میں ایک موٹر سائیکل سوار ہوں۔ کراچی جیسے شور و ہنگامے سے بھرپور شہر میں روز صبح جب میں اپنی بائیک پر گھر سے نکلتا ہوں، تو صرف سڑکوں پر سفر نہیں کرتا، بلکہ اپنے خاندان کی ذمہ داریوں، مہنگائی کے بوجھ، اور قانون کے دوہرے معیار کے ساتھ لڑتا ہوں۔پورے خاندان کی کفالت میرے کندھوں پر ہے۔ دو وقت کی روٹی، بچوں کی فیس، گھر کا کرایہ، بجلی و پانی کے بل—سب میرے محدود وسائل سے جڑے ہیں۔ ان تمام ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے میں اپنی موٹر سائیکل پر روز کام پر نکلتا ہوں، مگر میری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹریفک کا دباؤ نہیں، بلکہ ٹریفک پولیس کی وہ مخصوص نظر ہے جو ہمیشہ مجھ جیسے غریب بائیک سواروں کو ہی دیکھتی ہے۔چالان کے بہانے ڈھونڈنا جیسے ایک معمول بن چکا ہے۔ کبھی سائیڈ پر کھڑا کرنے پر چالان، کبھی ہیلمٹ کی پٹی ڈھیلی ہونے پر جرمانہ، اور کبھی صرف اس لیے روک کر "کچھ نہ کچھ” وصولی، کیونکہ میں آسان ہدف ہوں۔ مگر انہی اہلکاروں کے سامنے سے بڑی بڑی گاڑیاں کالے شیشے لگائے، ہوٹر بجائے، جعلی سرکاری نمبر پلیٹس کے ساتھ بے روک ٹوک گزر جاتی ہیں۔چنگچی رکشہ ڈرائیور، جن کی عمر بمشکل 15 سے 18 سال ہوتی ہے، لائسنس کے بغیر پانچ چھ اضافی سواریاں بٹھا کر خطرناک انداز میں سڑکوں پر دوڑتے ہیں۔ نہ ان کی گاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں، نہ فٹنس چیک ہوتی ہے، مگر پھر بھی انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہے۔
سوزوکی، لوڈنگ گاڑیاں، پرانی ویگنیں اور ناقص بسیں، سب کے سب صبح ایک بار چالان کروا کر پورا دن دھڑلے سے خلاف ورزی کرتی ہیں۔ واٹر ٹینکرز تیز رفتاری سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے ان پر کسی قانون کا اطلاق ہی نہیں۔ نہ بریک لائٹس، نہ دروازے، نہ فٹنس سرٹیفکیٹ۔ پانی سڑکوں پر بہتا رہتا ہے، گڑھے پڑتے ہیں، حادثات ہوتے ہیں، مگر کوئی روکنے والا نہیں۔اگر میں کہیں غلطی سے اپنی بائیک کھڑی کر دوں، تو لفٹر فوراً آتا ہے، بائیک اٹھا کر لے جاتا ہے۔ پھر مجھے 200 سے 700 روپے تک دینے پڑتے ہیں، چاہے میری جیب میں پھوٹی کوڑی نہ ہو۔
شہر بھر میں پارکنگ مافیا بھی موٹر سائیکل سواروں کی کھال اتارنے میں پیش پیش ہے۔ سرکاری فیس صرف 10 روپے مقرر ہے، مگر پارکنگ مافیا 50 روپے تک وصول کر رہی ہے۔ اگر کوئی رسید مانگ لے تو گالم گلوچ، بدتمیزی اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ بھی ایک خاموش بھتہ خوری ہے جس پر کسی ادارے کا کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا۔
کراچی میں اس وقت اندازاً 90 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں رجسٹرڈ ہیں، جو اس شہر کی ٹریفک کا بڑا حصہ ہیں۔
سال 2024 کے دوران کراچی میں تقریباً 9,000 ٹریفک حادثات رپورٹ ہوئے، جن میں 771 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 8,174 زخمی ہوئے۔جبکہ رواں سال میں ٹریفک حادثات میں 238 افراد جاں بحق اور 3131 افراد زخمی ہوئے۔صرف عید کے تین روز میں 165 افراد مختلف ٹریفک حادثات میں زخمی ہوئے،ان تمام حادثات میں 54 فیصد کیسز موٹر سائیکل سواروں سے متعلق ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سب سے زیادہ جانی نقصان ہم ہی اٹھاتے ہیں۔یہ سوال اہم ہے کہ کیا واقعی ہر حادثے کے ذمہ دار صرف موٹر سائیکل سوار ہی ہوتے ہیں؟ کیا وہ ٹینکر، چنگچی، پرانی بسیں، بےقابو ٹریلرز، اور فٹنس و لائسنس کے بغیر سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں ان حادثات میں برابر کی شریک نہیں؟
اگر ٹریفک پولیس کچھ وقت کے لیے موٹر سائیکل سواروں پر چھاپوں کے بجائے دیگر گاڑیوں، بسوں، ویگنوں، چنگچی رکشوں، ٹینکرز اور ٹریلرز کی فٹنس، لائسنس، اور رویے پر توجہ دے، تو ٹریفک کے مسائل میں واضح کمی آ سکتی ہے۔
ٹریفک قوانین کا اطلاق سب پر یکساں ہو، تب ہی یہ شہر محفوظ ہو سکتا ہے۔
میں صرف ایک موٹر سائیکل سوار نہیں، میں ایک خاندان کی امید ہوں۔
یہ بڑی گاڑیاں صرف مجھے نہیں کچلتیں، بلکہ میرے خوابوں، میرے بچوں کے مستقبل اور پورے خاندان کو روندتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔
میں قانون کی خلاف ورزی نہیں چاہتا، مگر چاہتا ہوں کہ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہو۔
میں ایک عام شہری ہوں، میری آواز شاید بہت دور تک نہ جائے، مگر میں صرف اتنا پوچھتا ہوں:
مجھے انصاف کب ملے گا؟