سماجت کرکے بی بی سی سے خبر نشر کروائی اور یوں کامریڈ نذیر عباسی کی تشدد سے موت کا سارے زمانے کو پتہ چلا،مگر شاہد نے کبھی کسی سے اس اہم واقعہ یا کوشش کا ذکر نہیں کیا۔
کمیونسٹ تحریک اور اس کے مواد کے لیے شاہد حسن کے مسودے نے ملک نورانی کو مجبور کیا کہ وہ سجاد ظہیر کی کتاب ’’روشنائی‘‘ چھاپیں اور بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی نامی کتاب کو سبط حسن صاحب سے لکھوانے میں بھی قوت محرکہ شاہد حسین ہی رہے،شاہد حسین نے جہاں کمیونسٹ تحریک کے لیے دانش کا کردار ادا کیا، وہیں اس نے صحافت میں اپنی ایمانداری اور نظریاتی سوچ پر بھی کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔وہ نہ شکوہ کرتا تھا نہ کسی سے شکایت کرنے کا اسے شوق تھا،سب کو فون کرتا رہتا،اور ایک دور میں منصور سعید اور عابدہ کے گھر کو اپنا ٹھکانہ بھی بنائے رہا،آزاد منش کا اپنا مزاج اور اپنی ہی رو ہوتی ہے،شاہد حسین سب کی آزادی کے ساتھ اپنی آزادی پر بھی کبھی سمجھوتہ نہ کرنے والا وہ صحافی اور کمیونسٹ دانشور تھا،جس کا احساس نسل کو کل ضرور ہوگا۔