گزشتہ دنوں بھارت دو خبروں کے حوالے سے دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنا رہا۔ پہلی خبر بھارت کے مشن چندریان
3 کا چاند پر اترنا تھا اور اِس طرح بھارت چاند پر پہنچنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن گیا۔ ایسے میں جب مشن چندریان 3 کے چاند پر اترنے کی ویڈیو دنیا بھر میں وائرل تھی اور بھارت کو پاکستان سمیت دنیا بھر سے مبارکباد دی جارہی تھی، اِسی دوران سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی جس میں بھارتی ریاست اترپردیش کے ایک اسکول میں 7 سالہ مسلمان طالبعلم کو خاتون ٹیچر کی ہدایت پر ہندو طلبہ تھپڑ مار رہے ہیں اور ٹیچر کہہ رہی ہے کہ ’’یہ مسلم بچہ ہے، اِسے زور سے تھپڑ مارو۔‘‘ اس دوران بچہ زار و قطار رو رہا ہے۔ بچے کا قصور یہ تھا کہ وہ مسلمان خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا نام محمد التمش تھا۔
ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اسکول ٹیچر ترپتا تیاگی کے خلاف سوشل میڈیا پر ’’شیم آن یو‘‘ کا ٹرینڈ وائرل ہوا اور ٹیچر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا مگر آخری وقت تک مودی حکومت نے ٹیچر کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جو مودی حکومت کی مسلم مخالف پالیسی کا مظہر ہے۔ بچے کے ساتھ اس ہتک آمیز اور وحشیانہ سلوک کے بعد والدین نے بچے کو اسکول سے نکال لیا اور دبائو میں آکر اسکول انتظامیہ سے سمجھوتہ کرلیا۔ مسلمان بچے کے ساتھ ہتک آمیز سلوک پر مودی کی بی جے پی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے واقعہ کی شدید مذمت کی جبکہ بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بی جے پی کا پھیلایا ہوا وہ مٹی کا تیل ہے جس نے بھارت کے کونے کونے میں آگ لگادی ہے، بچے بھارت کا مستقبل ہیں، انہیں نفرت نہیں محبت سکھانی ہے۔‘‘ اِسی طرح بالی ووڈ اداکارہ اور کانگریس رہنما ارمیلا نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جس پر تحریر ہے کہ ’’شیم آن یو ترپتا تیاگی، تم انسانیت کے نام پر کلنک اور ذہنی طور پر بیمار ہو، ایسے لوگوں کو بچوں کے ارد گرد بھی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی انہیں ٹیچر جیسا مقدس مقام دیا جانا چاہئے۔‘‘
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک پہلی بار نہیں ہوا بلکہ مودی کی بی جے پی حکومت میں مسلم دشمنی کے واقعات متواتر پیش آرہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر ’’اللہ اکبر‘‘ کا ٹاپ ٹرینڈ اس وقت چلا جب ایک باحجاب مسلمان بھارتی لڑکی مسکان نے ہندوئوں کے نعرے جے شری رام کے جواب میں ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگایا اور وہ مزاحمت کی علامت بن گئی۔ یہ واقعہ بھارتی ریاست کرناٹک میں پیش آیا تھا جس میں ایک نہتی مسلمان لڑکی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنوں کے خلاف نعرہ بلند کرتے ہوئے نقاب کے حق میں آواز بلند کی اور اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ واضح رہے کہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں حجاب پہننے والی مسلمان طالبات کے تعلیمی اداروں میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔ نعرہ لگانے والی مسکان کا کہنا تھا کہ وہ کالج جارہی تھی کہ ہندو انتہا پسندوں نے اس کا راستہ روکا اور جے شری رام کے نعرے لگائے جس کے جواب میں انہوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ مسکان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی ویڈیو بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں وائرل ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین نے مسکان کو مزاحمت کی علامت قرار دیا۔
بچے کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اور انہیں نفرت نہیں محبت کا سبق دینا چاہئے۔ بھارت میں خاتون اسکول ٹیچر کا معصوم بچوں کے ذہنوں میں تعصب کا زہر گھولنا اور اسکول جیسے مقدس مقام کو نفرت کے بازار میں تبدیل کرنا کسی بھی استاد کیلئے باعث شرم اور استاد کے نام کی توہین ہے۔ معصوم مسلمان بچے کے ساتھ ناروا سلوک یہ ظاہر کرتا ہے کہ خاتون ہندو ٹیچر کے اندر اسلام مخالف کتنی نفرت بھری ہوئی ہے ، حالیہ واقعہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت کا نتیجہ ہے۔ مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مسلمانوں کے خلاف پھیلائے ہوئے تعصب اور فرقہ واریت کے زہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔پاکستان نے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے متعصبانہ سلوک کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے مگر افسوس ہے کہ اُسے عالمی سطح پر کوئی حمایت حاصل نہیں ہوئی جو مغرب کی منافقانہ پالیسی کا مظہر ہے۔
نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف ریاستی سطح پر نفرت میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور بھارت کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ کردی گئی ہے ۔ آئے روز اس طرح کے اسلام مخالف واقعات پیش آرہے ہیں۔ ایک طرف جہاں نام نہاد ’’شائننگ انڈیا‘‘ چاند پر اترکر دنیا پر اپنی بالادستی کے دعوے کررہا ہے، وہاں دوسری طرف بھارت میں معصوم مسلمان بچوں کو محض مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانا بھارت کی اخلاقی اور ذہنی پستی کو ظاہر کرتا ہے جس سے چاند پر پہنچنے والے نام نہاد بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔