پندرہ سال پہلے والی ملاقات اور بعد والی میں بڑا فرق تھا۔1994، 1995 میں پہلی بار سیکریٹریٹ گیا تھا ایک دوست کے ساتھ اس کے والد کے پینشن پیپر بنوانے کے لیے تو ایک نوجوان سیکشن افسر سے کھڑے کھڑے مختصر ملاقات ہوئی تھی ، اس وقت وہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں کام کرتے تھے۔دور سے دیکھنے اور ساتھ بیٹھنے والی ملاقات میں بڑا فرق ہے۔اتنا ضرور یاد ہے وہ جب محکمہ داخلہ میں ایڈیشنل سیکریٹری تعینات تھے تو اس کے پاس بطور صحافی جانا ہوتا تھا۔میں سندھی چینل میں کام کرتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دو چار ملاقاتوں کے بعد اس نے اپنے پی ایس کو کہہ دیا تھا آئندہ منصور بھائی جب بھی آئینگے آپ اس سے پرچی / وزٹنگ کارڈ نہیں مانگے گے اور براہ راست میرے روم میں چھوڑ دینا ہے۔ اس بات کو بھی تیرہ، 14 سال ہوگئے ہیں مجھے یاد نہیں میں اس کے پاس گیا ہوں بغیر چائے، کافی اور عزت دیے واپس بھیجا ہو۔14 مئی 2023 کی وہ شام جب دفتر میں کام کررہا تھا تو اپنے صحافی ساتھی آفتاب چنہ کا میسیج آیا کہ سیکریٹری ورکس اینڈ سروسز عمران عطا سومرو کو دل کا دورہ پڑا ہے جسے اسپتال منتقل کیا گیا ہے، تمام دوستوں سے دعا کی درخواست ہے۔جیسے واٹس اپ میسیج پر نظر پڑی تو میں چونک گیا فوری طور دوستوں کو فون کیا تو پتا چلا کہ اس کی حالت خراب ہے، دعا کریں۔ اسی اثناء میں عمران بھائی کے ساتھ گذرے ہوئے وقت کو یاد کررہا تھا اور ان کے احسانات کو بھی . اچانک دوسری خبر چل بسنے کی آئی۔۔!! سوچ ہی رہا تھا کہ دہڑا دہڑ واٹس اپ گروپوں میں عمران عطا سومرو کے انتقال کی خبریں آنے لگیں، دیکھتے ہی دیکھتے کافی دوست مجھے فون کرکے تصدیق کرنا چاہتے تھے۔ خیر وہ اللہ کو پیارے ہوگئے،ان کی دو بیٹیوں کی لندن سے واپسی پر تین دن کے بعد ان کی نماز جنازہ اور تدفین شکارپور کے بجائے کراچی میں کرکے ان کی فیملی نے ہم سب پر یہ احسان کیا، کیونکہ اکثر ہمارے ساتھیوں کے انتقال کے بعد فیملی ان کی میت کو آبائی قبرستان میں تدفین کرتی ہے جس سے بہت سارے لوگ ان کے آخری دیدار اور نماز جنازہ و تدفین سے رہ جاتے ہیں۔سندھی میں ایک مشہور محاورہ دہرایا جاتا ہے کہ ” اسین بہ سندس کلھی کاندھی تھیاسین” مطلب ہم بھی بھی جنازے کو کندھا دینے والوں میں شامل رہے۔۔۔
عمران عطا سومرو کی شخصیت، طبیعت، اپنائیت، اور بیوروکرسی کی بڑی پوسٹ پر پہنچنے کے بعد بھی ان کی عاجزی پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے، ایک آرٹیکل تو اس کے لیے کچھ بھی نہیں۔۔!! مجھے یاد ہے جب اقبال درانی صاحب سیکریٹری سروسز اور سیکریٹری صحت کے عہدے پر فائز تھے تو ان کے درست راز افسران میں تین چار نام رہے ہیں جس میں سید محمد طیب، عمران عطا سومرو، سہیل قریشی، غلام علی برہمانی۔۔ عمران عطا سومرو نے حال ہی میں گریڈ 21 حاصل کیا تھا۔صوبائی سروسز کے افسران کے لیے گریٍڈ 21 آخری منزل اور معراج سمجھی جاتی ہے جسے عمران عطا سومرو نے 55 سال کی عمر میں حاصل کرلیا تھا۔ یورپ کے ایک مشہور شاعر کی بایوگرافی پڑہتے ہوئے مجھے جب یہ جملا ملا تو میں کافی عرصہ سوچتا رہا کاش کہ ہم بھی ایسے ہی لکھیں۔۔لکھا تھا کہ فلاں شاعر صاحب 54 سال کے جوان عمری میں انتقال کرگئے۔ہمارے ہاں 50 سال والے کو ہی بزرگ سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ نجی محفلوں میں دوستوں سے بنگالی بابو رابندر ناتھ ٹیگور کا ذکر کرتا ہوں کہ ٹیگور نے کیا خوبصورت بات کی ہے۔۔
” زندگی اتنی مختصر ہے کہ انسان کو صحیح طور پر محبت کرنے کے لیے بھی ٹائم نہیں ملتا, لوگ نفرت کے لیے کیسے ٹائم نکالتے ہیں ؟”…
ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ اگر مان لیں کہ ہم 60 سال تک پہنچ بھی جاتے ہیں لیکن اس میں 30 سال، تو ہمارے سونے میں، انگڑائیاں لینے، سفر وغیرہ میں گذر جاتے ہیں، باقی ہمارے پاس تو زندگی کے 30 سال ہی بچتے ہیں۔۔!! اگر اس 30 سالوں میں ٹین ایج والی عمر کے 19 سال بھی نکال دیں تو ہمارے پاس صرف 12 ،14 سال ہی بچتے ہیں، اگر کسی نے زیادہ عمر پابھی لی تو بڑہاپہ تو آرام کے لیے ہے جبکہ جوانی کام کے لیے..اس طرح انسان کو حقیقی معنی میں دنیا میں صرف دس، پندرہ سال ہی ملتے ہیں جس میں وہ سب کچھ کرجاتا ہے۔۔۔!!
واپس آتا ہوں عمران عطا سومرو صاحب پر، مجھ سمیت بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو اس بات کو تسلیم کریں گے کہ عمران عطا سومرو کے ہمارے اوپر احسانات ہیں، اس نے شاید ہی زندگی میں کسی کو کسی بھی کام کے حوالے سے انکار کیا ہوگا۔۔؟؟ پوری کوشش کرتا تھا کہ آنے والے سائل، دوست یا تعلق دار کو خوش و خرم ہوکر ان کے آفیس سے جائے۔ اس نے سندھ کے بڑے محکموں میں 17 گریڈ سے 21 گریڈ تک نوکری کی، محکمہ اطلاعات جسے تمام افسران مشکل سمجھتے ہیں کیونکہ میٍڈیا مالکان، صحافیوں اور ان کی انجمنوں کے ساتھ بہتر روابط قائم کرنا ایک بڑے دل جگر کے ساتھ آرٹ بھی آنا چاہیے ,وہاں وہ کوئی چار مرتبہ بطور سیکریٹری تعینات ہوئے۔چند سال پہلے نیب نے سندھ حکومت کے افسران کو بہت زیادہ گھیر لیا تو بڑے بڑے نامور افسران محکمہ اطلاعات میں بطور سیکریٹری جانے سے گھبراتے تھے کیونکہ 7 سے 8 ارب روپے کے اشتہارات کی درست تقسیم و تشہیر کرنا بڑا مشکل کام تھا. کوئی انکار کرتا تو پھر عمران عطا کو اضافی چارج دیکر ذمہ داری سونپی جاتی پھر وہاں مستقل آرڈر کیا جاتا۔عمران عطا محکمہ بلدیات، محکمہ ورکس اینڈ سروسز میں بھی سیکریٹری تعینات رہے۔جبکہ سپریم کورٹ میں بحریہ ٹائون کا کیس چلا تو افسران ایم ڈی اے میں ڈی جی کے عہدے پر جانے سے بھاگ جاتے تھے لیکن عمران عطا صاحب کو کئی بار ایم ڈی اے کی اضافی چارج ملی تو نہ صرف دلیری سے چارج لیکر کام کیا بلکہ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ , عدالتی جی آئی ٹیز میں جاتے رہے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ اپنے ہاتھ صاف رکھے اس لیے وہ ڈرتے نہیں تھے۔دیکھنے میں معصوم و سادہ شخص اتنے دلیر تھے کئی کو ابھی تک پتا نہیں چل سکا کہ وہ کیسے معاملات چلاتے تھے۔؟؟ میں نے آج تک کوئی صحافی، میٍڈیا مالکان، صحافی تنظیموں کے عہدیدار نہیں دیکھے جنہوں نے عمران عطا سومرو کی تعریف نہیں کی ہو ۔
جب وہ پہلی بار محکمہ اطلاعات میں سیکریٹری تعینات ہوئے تو ایک ہفتے کے بعد فون کیا کہ سب ملنے آئے لیکن آپ نہیں آئے؟ کیا بات ہے، کسی سے یہاں ناراضگی چل رہی؟؟ ایسی بات سننے کے بعد اگلے دن میں ان کے دفتر چلا گیا، کافی پلانے کے بعد کہا کہ آپ کے علاوہ دو تین اور دوست ہیں جن سے مشورہ کیا ہے، آپ سے بھی رائے لینا چاہتا ہوں۔۔پھر اس موضوع پر بات کے بعد کہا میں تمام میڈیا ہائوسز کا وزٹ کرنا چاہتا ہوں جس کی شروعات الیکٹرانک میڈیا سے کرونگا۔ مجھے سماء ٹی وی سے شروعات کرنی ہے، یہاں پر سماء ٹی وی کے لیے تاثر یہ ہے کہ سماء سندھ حکومت کی دشمنی پر اترا ہوا ہے وہ کسی سے ملتے نہیں۔۔!!! کیا یہ بات درست ہے؟؟ میں نے انہیں کہا کہ ایک بات ٹھیک ہے دوسری نہیں، کیونکہ سماء ٹی وی ایک آزاد میڈیا ہائوس ہے کسی کے خلاف نہیں لیکن کسی بھی حکومت کی خوش آمد نہیں کرتا۔۔۔ہم ثبوت لیکر جاتے ہیں اسی لیے ہر خبر چل جاتی ہے۔سندھ حکومت کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ یہاں پر چیف منسٹر ایک ہوتا ہے پیچھے سے چلانے والے زیادہ ہیں، کبھی ذوالفقار مرزا تو کبھی اویس ٹپی,,کبھی فریال تالپور تو کبھی ڈاکٹر عاصم اور ملک ریاض, اس لیے خبریں زیادہ نکل رہی ہیں۔۔میری بات تفصیل کے ساتھ سننے کے بعد کہا میں سماء آنا چاہتا ہوں کیونکہ محکمہ اطلاعات کسی بھی سرکار کا چہرہ رکھنے والا ادارہ ہے اگر ہم خاموش تماشائی بن کے بیٹھے رہے اور اپنے کرسی کے مزے لوٹنے میں لگے رہینگے تو "کمیونیکیشن گیپ” کبھی ختم نہیں ہوگا۔خیر عمران بھائی کی خواہش پر میں نے اس وقت کے ڈائریکٹر نیوز فرحان ملک صاحب سے بات کی کہ نئے سیکریٹری اطلاعات سماء کا وزٹ کرنا چاہتے ہیں۔فرحان صاحب نے مخصوص انداز میں کہا اتنے سالوں کے بعد یہ کون شخص آیا ہے جو ہمارے دفتر آنا چاہتے ہیں؟؟ میں نے عمران بھائی کا پروفائل پیش کیا تو کہا پھر لیکر آئو اس جینٹل مین کو,, ملتے ہیں اس سے ۔۔ میں نے عمران بھائی کو دو دن کے اندر بلایا اور بہت زبردست کچھری کروانے کے بعد سماء کے مختلف سیکشنز دکھائے پھر وہ کافی خوش ہوکے چلے گئے۔۔بعد میں میرے ڈائریکٹر نیوز نے کہا،، منصور میں کسی بھی سرکاری افسر یا وزیر سے اس لیے نہیں ملتا کیونکہ پھر یہ چلنے والی خبروں پر بیجا بحث کرکے اثر انداز ہوتے ہیں اور میں خبروں کے معاملے میں اپنے سیٹھ کی بھی کم سنتا ہوں لیکن یار یہ تو کمال کا آدمی تھا۔۔۔ پوری کچھری میں ایک بار، بھی نہیں کہا کہ سر۔۔سندھ حکومت پر اب ہاتھ ہلکا رکھنا۔۔۔!! میں نے کہا کہ سر، اگر جینٹل مین نہیں ہوتا تو کیسے لیکر آتا؟!! کیونکہ سندھ حکومت کے اسکینڈلز میں 90% تو میرے ہوتے ہیں، میں اپنی صحافت کو خود کیسے ختم کرونگا۔۔۔؟؟!! خیر بعد میں عمران صاحب نے کتابوں کے کچھ سیٹ دیے جو میں نے فرحان ملک صاحب کو دیا جس میں اردشیر کائوسجی کی کتاب پر فرحان صاحب بھی بہت خوش ہوئے۔۔
میں سماء میں 8 سال رہا,, بڑے نہیں بہت بڑے اسکیبڈلز بریک کیے جس میں موجودہ چیف منسٹر کے خلاف نیب میں 7 کیس زیر تفتیش آئے جس میں 5 میری اسٹوریز ہیں، یہ سب کو حیرانگی ہوگی کہ مجھے کبھی بھی عمران عطا سومرو نے نہیں کہا کہ بھائی، کچھ تو خیال کرو، میں سیکریٹری انفارمیشن ہوں۔۔ہر اسٹوری پر جتنا پریشر ان پر پڑتا تھا خود ہی دیکھ لیتے کبھی کبھی سرکاری موقف کی پریس ریلیز بھیج دیتے اور کہتے بھائی جان۔۔آپ کی اسٹوری پر پریس ریلیز بھیجی ہے اس کو ذرا دیکھ لیجیے گا۔۔کوئی سوچ سکتا ہے وہ کتنا پروفیشنل افسر تھا ؟؟ ہمیں کبھی کام سے روکا نہیں، کبھی موڈ خراب کرکے ملے نہیں ، نہ ہی کسی چھوٹے موٹے کام کے لیے گئے تو انہوں نے انکار کیا یا ٹال مٹول کی۔۔۔!!
مجھ سمیت ان کے بہت سارے دوستوں کو یقین ہی نہیں آرہا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے۔تدفین کے دوران ان کے سارے وہ ساتھی نظر آئے جو اکثر بیشتر ان کے دفتر میں ملتے تھے۔دنیا اتنی مطلبی ہوچکی ہے ادہر سے بندہ سیٹ سے ہٹ گیا لوگ آنکھیں پھیر لیتے ہیں لیکن آج منگل کے دن جب ان کی ڈفینس فیز 8 کے قبرستان میں تدفین ہورہی تھی تو اتنی شدید گرمی تھی لیکن سیکڑوں لوگ آخری الوداعی سفر میں ان کے ساتھ ساتھ تھے۔کئی درجن کی یہ خواہش تھی کہ ان کے میت کو اتارنے تک ڈولی ان کے کاندہے پر رہے اور ہمیشہ ہم سب کا بار اٹھانے والے کا آخری بار ہم پر رہے۔۔ اللہ اکبر کیا منظر تھے۔ایک طرف تپتی دھوپ دوسری طرف ان کے وہ دوست یا سندھ کی بیوروکریسی کے لوگ جو ایئرکینڈیشنڈ کمروں سے پانچ منٹ باہر کھڑے نہیں ہوسکتے وہ کافی وقت تدفین میں کھڑے رہے۔جب اس کی میت کو قبر میں اترتے دیکھا، تو بہت سارے آنکھ پرنم نظر آئے اور میرے کمزور آنکھوں سے ایک طرف آنسو تھے تو دوسری طرف ان کے جگری دوست اور بیوروکریسی کے بہترین نام جنہوں نے 92 کی کمیشن میں عمران عطا کے ساتھ کمیشن دیکر 30 سالوں تک کٹھے رہے۔ عبدالحلیم شیخ صاحب، سے لیکر خالد چاچڑ،اختر بگٹی، زبیر پرویز،اور ان کے دل کے قریب رہنے والے سہیل قریشی، سعید اعوان، سائین مختیار سومرو صاحب، ڈاکٹر مصطفی سہاگ، شکیل امجد،، قاضی اعجاز مہیسر، رفیق برڑو سمیت محکمہ اطلاعات کی پوری پلٹون، اور محکمہ ورکس، سروسز، بلدیات سمیت کئی افسران، صحافی، میڈیا مالکان اپنے محبوب افسر کو آخری الوداع میں ساتھ تھے۔ان کے کچھ خواتین افسر دوست جس میں ڈاکٹر شریں ناریجو و دیگر شامل ہیں جو تدفین میں تو نہیں آسکتے تھے لیکن عمران بھائی کے دائیں بازو کی طرح ہمیشہ ان کے ساتھ جڑے رہے۔دوران تدفین کسی نے اس وقت عمران عطا سومرو صاحب کے بیٹے کو "فارس” کرکے آواز دی، تو مجھے تجسس ہوا پھر سہیل قریشی صاحب سے پوچھا کہ ہمارے بھتیجے کا نام فارس ہے؟؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں، عمران صاحب کو فارس اکلوتے بیٹے اور دو بیٹیوں کی اولاد بھی ہے۔جو لندن میں زیر تعلیم ہیں۔۔میں اس لمحے سوچتا رہا کہ اگر یہ ممکن ہوتا تو میں ان سے پوچھتا کہ عمران بھائی۔۔فارس نام آپ نے خلیل جبران کے ناول Broken Wings کے کردار "فارس کراما” سے متاثر ہوکر رکھا ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور ہے؟؟
آج عمران عطا سومرو کے بچھڑنے کا ہر کسی کو صدمہ ہے، لیکن درست کہتے ہیں کہ انسان مرجاتے ہیں پر کردار کبھی نہیں مرتا۔۔انسان کو اس دنیا میں اپنے کردار کو اتنا بلند رکھنا چاہیے کہ وہ قیامت تک زندہ رہے مجھے کیا ہمارے بہت سارے دوستوں کا خیال ہے کہ عمران عطا سومرو ایک نفیس اور شاندار شخصیت کے مالک تھے وہ یقینی طور پر جنتی ہونگے کیونکہ اللہ تعالی کو ہمارے عبادت کی ضرورت نہیں ہے، اگر بات عبادت تک ہوتی تو شیطان سے زیادہ کس نے عبادت کی تھی..؟؟؟!!! ۔سندھ کے صوفی منش شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔
"روزو نماز پٹ چنگو کم،
اھو کو بیو فھم جنھن سان پسجی پرین کی”
ترجمہ۔۔۔روزے نماز ادا کرنا اچھا کام ہے
لیکن وہ کچھ اورکام ہے جسے محبوب ( اللہ ) حاصل ہوتا ہے ۔۔