یہ پہلی دفعہ تو نہیں ہوا فوج کے حاضر سروس افسران اور ان کی بیگمات کے خلاف کارروائیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔اس قسم کی پہلی کارروائی 1951ء میں ہوئی جب پاکستانی فوج کے ایک سینئر افسر میجر جنرل اکبر خان اور میجر جنرل نذیر احمد سمیت پندرہ افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں فیض احمد فیض سمیت میجر جنرل اکبر خان کی اہلیہ نسیم جہاں بھی شامل تھیں ۔فوج کے دس افسران اور پانچ سویلینزپر یہ الزام تھا کہ انہوں نے 23 فروری 1951ء کو ایک خفیہ اجلاس منعقد کیا جس کا مقصد حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرنا تھا۔ الزام لگایا گیا کہ باغیوں نے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعظم لیاقت علی خان سے استعفیٰ لیکر ایک عبوری حکومت قائم کرنی تھی جس نے فوری طور پر ملک میں عام انتخابات منعقد کرانے تھے ۔یہ مقدمہ راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا ۔ فیض احمد فیض اس وقت انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے انہوں نے ہمیشہ خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی لیکن ستم یہ ہوا کہ مسلح افراد کے کچھ افسران وعدہ معاف گواہ بن گئے اور یوں فیض احمد فیض سمیت دیگر ملزمان کا دفاع کمزور ہو گیا، یہ معاملہ فوجی بغاوت کا تھا لیکن ملزمان کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چلایا گیا بلکہ ایک تین رکنی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا، اس عدالت میں جسٹس سر عبدالرحمان، جسٹس محمد شریف اور جسٹس امیر الدین شامل تھے ۔
اے کے بروہی سرکاری وکیل تھے جبکہ بنگالی لیڈر حسین شہید سہروردی ملزمان کے وکیل تھے ،میجر جنرل اکبر خان 1948ء کی پاک بھارت جنگ کے ہیرو تھے ،میجر حسن خان نے گلگت بلتستان سے ڈوگرہ فوج کو نکالا تھا۔ اس لئے عام خیال تھا کہ ان افسران کا کشمیر پالیسی پر حکومت سے اختلاف تھا ۔نسیم جہاں تحریک پاکستان کی رہنما بیگم جہاں آرا شاہنواز کی صاحبزادی تھیں ۔18ماہ کے ٹرائل کے بعد نسیم جہاں کو بری کر دیا گیا ۔فیض احمد فیض سمیت دیگر سویلینز کو چار سال قید اور فوجی افسران کو بارہ سال قید کی سزا ہوئی ۔1956ء میں حسین شہید سہروردی وزیر عظم بنے تو انہوں نے تمام سزا یافتگان کی رہائی کا حکم دے دیا۔ان افسران کو سزا دلوانے میں جنرل ایوب خان نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن بعدازاں انہی صاحب نے گورنر جنرل اسکندر مرزا کی ملی بھگت سے پاکستان میں پہلی کامیاب فوجی بغاوت کی اور کچھ عرصہ کے بعد اسکندر مرزا کو بھی فارغ کر دیا۔
جنرل ایوب خان کے جبرو استبداد کے خلاف آوازبلند کرنے والے لاتعداد سیاست دان، صحافی اور ادیب گرفتار کئے گئے اسی دور میں سندھ کے ممتاز شاعر شیخ ایاز کو گرفتار کرکے ساہیوال جیل میں قید کیا گیا۔ شیخ ایاز نے ’’ساہیوال جیل کی ڈائری ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دن انکی بیٹی زرینہ نے روتے ہوئے اپنے باپ سے کہا کہ بابا آپ شاعری چھوڑ کیوں نہیں دیتے تاکہ آپ بار بار گرفتار نہ ہوں؟ شیخ ایاز نے اپنی بیٹی کو تسلی دی اور کہا کہ گھبرائو نہیں جنرل ایوب خان بہت جلد تباہ ہو جائے گا۔جنرل ایوب خان کا دور ختم ہوا تو جنرل یحییٰ خان اقتدار میں آگیا۔یحییٰ خان کے خلاف نظمیں لکھنے پر بہت سے شاعر اور ادیب گرفتار ہوئے جن میں حبیب جالب سرِفہرست تھے۔ جالب صاحب 19دفعہ گرفتار ہوئے دوبار انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔انہوں نے آدھی زندگی جیلوں میں گزار دی جنرل ضیاءالحق نے ابھی مارشل لا نہیں لگایا تھا کہ احمد فراز کی ایک نظم پر وہ غصے میں آ گئے، ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اپوزیشن کے جلسے جلوسوں کے باعث دبائو میں تھی جنرل ضیاالحق نے احمد فراز کو گرفتار کیا اور فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کیلئے کارروائی شروع کر دی۔ احمد فراز کو اٹک جیل بھیج دیا گیا لیکن اس دوران بھٹو نے جنرل ضیاء کو احمد فراز کی رہائی پر آمادہ کرلیا۔ رہائی کے بعد احمد فراز نے بھٹو سے کہا کہ جنرل ضیاء پر اعتماد نہ کریں اور کچھ ہفتوں بعد جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگا دیا۔
ضیاء دور میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو صرف جیلوں میں ہی نہیں ڈالا گیا بلکہ فوجی عدالتوں سے انہیں پھانسیوں اور کوڑوں کی سزائیں بھی سنائی گئیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو ججوں کو ان کے گھروں پر نظر بند کر دیا گیا۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ فوجی عدالتیں صرف فوجی آمروں کے دور میں نہیں بنیں۔سیاسی حکومتوں کے دور میں بھی فوجی عدالتیں بنائی گئیں۔ یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں شروع ہوا محترمہ بے نظیر بھٹو سے 1990ء میں کہا گیا کہ کراچی اور حیدر آباد میں فوجی عدالتیں بنائی جائیں انہوں نے انکار کیا تو انکی حکومت برطرف ہو گئی لہٰذا بعد میں آنے والی ہر سیاسی حکومت نے فوجی عدالت بنائی بلکہ اس مقصد کیلئے آئین میں ترمیم بھی کر دی گئی۔ یہ آئینی ترمیم ایک مخصوص مدت تک کیلئے تھی۔جب یہ مدت ختم ہو گئی تو عمران خان کے دور حکومت میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رہا۔ اب شہباز شریف کے دور میں بھی فوجی عدالتیں بن گئی ہیں اور عمران خان کے حامی یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پہلی دفعہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل ہونے لگا ہے۔ عمران خان کے حامیوں کا کمال یہ ہے کہ آج کل وہ پاکستان میں اپنے علاوہ کسی دوسرے کو مظلوم نہیں سمجھتے ۔اگر میں کہیں یہ لکھ دوں کہ 14سال سے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو بازیاب کیا جائے تو تحریک انصاف والے غصے میںآ جاتے ہیں اور کہتے ہیں ڈاکٹر دین محمد بلوچ تو دہشت گرد تھا، اس کو چھوڑو ہمارے گرفتار ساتھیوں کی بات کرو۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اپنی قیادت کی چالاکیوں سے بے خبر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کمانڈوز کو یہ معلوم نہیں کہ پچھلے دنوں انکی پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ قائم کیا اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے مشترکہ محاذ بنانے کی تجویز دی ۔ مولانا صاحب نے رابطہ کاروں کو سکھوں کے کچھ لطیفے سنا کر فارغ کر دیا۔میں ذاتی طور پر ایک نہیں تین مختلف صاحبان کو جانتا ہوں جنہوں نے تحریک انصاف اور پی ڈی ایم میں مصالحت کیلئے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا لیکن مولانا پکڑائی نہیں دیئے۔میں سیاسی جماعتوں میں ہر موضوع پر ڈائیلاگ کا حامی ہوں لیکن تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ تاثر دینا بند کریں کہ جو گرفتاریاں، مقدمے اور پابندیاں آج ہیں وہ پہلے کبھی کسی پر نہیں تھیں ۔اگر آج تحریک انصاف پر جھوٹے مقدمے قائم ہیں تو انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ جب وہ حکومت میں تھے تو انہوں نے بھی مخالفین پر جھوٹے مقدمےبنائے، انہیں تسلیم کرنا ہو گا کہ اگر آج فوجی عدالتیں بنائی گئی ہیں تو ماضی میں یہی کام انہوں نے بھی کیااور تحریک انصاف کو یہ بھی ماننا ہو گا کہ ایک کام جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا لیکن وہ کام صرف انہوں نے کیا ۔پہلی دفعہ ایک سیاسی جماعت نے جی ایچ کیو سمیت دیگر فوجی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ بنایا، پکڑے بھی گئے اور مانتے بھی نہیں۔