مال گاڑی کے اِس آخری ڈبے سے نہ جانے کیوں ہمیشہ سے اس قدر رغبت رہی ہے کہ اگر آج بھی کہیں اس کی صرف تصویر بھی نظر آجائے، تو فورا اس پر سوار ہوجانے کا دل چاہتا ہے۔
بچپن ہی میں اپنے بڑوں کے ساتھ سفر کے لئے حسبِ ضرورت تمام ذرائع آمدورفت کےاستعمال کا تجربہ ہوگیا تھا۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹرین کا استعمال کم ہوتا رہا، لیکن اگر آپ ہندوستان میں ہوں، تو ریل گاڑی میں سفر کئے بغیر آپ کا دورہ یقیناً ادھورا رہے گا۔ اپنی کار پر بائی روڈ سفر کا ہندوستان ، پاکستان اور مغربی ممالک میں الگ الگ مزا ہے۔ جب کہ بس میں سفر کے لئے صرف مغربی ممالک ہی ٹھیک لگتے ہیں۔ ہوائی جہاز کی تیز فتاری کے سبب اس کی افادیت سے انکار نہیں، لیکن سڑک اور ٹرین پر سفر کرنا میرے خیال میں تعلیم حاصل کرنے جیسا ہوتا ہے۔ اس سے دیکھنے، جاننے، سوچنے، سمھجنے اور سمجھانے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ مثال کے طور پر ریل گاڑی کے سفر کے فورا بعد کسی موسیقار یا شاعر پر تھکن کی حالت میں بھی آمد ہوسکتی ہے۔ جب کہ ہوائی سفر کے بعد یہ کیفیت طاری ہونا شاید ممکن نہیں۔ کیوں کہ ہر شخص بہرحال فرانز کافکا یا منیر نیازی نہیں ہوسکتا!
بچپن میں ریل گاڑی سے کئے سفر یادداشت میں آج بھی محفوظ ہیں۔ اس لئے ذہن میں کبھی یہ ڈبہ کسی چلتی ہوئی مال گآڑی کے آخر میں لگا دکھائی دیتا ہے، کبھی کسی جنکشن پر کھڑی انتہائی لمبی مال گاڑی کے آخر میں لگا ساکت نظر آتاہے، اور کبھی کسی چھوٹے سے اُداس اسٹیشن کے کسی ویران حصے میں، خود رو گھاس میں چھپی خستہ حال پٹری پر کھڑا اکیلا بور ہوتا دکھائی دیتا ہے، جیسے ریل کی چمکتی ہوئی آہنی پٹڑیوں پر ایک طویل اور متحرک زندگی گزارنے کے بعد، ریٹائر منٹ لے کر گوشہ نشینی اختیار کرچکا ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا تھا جیسے یہ ڈبہ مال گاڑی کے پیچھے، باپ کا ہاتھ پکڑے کسی اسکول جاتے بچے کی طرح، اپنی مرضی کے خلاف زبردستی یا مجبوراً چل رہا ہو۔
یہ ڈبہ سب سے زیادہ کاو بوائے (cowboy) فلموں کے ڈرامائی مناظر میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ البتہ ڈبے کو اندر سے صحیح طور دیکھنے کی خواہش پہلی بار فلم شعلے دیکھ کر پوری ہوئی۔ فلم کے ابتدائی مناظر میں اس ٹرین سیکوئنس کو شوٹ کرنے کے لئے بوگیوں کے ساتھ گیارہ کیمرا باسکٹس (camera baskets) لگائی گئی تھیں۔ میرے تجزیئے کے مطابق یہ ہندوستانی فلم کم از کم پانچ کاو بوائے فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر کے زیر اثر بنائی گئی تھی: جب کہ فلم کی پس منظر موسیقی کم از کم دو فلموں میں شامل چار الگ الگ دھنوں کو ملا جلا کرتیار کی گئی۔ یہ ڈبہ دراصل ریلوے گارڈز بوگی کہلاتا ہے، اور اس منظر میں ریلوے گارڈ کا اس ڈبے میں مستقل غیر حاضر ہونا، فلم شعلے کی تمام غلطیوں میں سب سے بڑی غلطی ہے۔
بچپن میں سفر والد صاحب کی ہی نگرانی میں کئے۔ اگرچہ ہماری کم و بیش ہر ڈیمانڈ مان ہی لی جاتی تھی، پھر بھی حقیقت میں اس ڈبے کو اندر سے دیکھنے کی فرمائش کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوسکی۔
سال 1979 میں والدین اور بھائیوں کے ہمراہ ہندوستان گیا، تو ددیہالی کزن جاوید جمال بھائی کے ساتھ بیلتھرا روڈ سے براستہ بھٹنی جنکشن اپنے ننیہالی شہر سیوان تک جانے کے لئے ایک مختصر سے سفر پر نکلا۔ اس جنکشن پر پہنچتے ہی، ایک خاموش پٹڑی پر کھڑے ایسے ہی ایک ڈبے کو دیکھ کر دل مچل سا گیا۔ لہذا جاوید بھائی سے اپنی اس دیرینہ خواہش کا اظہار کرہی کردیا۔ جاوید بھائی پریشان سے ہوگئے، پھر بھی انہوں نے مرووت میں ایک مال گاڑی کے گارڈ سے بات کی، جس پر گارڈ نے اس خیال پر ناراض ہونے کے باجود ہمیں ڈبے میں بیٹھ کر سفر کرنے کی اجازت دے دی۔ بس پھر تو خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ رہی۔ شاید وہ زندگی کے بہترین سفر میں سے ایک ہو۔ “اب٘ا کو نہیں بتائیے گا،” سائیکل رکشہ پر بیٹھے واپس ددیہال پہنچنے سے چند لمحوں پہلے یہ میری جاوید بھائی سے مودبانہ اور معصومانہ سی درخواست تھی۔
اس کے بعد پاکستان میں ایک سے زیادہ بار میں نے یہ ڈبہ مال گاڑی یا پسنجر ٹرین کی بوگیوں کے بیچ میں بھی لگا دیکھا۔ سال اٹھاسی میں بھی بھارت یاترا کی، تو واپسی پر والدہ اور اپنے پھوپھی زاد ہندوستانی کزن کے ساتھ ٹیکسی میں علی گڑھ سے دلی سفر کررہا تھا۔ دلی شہر میں داخل ہونے کے کچھ دیر بعد ایک ریلوے پھاٹک پر ایک انتہائی سست رفتار اور لمبی مال گاڑی کے گزرنے کا انتظار کرنا پڑا۔ جب تک آخری ڈبہ گزرتا ہوا دیکھ نہیں لیا، میں نے پلک تک نہیں جھپکائی تھی۔
سال 2001 میں کراچی کی سرکلر ریلویز پر ایک دستاویزی فلم کی شوٹ کے دوران شہر کے سٹی اسٹیشن، کینٹ اسٹیشن اور پھر ملیر کینٹ اسٹیشن پر کم از کم چار یا پانچ مقامات پر یہ ڈبہ دیکھا۔ یقیناً میرے دیکھنے کا انداز ہی کچھ ایسا ہوگا کہ کیمرا مین کہنے لگا،”بوس اس ڈبے کے کچھ شاٹس بنا لوں کیا؟”
ریل گاڑی، ریلوے انجن، خاص طور پر بھاپ والے انجن، مال گاڑی، ریلوے اسٹیشن، خاص طور پر ریلوے جنکشن، پٹڑیاں، اور وہ مقام جہاں بہت ساری پٹڑیاں ایک دوسرے سے ملتی ہیں، ریلوے سگنل باکس، ریلویز کی مرمت کرنے والی گاڑیاں, اسٹیشن پر موجود کتابوں کے اسٹالز، و یٹنگ رومز، ریلوے اسٹیشن پر پٹڑی کراس کرنے والے آہنی پل اور رات کی اداسی میں کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر چائے بیچنے والے کی دھیمی سی آواز ۔۔۔ ان سب چیزوں میں مجھے نہ جانے کیوں ایک کشش سی محسوس ہوا کرتی تھی۔ اور ان احساسات کے خوشگوار باقیات نہ صرف اعصاب پر آج بھی سوار ہیں، بلکہ بچپن کی خوبصورت ترین یادوں میں بدستور شامل ہیں۔