ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے ضلع مہرستان کا گاؤں حیض آباد ہے ۔ یہاں استاد دلشاد کی گاڑیوں کی ورکشاپ تھی ۔جس پر اس کا نوجوان بیٹا نعیم، جعفر، دانش، ناصر اور ان کے تین ساتھی بھی کام کرتے تھے ۔ 12 اپریل کی رات کو وہ بیٹھے کھانا کھارہے تھے ۔اچانک باہر سے گاڑیوں کے انجن کی آوازیں سنائی دیں۔ پہلے تو کسی کو سمجھ نہ آئی کہ رات کے اس پہر کون آ پہنچا ہے، لیکن جب گھُپ اندھیرے میں سفید روشنی والی ہیڈلائٹس نظر آئیں تو سب کے دل میں وسوسے آنے لگے۔ قریبی علاقے کے بلوچ مہربان لوگوں سے اکثر ان کا میل جول تھا، لیکن آج حالات مختلف محسوس ہورہے تھے۔ دھیمی سی سرگوشیاں، گاڑیوں سے اُترتے چند مشکوک افراد، اور پھر ان کے ہاتھوں میں بندوقیں…
کچھ ہی دیر میں ان مکینکوں کو اندازہ ہو گیا کہ یہ مسلح لوگ عام قبائلی یا سرحدی محافظ نہیں بلکہ کسی دہشتگرد گروہ کے کارندے ہیں۔ ان میں سے ایک نے بلند آواز میں حُکم دیا کہ سب پاکستانی مزدور اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیں۔
دلشاد نے ہمت کر کے پوچھا، “ہم سے کیا چاہتے ہو بھائی؟ ہم تو محنت کش لوگ ہیں، بس دو پیسے کما کر گھر لوٹ جانا چاہتے ہیں۔” لیکن جواب میں ایک خوفناک قہقہہ گونجا اور وحشت ناک الفاظ سنائی دیے کہ تم لوگ غیر ملکی ہو، اور یہاں تمہاری موجودگی بغاوت کی علامت ہے۔
بی این اے کے اس گروہ میں سے ایک شخص نے نہایت سرد مہری سے کہا، “چُپ رہو! ورنہ یہیں دفن کر دیں گے!”۔ دہشتگردوں نے تیزی سے سب کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھ دیے۔ کچھ مزدوروں کی مزاحمت بھی ناکام رہی۔ ناصر کو ایک کاندھے پر بندوق کا بٹ مارا گیا، جعفر کو دھکا دے کر زمین پر گرا دیا گیا۔ دلشاد کے ہاتھ پکڑ کر اس قدر زور سے رسی کس دی گئی کہ اس کے کلائیوں پر سرخ نشان پڑ گئے۔ نعیم اپنے باپ کو بچانے کی کوشش میں چیختا چلاتا رہا، مگر دہشتگردوں نے اسے بھی قابو کر لیا۔
سب کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا: آخر ہم سے چاہا کیا جاتا ہے؟ ہمارے پاس تو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں—نہ کوئی دولت، نہ سیاسی رتبہ—صرف محنت مزدوری ہی تو تھی۔مگر ان گروہوں کے مقاصد کچھ اور ہی تھے۔ بی این اے، بی ایل اے، اور بی ایل ایف جیسے دہشتگرد تنظیموں کا وطیرہ بن چکا ہے کہ بے گناہ مزدوروں، اساتذہ، اور مسافر گاڑیوں پر حملے کر کے انہیں ہلاک کریں، تاکہ پاکستان اور خطے میں خوف و ہراس پھیلا سکیں۔ پھر بھلے وہ ایران کی حدود میں ہوں یا پاکستان کے اندر۔ اس بد نصیب رات کو بھی انہوں نے یہی درندگی دکھائی۔ ان 8 پاکستانی مزدوروں کو رسیوں سے جکڑنے کے بعد ایک قطار میں بٹھا دیا گیا۔ کسی نے چیخ کر رحم کی التجا کی تو کسی نے خدا کو پکارا، مگر دہشتگردوں کے دلوں میں نہ رحم تھا، نہ انسانیت۔
دور پہاڑوں کے عقب سے سرد ہواؤں کے جھونکے آ رہے تھے۔ ان مزدوروں کی دھڑکنیں یوں تیز تھیں جیسے ابھی سینہ پھاڑ کر باہر آ جائیں گی۔ پھر ایک دہشتگرد نے اپنی بندوق کی نالی سے اشارہ کیا۔ اس کے ساتھی نے ظلم کی ایک آخری حد کو عبور کرتے ہوئے ان لوگوں کو باری باری گولیوں کا نشانہ بنایا۔ نعیم نے آخری لمحوں میں اپنے باپ کے کندھے پر نگاہ ڈالی، جیسے تڑپ کر کہنا چاہتا ہو، “بابا! ہمیں بچا لو!” مگر سب نگاہیں موت کی اذیت میں ڈوبتی چلی گئیں۔ چند لمحوں کی گولیوں کی گن گرج کے بعد صحرا میں وہی خاموشی چھا گئی جسے اب لاشوں کی خاموش چیخیں بھی توڑ نہیں سکتی تھیں۔
اس سفاکانہ خونریزی کے بعد دہشتگرد وہاں سے فرار ہوگئے، جبکہ جائے وقوع پر خون کے نشانات بچ گئے۔ اگلے دن گاؤں حیض آباد اور مہرستان کے آس پاس خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ایرانی حکام نے روایتی طور پر صرف ایک محدود جانچ پڑتال کی اور واقعہ درج کرنے پر اکتفا کیا۔ پاکستان کے اندر بھی ایک ہلچل مچ گئی۔ لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس ظلم کا نوٹس لیا جائے۔ مگر پاکستانی مزدوروں کے گھر والوں کی فریاد زیادہ اثر نہ لا سکی۔ میڈیا نے کچھ دیر کو خبریں چلائیں، پھر خاموشی چھا گئی۔
دلشاد، نعیم، جعفر، دانش اور ناصر کے خاندانوں تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ دلشاد کی بیوہ پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔ نعیم کی ماں اپنے نوجوان بیٹے کی لاش کا تصور کر کے روتی رہی۔ جعفر کی منگیتراپنے ہاتھوں کی مہندی کی طرف دیکھتی تو آنسو بہاتی کہ اس کے خواب بکھر گئے۔ دانش کے بوڑھے باپ نے بین کرتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا تو گنہگار بھی نہ تھا، وہ تو اپنے رزق کی تلاش میں نکلا تھا۔ ناصر کے گھر والوں نے رو رو کر دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بیٹے کی قربانی کو قبول کرے اور اس کا قاتل جلد اپنے انجام کو پہنچے۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ انسانی حقوق کی تنظیموں میں سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ نہ تو بلوچستان یکجہتی کمیٹی (BYC) نے اس واقعے کی مذمت کی، نہ ہی ماہرنگ بلوچ کی ساتھی جیسے قوم پرست رہنماؤں نے اس وحشیانہ حملے کو بلوچ روایات کے منافی قرار دیا۔ ان کی زبانیں گنگ تھیں، جیسے انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ سرحد پار ایرانی علاقے میں بی این اے کے دہشتگردوں نے غریب مزدوروں کو محض اس لیے مار ڈالا کیونکہ وہ پاکستانی تھے۔ کوئی پُرسہ دینے نہ آیا، کوئی موم بتی مارچ نہ نکلا، کوئی ٹوئٹر ٹرینڈ نہ بنا۔
یہی تنظیمیں اور نام نہاد رہنما اس وقت تیزی سے میدان میں آ جاتے ہیں جب پنجگور یا گوادر میں سیکیورٹی فورسز کا دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ہوتا ہے، یا حب اور کیچ کے علاقوں میں ان کے سہولت کار گرفتار ہوتے ہیں۔ تب بین الاقوامی اداروں کو خطوط، ٹوئٹر پر ہیجانی ماحول اور میڈیا میں “ظلم” کے نعرے لگتے ہیں۔ مگر وہ ان غریب مزدوروں کے لیے کچھ نہیں بولتے جو بے بسی سے قتل کر دیے گئے۔ یہ رویہ انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ تھا۔