قومی سطح کے بحران تعلیمی اداروں سے شروع ہوتے ہیں۔تعلیمی اداروں کو بہتر انداز میں چلایا جائے تو مستقبل بہتری کی امید قائم رہتی ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی ، اردو زبان میں اعلی تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کی جانے والی واحد یونیورسٹی ہے جسے ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا۔ دو دہائیوں پر مشتمل تجربات نے ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کو ناقابل عمل ثابت کیا۔ یونیورسٹی علمی، انتظامی اور مالی بحران کا شکار ہوگئی۔ ماہرین تعلیم نے ماڈل یونیورسٹی ایکٹ میں تبدیلی کو ناگزیر قرار دیا ۔قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان نے یونیورسٹی کے لیے نئے قانون کی منظوری دی لیکن صدرپاکستان اور یونیورسٹی کے چانسلر نے بغیر کوئی وجہ بتائے پارلیمان کی اجتماعی دانش کو نامنظور قرار دے کر واپس کردیا۔
وفاقی اردو یونیورسٹی، ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کے تحت، کراچی کے دو قدیم کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دیتے ہوئے 2002 میں صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جاری ہونے والے آرڈیننس کے ذریعے وجود میں آئی۔ کراچی کے قدیم کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دلوانے اور ایک نئی یونیورسٹی کے قیام کے لیے اس وقت کےوفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطا الرحمن نے کلیدی کردار ادا کیا ۔یونیورسٹی کا پرنسپل دفتر اسلام آباد قرار دیا گیا اور اس کے لیے فوری طور ایک عمارت کرائے پر حاصل کر لی گئی۔ ماڈل یونیورسٹی ایکٹ میں نئے تجربات کئے گئے اور اردو یونیورسٹی کو ملک کی دیگر یونیورسٹیوں سے علیحدہ اور ممتاز تعلیمی ادارہ بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
ماڈل یونیورسٹی ایکٹ میں ہونے والے نئے تجربات میں یونیورسٹی میں ڈپٹی چئیرسینیٹ کے عہدے کا اضافہ، یونیورسٹی کے فیصلہ ساز اداروں (اکیڈمک کونسل، سینڈیکیٹ وغیرہ )میں اساتذہ کی نمائندگی کے لیے نامزد کنندہ کمیٹی کا مرحلہ وار طریقہ کار ،مستقل وائس چانسلر کی تلاش کے لیے دیگر جامعات سے مختلف خصوصی سات رکنی کمیٹی اور انجمن ترقی اردوکے لیے یونیورسٹی کی سینٹ اور سینڈیکیٹ میں خصوصی نشست شامل کی گئی۔ وفاقی وزیر تعلیم کو یونیورسٹی میں پرو چانسلر کی حیثیت سے شامل کیا گیا ۔
ایکٹ میں ڈپٹی چئیر سینیٹ کے عہدے کے لیے کسی بھی قسم کی اہلیت واضح نہیں کی گئی تھی لہذا گذشتہ ۲۰ سالوں میں چانسلر دفتر کی جانب سے کسی بھی ’مناسب‘ فرد کو یونیورسٹی میں ڈپٹی چئیر سینیٹ کے عہدے پر فائز کیا جاتا رہا۔ ڈپٹی چئیر سینیٹ کا عہدہ یونیورسٹی میں صدر پاکستان کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔اس اعتبار سے یونیورسٹی میں ڈپٹی چئیر سینیٹ کو ایک خاص انتظامی مقام حاصل ہوجاتاہے۔ سات رکنی نامزد کنندہ کمیٹی میں دو اساتذہ براہ راست انتخاب، جبکہ ایک استاد منتخب اساتذہ کے انتخاب کے نتیجے میں شامل ہوتا ہے۔تین اراکین سینیٹ اور ایک خصوصی فرد جس کا تقرر سینیٹ کرتی ہے کمیٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح سات رکنی نامزد کنندہ کمیٹی میں بھی چانسلر نواز افراد کو عددی اکثریت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ کمیٹی یونیورسٹی کی سینیٹ سمیت اہم اداروں میں افراد کے تقرر کی سفارش کے لیے تین ناموں پر مشتمل پینل کی سفارش کرتی ہے۔ چانسلر حتمی انتخاب کرتے ہیں۔مستقل وائس چانسلر کی تلاش کے لیے قائم کی جانے والی خصوصی تلاش کمیٹی کی تشکیل بھی خاصہ دلچسپ مرحلہ ثابت ہوتی ہے۔ اس کمیٹی میں تین اراکین سینیٹ، دو یونیورسٹی کے اساتذہ جبکہ دو افراد چانسلر کے منتخب کردہ ہوتے ہیں جن میں سے ایک کمیٹی کا کنوینر ہوتا ہے۔ انجمن ترقی اردو کے لیے یونیورسٹی کی سینیٹ اور سینڈیکیٹ میں مستقل نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ انجمن ترقی اردو کی صدارت پر موجود شخصیات ہمیشہ سے صدر پاکستان کے قریب رہی ہیں ۔ وفاقی وزیر تعلیم کو یونیورسٹی کے موجودہ آئین میں پرو چانسلر کا عہدہ دیا گیا ہے لیکن یونیورسٹی کے آئین میں ان کے لیے یہ درج کیا گیا ہے کہ وہ فقط طلب کرنے پر چانسلر کو مشورہ دے سکتے ہیں اور چانسلر کی غیر موجودگی میں کنووکیشن کی صدارت کرسکتے ہیں ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وفاقی اردو یونیورسٹی کے انتظامی ڈھانچے میں صدر پاکستان اور ان کے دوست ہمیشہ سےفیصلہ ساز حیثیت اور عددی اکثریت میں رہتے
کسی بھی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کو اہم ترین شخص ہونا چاہیے۔ وائس چانسلر یونیورسٹی میں علمی اور تحقیقی ماحول پیدا کرنے اور انتظامی معاملات میں روانی اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اہم فیصلے کرتا ہے۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کو اعلی ترین اختیارات سونپے جاتے ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے فیصلوں پر ڈپٹی چئیر سینیٹ اور انجمن ترقی اردو کی بھاری بھرکم سیاسی شخصیات کے غیر فطری اور غیر ضروری سایے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ یونیورسٹی میں عملی طور پر ڈپٹی چئیر سینیٹ، صدر انجمن ترقی اردو اور وائس چانسلروں کے درمیان اختیارات کی سردجنگ جاری رہتی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ یونیورسٹی کی 21 سالہ تاریخ میں 17 وائس چانسلرآئے اور نکالے گئے جبکہ اس دوران صرف 4 ڈپٹی چئیر سینیٹ یونیورسٹی میں موجود رہے۔ تمام ڈپٹی چئیرز نے ناصرف اپنا دورانیہ مکمل کیا بلکہ ان میں سے دو (۲)نے خصوصی توسیع بھی حاصل کی۔اس کے برعکس صرف ایک وائس چانسلر اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کر سکا۔
انجمن ترقی اردو کی پرانی عمارت، وفاقی اردو یونیورسٹی کے عبدالحق کیمپس کے احاطے میں موجود ہے۔ اس کیمپس میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا مزار بھی قائم ہے ۔ 2016میں انجمن ترقی اردو اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے درمیان بابائے اردو چئیر قائم کرنے کا معاہدہ طے پایا ۔لیکن انجمن ترقی اردو نے عبدالحق کیمپس میں موجود عمارت کو تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے برعکس انجمن ترقی اردو کے چند ملازمین کو اردو یونیورسٹی کے پے رول میں شامل کردیا گیا۔ انجمن ترقی اردو کے موجودہ صدر ناصرف وائس چانسلر سرچ کمیٹی میں شامل ہوئے بلکہ انہیں ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والی نئی سیاسی جماعت پی ٹی آئی میں اثر و رسوخ کی وجہ سے یونیورسٹی کے سلیکشن بورڈ کی اسکروٹنی کمیٹی کا کنوینر بھی بنایاگیا، نتیجے میں اردو یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے متنازعہ سلیکشن بورڈ منعقد ہوا جس میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف صدر پاکستان کی ہدایت پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے تفصیلی رپورٹ تیار کی ۔کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں قائم انجمن ترقی اردو کا دفتر اردو یونیورسٹی میں ایوان بالا کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں یونیورسٹی سے متعلق اہم فیصلے ہوتے ہیں۔وائس چانسلروں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ایوان بالا سے بہتر تعلقات قائم رکھیں ۔ دوسری صورت میں موجودہ وائس چانسلر کو سابق ہوتے دیر نہیں لگتی۔
یونیورسٹی سینیٹ کے سابق رکن اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر توصیف احمد خان نے مئی 2019 میں منعقد ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں چانسلراور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے سامنے یونیورسٹی کے آئین میں موجود مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ یونیورسٹی کے آئین میں مناسب تبدیلیوں کے لیے کمیٹی قائم کی جائے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے اُس وقت یونیورسٹی کی سینیٹ میں موجود بین الاقوامی شہرت یافتہ معروف محقق پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی میں کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریاض احمد،ڈاکٹر توصیف احمد خان اورکراچی شہر کی معروف کاروباری شخصیت اے کیو خلیل شامل تھے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے حسب عادت شب و روز یونیورسٹی کے آرڈیننس میں مجوزہ تبدیلیوں کے لیے کام کا آغاز کر دیا۔ انہوں نے معروف علمی شخصیات سے رابطے کئے، پاکستان میں دیگر یونیورسٹیوں کے قوانین کا تقابلی جائزہ لیا اور یونیورسٹی میں موجود مختلف اساتذہ اور افسران کی تنظیموں سے رابطے قائم کر کے ان کی سفارشات جمع کیں۔ اردو یونیورسٹی انجمن اساتذہ اور آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے اپنی سفارشات پیش کیں ۔ڈاکٹر جعفر اس لیے بھی اس رپورٹ کو جلد از جلدمکمل کرنا چاہتے تھے کہ اردو یونیورسٹی کی سینیٹ میں ان کی رکنیت کی معیاد چند ماہ میں مکمل ہونے والی تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد کو اس وقت شدید صدمہ پہنچا جب یونیورسٹی کے سابق ڈپٹی چئیرسینیٹ اے کیو خلیل (کمیٹی کے رکن بھی تھے) نے ان کی سفارشات کو سینیٹ کے اجلاس میں شامل ہونے سے روک دیا ۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی تیار کردہ جامع رپورٹ یونیورسٹی کی سینیٹ میں آج تک پیش نہیں ہوسکی۔ڈاکٹر جعفر نے اردو یونیورسٹی کی سینیٹ سے ریٹائرمنٹ سے قبل 26 اگست 2021کو ایک خط تحریر کیاجس میں یونیورسٹی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کو ناکام بنانے والے کرداروں کو بے نقاب کیا اور ان حالات کی نشاندہی کی جن کی وجہ سے یونیورسٹی کے آئین میں تبدیلی کے لیے شروع کی گئی کوششوں کو بظاہر ناکام بنادیا گیا تھا۔ ڈاکٹر جعفر نے اپنے خط میں لکھا کہ چونکہ کمیٹی کی سفارشات میں یونیورسٹی میں ڈپٹی چئیر سینیٹ کا عہدہ ختم کرنے کی سفارش بھی شامل تھی،اس لیے بظاہر یونیورسٹی کے سابقہ ڈپٹی چئیر سینیٹ اے کیو خلیل نے اس کمیٹی کی رپورٹ کو سینیٹ میں کبھی پیش نہیں ہونے دیا۔
یونیورسٹی کے اساتذہ،، افسران، معاون تدریس ملازمین یونیورسٹی کے غیر علمی اور شدید سیاست زدہ ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول کا برا حال ہے اور تعلیمی و تحقیق کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔طالب علموں کے لیے سالانہ کنووکیشن گذشہ12سال میں منعقد نہیں ہوسکا ۔ یونیورسٹی کی سینیٹ میں گذشتہ 10 سال میں کسی بھی وائس چانسلر نے سالانہ رپورٹ پیش نہیں کی، آئین کو رو سے ہر سال یہ رپورٹ پیش ہونا ضروری ہے۔ بیشتر عمارتیں تعفن زدہ ہیں اورکمزور ہیں۔ فرنیچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ انتظامی عہدوں پر اہل افراد اور افسران کی بجائے جونیر افراد اضافی چارج اور الاونسزکے ساتھ موجود ہیں۔یونیورسٹی میں فنانس کمیٹی کا اجلاس گذشتہ 2 سال سے منعقد نہیں ہوا اور نہ ہی یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ فنانس کمیٹی اور سینیٹ سے منظور کروا کر متعلقہ اداروں کو بھیجا گیا ہے۔ نتیجے میں یونیورسٹی کے غیر منظور شدہ اخراجات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جس میں سینکڑوں بھرتیاں ، الاونسز، اوورٹائم، یوٹیلی بلز اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔ اس کے برعکس طالب علموں کی تعداد ہر سال کم ہورہی ہے ۔ صرف ڈاکٹر عارف علوی کے 5سالہ دور میں 7وائس چانسلر تبدیل کیے گئے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں ڈپٹی چئیر سینیٹ، وائس چانسلر اور انجمن ترقی اردو کے درمیان اختیارات کی جنگ اور وسائل پر قبضے کی رسہ کشی نے یونیورسٹی کو علمی و تحقیقی ماحول سے ہمیشہ دور رکھا ہے۔
اقتدار کی آخری لڑائی یونیورسٹی کی اولین خاتون قائم مقام وائس چانسلر کی مدت مکمل ہونے کی بعد شروع ہوئی۔ اس وقت کے ڈپٹی چئیرسینیٹ نے، انجمن ترقی اردو اور ایک معروف کاروباری شخصیت کی مدد سے خود کو نگران دفتر وائس چانسلر کے عہدے پر فائز کر لیا۔ یونیورسٹی کی سینیٹ نے اس اقدام کی توثیق نہیں کی اور خود ساختہ نگران وائس چانسلر کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور وفاقی وزارت تعلیم کے عہدیداروں پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم ہوگئی۔ لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ بھی آج تک یونیورسٹی کی سینیٹ کے کسی بھی اجلاس میں پیش نہیں کی جاسکی۔
یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کے تقرر کی آخری کوشش اس وقت ناکام ہوگئی جب صدر پاکستان کے فرمان کا تقدس قائم رکھنے کے لیے ڈاکٹر اطہر عطا کو خصوصی دعوت اور پیکیج پر کینیڈا سے مدعو کیا گیا۔انہوں نے یونیورسٹی میں بمشکل ایک ماہ گزارا اور اس کے بعد صدر پاکستان کے نام ایک مختصر درخواست تحریر کرکے کینیڈا واپس چلے گئے اور بیرون ملک سے اپنا استعفی ٰ بھجوا دیا۔ وہ اقتدار اور اختیارات کی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ڈاکٹر اطہر عطا کے مستعفی ہونے کے بعد صدر پاکستان نے یونیورسٹی میں نئے مستقل وائس چانسلر کی تقرری کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی قیادت میں سرچ کمیٹی قائم کی۔ ڈاکٹر مختار نے کمیٹی کا اجلاس طلب کیا لیکن یونیورسٹی کے دو جونیئر اساتذہ نے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ نتیجتاً ایک بار پھر کئی ماہ سے یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر دستیاب نہیں اور بدستور ایڈہاک ازم پر نظام چلایا جارہا ہے۔
یونیورسٹی میں بہتری کی امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب نامزد کنندہ کمیٹی کے اجلاس منعقدہ دسمبر2022میں یونیورسٹی کی سینیٹ میں ایک بار پھر اُن ہی ناموں کی سفارش کردی جو یونیورسٹی میں بحران کی وجہ بنے ہوئے تھے۔ وفاقی وزارت تعلیم نے ان افراد کے ناموں کو مسترد کرتے ہوئے یونیورسٹی کو واپس بھیجا اور غیر متنازعہ اور قانون کے مطابق متعلقہ اہلیت رکھنے والے افراد کے ناموں کا انتخاب کرنے کی ہدایت کی جسے یونیورسٹی نے سنجیدگی سے نہیں لیا لہذا اب تک ان نشستوں پر سینٹ میں نامزدگی نہیں کی جاسکی۔
انتہائی نامصائب حالات اور غیر علمی ماحول کی دو دہائیوں کے تلخ تجربات سے عاجز ہوکر یونیورسٹی کے بیشتر اساتذہ، افسران اور غیر تدریسی ملازمین نے فیصلہ کیا کہ یونیورسٹی موجودہ قانون کے مطابق نہیں چلائی جا سکتی۔ راقم الحروف بہ حیثیت رکن سینیٹ،انجمن اساتذہ کے جنرل سیکریٹری پروفیسر روشن علی سومرو اور آفیسر ویلفیئرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری خرم مشتاق نے وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر احمد مختار سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور انہیں یونیورسٹی کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی میں علمی ماحول کے قیام، تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے اعلی تعلیم میں اردو زبان کے فروغ کے مقاصد کے حصول کی نیت سے قائم ہونے والی یونیورسٹی کے آئین میں فوری طور پر بنیادی تبدیلیاں کی جائیں اور ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کو ختم کیا جائے۔
اس وقت یونیورسٹی کے ملازمین کو تنخواہیں اقساط میں ادا کی جارہی ہیں جبکہ 29 اساتذہ اور بے شمار عمال کی ریٹائرمنٹ اور پینشن کے بقایاجات ادا نہیں ہوسکے۔ ان میں سے3 اساتذہ کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کے اہل خانہ یونیورسٹی سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ گذشتہ ماہ کی ہاوس سیلنگ ادا نہیں کی گئی، میڈیکل کی سہولت چند منظور نظر افراد تک محدود ہو چکی ہے۔ شدید مالی بحران، تعلیمی انحطاط، غیر ضروری سیاست زدہ اساتذہ و ملازمین اوراعلی سرکاری ملازمتوں پر سینکڑوں غیر منظور شدہ تقرریاں، انتظامی عہدوں پر فائز افراد کی شاہ خرچیاں، جونیر افراد کی سینیر پوسٹوں پر تقرری اور الاونسز کی مد میں بڑی ادائیگیاں یونیورسٹی کے محدود وسائل پر مسلسل بوجھ ثابت ہورہی ہیں۔یونیورسٹی میں شام کا پروگرام عملی طور پر غیر فعال ہے۔
ان حالات میں سابق وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر نے مستقبل میں ملک کے نوجوانوں کو ایک بہتر تعلیمی ادارہ فراہم کرنے کے لیے یونیورسٹی ماڈل ایکٹ میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا۔ وفاقی وزیر تعلیم نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اردو یونیورسٹی کے لیے نئے قانون کا مسودہ پیش کیا جس کی منظوری 31 جولائی کو حاصل کی گئی۔ اس کے بعد سینیٹ آف پاکستان نے اسٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات کو شامل کرتے ہوئے ، یونیورسٹی کے لیے نئے قانون کی منظوری دی اور قومی اسمبلی نے اسے ایک بار پھر منظور کرکے صدر پاکستان کے پاس بھجوا دیا۔ لیکن یونیورسٹی کے چانسلر نے بغیر کوئی وجہ بتائے پارلیمان کی اجتماعی دانش پر نامنظور کی مہر ثبت کر دی۔
اس قانو ن میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں ڈپٹی چئیر سینیٹ کا عہدہ ختم کرنے، انجمن ترقی اردو کی خصوصی نشست کو تحلیل کرنے، نامزد کنندہ کمیٹی کے طریقہ کار کی جگہ براہ راست انتخاب کا طریقہ اختیار کرنے، یونیورسٹی میں متنازعہ ایمرجنسی کمیٹی کو ختم کرنے،قائم مقام وائس چانسلر کی مدت 120 دن تک محدود کرنے اور مستقل وائس چانسلر کی تلاش کے لیے دیگر وفاقی یونیورسٹیوں کی طر زپر سرچ کمیٹی قائم کرنے کی شقیں شامل کی گئیں تھیں گئے تھے۔یونیورسٹی کی سینیٹ کی سربراہی بدستور صدر پاکستان کو حاصل تھی جبکہ دیگر اراکین میں پروچانسلر (وفاقی وزیر تعلیم)، وائس چانسلر، وزارت تعلیم کے سیکریٹری، چانسلر کی جانب سے مقرر کردہ پانچ معروف شخصیات، ایک معروف علمی شخصیت اور یونیورسٹی کے تین کیمپسوں میں سے تین اساتذہ نمائندے شامل کیے گیے تھے۔ اسی طرح یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کی نئی ترتیب کے مطابق اس میں پروچانسلر (وفاقی وزیر تعلیم)، قومی اسمبلی سے ایک رکن، سپریم کورٹ کے جج یا ان کے برابرایک رکن، وزارت تعلیم کے جوائنٹ سیکریٹری، الحاقی کالجوں کے پرنسپل، رجسٹرار، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا نمائندہ، یونیورسٹی کے تین اساتذہ نمائندے بذریعہ براہ راست انتخاب اور کنڑولز امتحانات شامل کیے گیے تھے۔
اردو یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور سابق وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے اس قانون کی منظوری کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا جبکہ سینیٹ آف پاکستان میں پیپلز پارٹی کے نمائندے اور معروف ماہر قانون رضاربانی، تاج حیدر اور جماعت اسلامی کے رکن سینیٹ مشتاق احمد کی جانب یونیورسٹی کی سینیٹ اور سینڈیکیٹ میں اساتذہ کی نمائندگی شامل کروانا خوش آئیند قدم تھا۔
اردو یونیورسٹی کے اساتذہ، افسران اور عمال کو نئے قانون کی منظوری سے اچھی توقعات تھیں۔اگر علمی آزادی کے فلسفے کو سامنے رکھتے ہوئے پارلیمان کی اجتماعی دانش کا احترام کیا جاتا اور اردو یونیورسٹی میں تعلیمی نظم وضبط قائم کرنے کا یہ موقع ضائع نہ کیا جاتا تو اردو یونیورسٹی بہت جلد پاکستان کی معیاری یونیورسٹیو ں کی فہرست میں شامل ہوسکتی تھی مگر صدر پاکستان اور یونیورسٹی کے چانسلر نے بغیر کوئی وجہ بتائے اردو یونیورسٹی کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان سے منظور ہونےو الے قانون کو نامنظور کرکے یونیورسٹی میں تعلیم انحطاط اور انتظامی بحران کی زندگی میں اضافہ کردیا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی اردو یونیورسٹی کے قانون میں مثبت تبدیلی پیدا کرکے ملک اور خاص طور پر کراچی شہر سے تعلق رکھنے والے غریب نوجوانوں کو ایک بہتر تعلیمی ادارے کا تحفہ دے سکتے تھے لیکن افسوس کہ انہوں نے ایک قومی تعلیمی ادارے کو بہتر بنانے کا موقع ضائع کردیا۔