
یہ ایک طے شدہ عالمی اصول ہے کہ دو یا دو سے زیادہ ملکوں میں بہنے والے مشترکہ دریاؤں پر جو ملک پہلے کوئی منصوبہ بنا لیتا ہے اس پانی پر اس کا حق تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ ہم منگلا اور تربیلا کے بعد پچھلے پچاس سال میں کوئی اور سٹوریج ڈیم نہیں بنا سکے تو پڑوس کا کیس بن جاتا ہے کہ پاکستان کو تو پانی کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ وہ اسے سمندر میں بہا رہے ہیں لہذا ہمارے ملک نے ڈیم بنا لیا۔وہ عالمی عدالتوں میں پچھلے ستر سال میں پاکستان کی طرف سے سمندر میں پھینکے جانے والے پانی کا ریکارڈ پیش کر دیتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ ہم ان تمام دریاؤں کے سب سے نچلے حصہ دار ہیں ( ڈاؤن سٹریم رائیپیرئن)۔ دریاؤں کے اوپر والے حصہ دار اگر کچھ ڈیم اور دیگر منصوبے بنا کر ہمارا پانی روک لیتے ہیں تو ہم بے بس ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے تھے کہ جلد از جلد ان تمام دریاؤں پر اسٹوریج ڈیم بنا کر اپنا حق ان دریاؤں کے پانی پر جما لیتے جس سے کسی بھی عالم ثالثی فورم پر کسی بھی ملک کو اخلاقی اور قانونی طور پر نیا ڈیم یا کوئی اور منصوبہ بنانے کے لئے کلین چٹ نہ مل سکتی –

پڑوس نے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کے پانیوں کو موڑنے کے لئے خصوصی ٹاسک فورس بنائیں۔ اسٹرٹیجک بنیادوں پر کام کیا۔ وہاں ہر تبدیل ہونے والی حکومت نے اسے جاری رکھا اور عالمی فورمز پر بھرپور تیاری سے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے ۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہے دریائے چناب پر مزید 24 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید 190 ڈیم فزیبلٹی رپورٹس ، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔
تاہم ہمارے ہاں یہ کام ایڈ ہاک ازم کا شکار رہا۔ڈنگ ٹپاو پالیسی کے تحت مختلف ادوار میں یہ کام مختلف اداروں کے سپرد کیا جاتا رہا۔ اس کا کسی ایک جگہ فوکس نہیں بن سکا اگرچہ انڈس واٹر کمشنر کا عہدہ اس کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا دائرہ کار بھی اسٹرٹیجی سے زیادہ سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ اور کسی خلاف ورزی کی صورت میں حکومت کو خبردار کرنے کی حد تک محدود رہتا ہے۔
واپڈا نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ۔ بگلیار ڈیم ہو یا کشن گنگا کا منصوبہ یا پھر دوسرے منصوبے۔ واپڈا کے انجنئیرز سے جب بھی اور جس طرح کی مدد طلب کی گئی انہوں نے اسے قومی خدمت سمجھ کر ہر طرح سے اس کا دفاع کیا۔ تاہم اس کام کے لئے جتنے وسائل یا اعلی قومی سطح کی اونرشپ چاہئے تھی وہ نہ ملی اور اعلی قیادت نے اسے روٹین کے کام کی طرح ڈیل کیا۔
پانی کا مسئلہ پاکستان جیسے سے زرعی ملک کے لئے بقا کا مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لئے جنگی بنیادوں پر اٹامک انرجی کمیشن طرز کا “اسٹریٹیجک واٹر ڈیٹرینس ڈویژن “ تو سندھ طاس معاہدے کے بعد سے ہی قائم ہوجانا چاہئے تھا جس کا کا کام پانی کے معاملے پر پڑوس کو سرپرائز کے اوپر سرپرائز دینا ہوتا اور ہم ان سے دو قدم آگے رہتے تو یہ صورت حال نہ ہوتی۔ لیکن ہماری تو قومی واٹر پالیسی ہی 2018 میں آئی جب کہ ہندوستان یہ پالیسی ستر کی دھائی میں بنا چکا تھا۔
اب میز الٹ چکی ہے۔ پڑوس ہمیں اپنی مرضی سے پانی کے معاملے میں کھلا رہا ہے۔ واضح رہے کہ دو سال قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے۔لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟

یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس پر عوامی رائے یا غم و غصہ کچھ نہیں کرسکتا اور نہ ہی روایتی بیانات یا حکومتی طریقہ کار۔ سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ پانی کو ایک دفاعی اثاثہ سمجھتے ہوئے PAEC کی طرز پر فوری طور پر سر یع الفعال “واٹر ڈیٹرینس ڈویژن” قائم کیا جائے جس کے پاس نہ تو وسائل کی کمی ہو اور نہ ہی یہ اعلی دفاعی سر پرستی سے محروم ایک یتیم ادارہ ہو۔

مٹھی سے ریت آہستہ آہستہ گر تی جا رہی ہے۔ مقابل کے واٹر اسٹرائیک کو آپ کبھی بھی حملہ کرکے اور ان کے ڈیم اڑا کر ناکام نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے بعد آپ کے چند ایک موجود آبی اثاثے بھی اڑ جائیں گے۔