ہمارے یہاں سیاستدانوں کے ’تبادلے‘ اس طرح ہوتے ہیں جیسے پولیس والوں کے، آج اس تھانے میں تو کل اس تھانہ میں۔ پوسٹنگ بھی ’ صلاحیتوں‘ کی بنیاد پرکی جاتی ہے۔ آجکل بھی یہ عمل جاری ہے اور جن لوگوں کو دوسری جماعتوں سے ایک جماعت میں بھیجا گیاتھا وہاں سے واپسی کا سفر جاری ہے مگر جولوگ اس عمل سے خوش ہورہے ہیں ان کیلئے بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ’’چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔‘‘
کٹھ پتلی کا یہ کھیل تماشہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہرچند سال بعد مارکیٹ میں ایک نئی فلم پرانے اسکرپٹ کے ساتھ نمائش کے لئے پیش کردی جاتی ہے۔کچھ نئے کرداروں کے ساتھ۔ کمپنی توایک ہی ہے مگر قلمکار اور ہدایت کار بدل جاتے ہیں اور ہر نئے آنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ مارکیٹ میں اس کی تیار کردہ فلم چلے۔ اب چونکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے تو چند سال سے ایک نئی اصطلاح استعمال ہورہی ہے، ’سافٹ وئیر اپ ڈیٹ‘ ۔سمجھدار لوگ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنا سافٹ وئیر خود ہی اپ ڈیٹ کرلیتے ہیں کچھ کا کردیاجاتا ہے جو مزاحمت کرتے ہیں ان کے سافٹ وئیر میں وائرس آ جاتا ہے۔
چند سال پہلے ایک نئی فلم ’تبدیلی‘ پر کام شروع ہوا اس کا مرکزی کردار ایک خوبرو، دراز قد اور اپنے زمانے میں کرکٹ کا بے تاج بادشاہ تھا۔اب چونکہ اسکرپٹ پرانا تھا لہٰذا ٹارگٹ یہ تھا کہ اس کو پرانے کھلاڑیوں کو شکست دینی ہے جو اصل مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس نئی فلم کا ہیرو وہی تھا اور آہستہ آہستہ عوام میں اس کو پذیرائی ملنا شروع ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ اس کا سیاست میں آنے سے پہلے جانا پہچانا چہرہ تھا اور وہ پہلے ہی لوگوں کا ہیرو تھا۔ فلم کے ہدایت کار نے ماضی کی اپنی ہی تیار کی ہوئی فلموں کے ہیروز کو اس بار ’ولن‘ کے طور پرپیش کیا۔ اس سے بہرحال لوگوں کے ذہنوں میں اس سوال نے ضرور جنم لیا کہ بھائی کبھی کسی کردار کو ہیرو بناکر پیش کرتے ہو پھر اسی کو ولن بنا دیتے ہو۔ کبھی کہتے ہو تالیاں بجائو کبھی تالی بجانا ہی جرم ٹھہرتا ہے۔
یہی کچھ اس نئی فلم ’تبدیلی‘ کے ساتھ ہوا۔ فلم کا ٹریلر 2013 میں پیش کیا گیا اور اسے سب سے بہتر تبدیلی کے طور پر متعارف کرایا گیا عوام میں بھی اسے پذیرائی ملی مگر چونکہ اس کمپنی کے ماضی میں تیار کئے ہوئے ہیروئوں کو ابھی قوم ولن کے طور پر قبول کرنے پر تیار نہیں تھی تو اس فلم پر زیادہ محنت کی گئی اور وہ آخرکار ’ولن‘ کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگیا۔ 2018 میں یہ فلم نمائش کیلئے پیش کردی گئی اور ملک بھر میں اس کی نمائش ہوئی ابھی فلم کی ’ہائوس فل‘ نمائش جاری تھی کہ فلم کے ہیرو اور ہدایت کار میں اختلافات پیدا ہونا شروع ہوگئے ہدایت کار کو ہیرو کے ضرورت سے زیادہ طاقتور ہونے پر اعتراض تھا جبکہ ہیرو کا کہنا تھا کہ فلم ’تبدیلی‘ تو چلی ہی اسی کی وجہ سے ہے اور اگر اسے نیچا دکھایا گیا تو نقصان فلم سے زیادہ ہدایت کار کا ہوگا۔ بات اختلافات سے آگے نکل گئی تو آخرکار فلم تبدیلی کو تبدیل کردیا گیا اور یوں فلم اپریل 2022 میں سینما گھروں سے اتار دی گئی۔ مگر اس اچانک فیصلے کو لوگوں نے آسانی سے قبول نہ کیا جس کی بڑی وجہ فلم میں ولن کو دوبارہ ہیرو بناکر پیش کرنا تھا۔ اس نے لوگوں کو یہ سوال کرنے پر مجبور کردیا کہ بھائی ایک بار طے کرلو فلم کا ہیرو کون ہے اور و لن کون۔
اب پچھلے ایک سال سے فلم ’تبدیلی‘ کا ہیرو اس تبدیلی کو قبول کرنے پرتیار نہیں اور اس نے نہ صرف فلم کمپنی کے خلاف بلکہ فلم ساز اور ہدایت کار کے خلاف ’بغاوت‘ کردی ہے۔ پہلے تو معاملہ صرف بیانات کی حد تک تھا مگر اب وہ کسی ایسی کمپنی کو قبول کرنے کو تیار ہی نہیں جو نئی فلم میں اسے ہیرو لینے پر تیار نہیں۔ اس نئی کشمکش کے باعث فلم تبدیلی کی نمائش نئے کرداروں کے ساتھ اس سال ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آرہی ہے۔ لوگوں کا اصرار ہے کہ اگر تبدیلی ہی لانی ہے تو کردار بھی نئے رکھے جائیں اور برسوں پرانے کٹھ پتلیوں کے کھیل کو اب ختم کیا جائے جس سے فلم ساز اور ہدایت کار سے زیادہ خود کمپنی بدنام ہورہی ہے۔ اب لوگ اس روز روز کے تماشے سے تنگ آچکے ہیں۔ عوام کیلئے یہ اسکرپٹ پرانا ہے مثلاً کب تک لوگ ’ چربہ فلمیں‘دیکھتے رہیں۔ ہر بار ہمیں کہا جاتا ہے کہ اس کا آنا قومی مفاد میں ہے اور اس کا جانا ملکی مفا د ہے۔ آج سے یہ آپ کا ہیرو اور یہ آپ کا ولن
تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیئرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفرنہ تھے
آخر کب تک ہم اس ملک میں اس طرح کی فلمیں پیش کرتے رہیں گے۔ کمال ہے جس ملک میں سافٹ وئیر تیار کرنے کی صلاحیت نہ ہو اس نے اسے اپ ڈیٹ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ بہرحال سیاستدانوں یا یوں سمجھ لیں سیاسی تھانیداروں کے تبادلے کا عمل جاری ہے جس کی ایک جھلک شاید ہمیں کراچی میں بھی نظر آئے ویسے اس شہر میں تبادلے بھی سب سےز یادہ اور تیزی سے ہوتے ہیں لاوارث شہر ہے جسے چاہو نیا افسر مقرر کردو۔
75سال سے ایک ہی اسکرپٹ ہے جس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب خود ملک کا سافٹ وئیراپ ڈیٹ کردیا گیا ایک ویلفیئر اسٹیٹ سےسیکورٹی اسٹیٹ بناکر… وہ دن ہے اور آج کا دن اس ملک میں ’جمہوریت‘ نام کی فلم چلنے ہی نہیں دی گئی۔ اس پرانے اسکرپٹ میں سیاست ایک گناہ سے کم نہیں اور سیاستدان ایک ولن کے طور پرجانے جاتے ہیں۔ جہاں ولن آپس میں ’علاقہ‘ پر قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اگر اسکرپٹ کے مطابق کوئی چلتا رہتا ہے تو اس کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے اگر اس نے کچھ آگے پیچھے ہونے کی کوشش کی تو ’ہدایت‘ کار اس کا کردار ہی تبدیل کردیتا ہے۔
اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے فرق صرف یہ ہے کہ فلم ’تبدیلی‘ کو ریلیز کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے اور عین ممکن ہے کہ اگر بات نہ بنی تو اس فلم پر پابندی نہ بھی لگے تو اس کی نمائش اس سال مشکل نظر آرہی ہے۔ اب دیکھئے مزید کتنے تھانیدار تبدیل ہوتے ہیں جس کی ایک جھلک عین ممکن ’ہیرو‘ کی تبدیلی کی صورت میں نظر آئے مگر کیا عوام اسے قبول کریں گے۔ خدارا اسکرپٹ تبدیل کریں۔