سوشل میڈیا پر سمارٹ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس جناب ڈاکٹر عثمان انور کی ایک ویڈیو اپ لوڈ کی گئی ہے جو کہ پولیس ہی کے میڈیا سیل کی کاوش ہے جس میں آئی جی پنجاب ، نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے وژن کے مطاق ایک پولیس اسٹیشن کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے خوبصورت انداز میں بریفنگ دے رہے ہیں اور ویڈیو شوٹ کرا رہے ہیں ۔ میں ڈاکٹر عثمان انور کو تب سے جانتا ہوں جب وہ ایس پی تھے اور پھر زیادہ رابطہ ان دنوں رہا جب وہ ایف آئی اے میں ڈائریکٹر تھے ۔ دلیل کے آدمی ہیں اور صدق دل سے کوششیں بھی کرتے ہیں مگر نتائج کے حوالے سے میرے کافی تحفظات ہیں تاہم ایک بات اطمینان بخش ہے کہ دیگر متعدد آفیسرز کی طرح بعد از ریٹائرمنٹ ڈاکٹر صاحب کا مستقبل خاصہ مصروف اور پر ہنگام ہو سکتا ہے کہ ان میں ایک اعلیٰ پائے کے اینکر اور میڈیا پرسن بننے کے تمام خواص موجود ہیں۔ وہ صوبے بھر میں پولیس کا مورال بلند کرنے کی کوششوں میں معروف ہیں مگر نچلا عملہ ان کے وژن کو یقینی طور پر سمجھ نہیں پا رہا اور الٹ مطلب نکال کر کھل کھیل رہا ہے۔ سٹریٹ کرائم میں کم از کم چار گنا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ سب پولیس کی اپنی مرتب کردہ رپورٹس سے بھی عیاں ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پولیس سے زیادہ شہری اپنی مدد آپ کے تحت ڈاکو پکڑ رہے ہیں اور رہا معاملہ ڈاکوئوں سے ریکوری کا تو پہلے ریکور شدہ مال کا 30 سے 40 فیصد حصہ مدعی حضرات کو واپس مل جاتا تھا اب تو 90 فیصد ریکوری پولیس ہی کی ہوتی ہے اگر کسی سائل کو موٹر سائیکل اور گاڑیاں واپس مل بھی جائیں تو ان کی حالات قابل رحم کر دی جاتی ہے۔ تھانوں میں ہی ٹائر تبدیل اور ائیر کنڈیشنر نکال لئے جاتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض تھانے والوں نے باقاعدہ سے مکینکوں اور کباڑیوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں چند ماہ قبل شہریوں نے پولیس چوکی لاری اڈا ملتان میں موٹر سائیکلوں کے پرزے نکالتے ہوئے ایک مکینک کو پکڑ کر انچارج چوکی کے حوالے کیا تو صرف 4 دن بعد وہی مکینک اسی پولیس چوکی مین دوبارہ اپنی ڈیوٹی ’’ سر انجام‘‘ دیتا ہوا پایا گیا۔جناب آئی جی صاحب ملتان میں ایک سابق آر پی او کے دور میں شہریوں کو گھروں سے اُٹھا کر تھانوں میں تشدد کر کے چیک ، اراضی، گاڑیوں اور پراپرٹیز کے ٹرانسفر لیٹر لئے جاتے تھے۔ ایک تابعدار قسم کے ڈی ایس پی کی دراز میں ٹرانسفر لیٹر اس مقصد کے لئے موجود رہتے تھے کئی کئی کروڑ کے بلیک چیک لکھوائے جاتے اگر کسی سطح پر تحقیقات ہوئی تو میرے پاس متعدد ثبوت موجود ہیں مذکورہ ٓآر پی او کے تبادلے کے بعد وہ ٹائوٹ بھی شہر چھوڑ گیا اور یہ سلسلہ بھی رک گیا جو اب دوبارہ شروع ہے اور حیران کن اتفاق یہ ہے کہ طریقہ کار بھی سابقہ دور سے ملتاجلتا ہے حتہ کہ ڈی ایس پی بھی وہی ہیں صرف سرکل بدل گیا ہے۔ پاکستان کی ایک بڑی پیسٹی سائیڈ اینڈ سیڈ کمپنی کے جنرل منیجر کو اُٹھایا گیا ہے اور جب تک ریکوری شدہ مال شکائیت کنندہ کے گودام میں ان لوڈ نہیں ہو گیا ان کی گلو خلاصی نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ سن کراپ سابق مشیر حکومت پنجاب اور سابق ایم پی اے حنیف پتافی کی تھی اور چونکہ یہ ایک بہت بڑی فرم ہے لہٰذا یقینی طور پر آپ کے علم میں یہ بات آ چکی ہو گی ۔ لودھراں میں ایک ’’ اچھی‘‘ شہرت کی حامل خاتون کو مطئمن کرنے کیلئے تھانہ سٹی میں ایک ٹین ایجر مظلوم پر 21 مقدمات درج کئے گئے اور وہ ڈیرہ سال سے جیل میں ہے۔ ایک سی ایس پی آفیسر معاملات آپ کے علم میں لے کر آیا مگر بے پناہ مصروفیات کے باعث یقینی طور پر آپ کی توجہ اس معمولی نوعیت کے معاملے کی طرف نہیں گئی ہو گی مگر یاد رکھیئے کہ اس عارضی زندگی کا وہ معمولی لڑکا روز محشر آپ کے برابر کھڑا ہو گا اور مساوی تو یقینی طور پر ہو گا۔شاید بڑھ کر ہی ہو جائے کہ 21 میں سے 19 مقدمات کے مدعیان نے اسے اپنا ملزم قرار نہیں دیا لہٰذا 19 مقدمات میں تو وہ بری ہو چکا ہے اور دو باقی ہیں پھر جیل بھی باقی ہے جناب آپ کے زیر سایہ ایک اعلیٰ افیسر کے کارخاص اور ملازم خاص نے سر عام ایک لیڈی ڈاکٹر کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے اُسے پہچان لیا گیا اس کے بھائی جب تھانے میں شکایت کے لئے گئے تو حسن اتفاق ہے وہ ایس ایچ او کے کمرے میں محو استراحت تھا کہ خاص ملازم جو ٹھہرا۔ اب لیڈی ڈاکٹر کی کیا اوقات کہ باوردی سے ٹکر لے لہٰذا معافی بھی مجبوری بن گئی۔ جس گاڑی پر اس نے لیڈی ڈاکٹر کو اغوا کرنے کی کوشش کی وہ بھی تھانے ہی میں کھڑی تھی۔جناب آپ کی پولیس کے بعض ملازمین نے تو باقاعدہ خواتین کے گینگ رکھے ہوئے ہیں جو شہریوں کو لوٹتے ہیں اور سپیشل برانچ کی متعدد رپورٹس آپ کے آفس ریکارڈ میں مدفون ہیں۔کوشش کیجئے کہ یہ اس دن تک دفن نہ رہیں جس دن سارے مدفون اُٹھائے جائیں گے۔ اگر یہ معاملات بھی اسی دن اپنی بند فائلوں نامی قبروں سے باہر نکل آئے تو سخت مشکل ہو جائے گی۔