محترمہ بینظیربھٹو کی جلا وطنی کے بعد 1986 میں لاہور آمد پر شاندار اور تاریخی استقبال کو میں نے کور کیا ۔ رات کو جس گھر میں بی بی ٹھہری ہوئی تھیں تو ان پر قاتلانہ حملہ کی کوشش کی گئی مگر پہرے پر موجود ہوشیار کارکنوں نے دیوار کُود کر گھر میں گھسنے والے ایک ریٹائرڈ میجر کو پستول سمیت پکڑ لیا ۔ بی بی کی کوریج کیلئے چونکہ ایک بہت بڑی تعداد میں غیر ملکی صحافی بھی آئے ہوئے تھے اور خبر بڑی تھی تو آدھی رات سے ہی صحافی بی بی سے بات کرنے کیلیے اس گھر کے باہر جمع تھے ۔ صبح سویرے بی بی نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔ اور اس واقعہ کے باوجود لاہور سے گجرانوالہ تک ریلی نکالی جو دو پہر ایک بجے کے قریب لاہور سے شروع ہوئی اور شاھدرہ، کالا شاہ کاکو اور کامونکی کے انڈسٹریل ایریاز سے ہوتی ہوئی صبح فجر کے وقت گجرانوالہ پہنچی جہاں بی بی نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ اس سے اگلے روز بی بی نے لاہور سے فیصل آباد تک ریلی نکالی اور وہاں بھی پہنچتے پہنچتے اگلی صبح فجر کا وقت ہی ہو گیا تھا۔ مساوات اخبار بند ہوئے سات سال ہو گئے تھے اور میں ان دنوں ڈان اخبار میں تھا اور اس کے ساتھ ساتھ رائٹرز کیلئے بھی کام کرتا تھا ۔ میں کراچی سے بی بی کی کوریج کیلئے چار روز کیلئے آیا تھا اور اب مجھے واپس جانا تھا لہٰذہ میں نے بی بی سے اجازت لی اور اسی روز کراچی آ گیا۔ جبکہ بی بی کارکنوں سے رابطے کیلیے شہر در شہر ریلیاں نکالتی رہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کراچی 3-مئی کو آئیں ۔ شدید گرمی کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں عوام نے ان کا استقبال کیا۔ یہ بھی ایک تاریخی ریلی تھی۔ 24 مئی کو بی بی نے کراچی پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس سے خطاب کیا۔ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا خطاب سنا ۔ جب وہ واپس جانے کیلیے اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگیں تو میں نے کہا کہ بی بی آپ کو جلد ہی کراچی پریس کلب دوبار آنا پڑے گا کیونکہ میں نے آپ کی لاہور آمد اور تاریخی استقبال پرایک تصویری نمائش کا انتظام کیا ہے جو پریس کلب میں ہی ہو گی آپ مجھے دن اور وقت بتا دیں ۔بی بی گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھنے ہی والی تھیں کہ ایک دم رُک گئیں اور خوشی سے کہا "اوہ زاہد! تھینک یو” پھر کچھ وقفے کے بعد بولیں کہ تم بتاؤ تم کس دن بلانا چاہتے ہو میں نے کہا کہ آج 24 مئی ہے آپ پانچ دن بعد 29 مئی کو آ جائیں کیونکہ یہ تاریخ بہت اہم ہے آپ سات سال پہلے اسی تاریخ کو ضیاءالحق کی قید سے رہا ئی پا کر 70 کلفٹن واپس آئی تھیں ۔ بی بی نے خاموش نگاہوں سے مجھ دیکھا اور کہا کہ اچھا ٹھیک ہے ۔ میں نے کہا کہ پانچ بجے کا وقت ٹھیک رہے گا ۔ آپ نمائش کے افتتاح کے بعد روزہ ہمارے ساتھ افطار کیجئے گا۔بی بی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے۔
29 مئی کو نمائش کی خبر اخبارات میں چھپ گئی تھی لہٰذہ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد پریس کلب کے باہر جمع تھی ان میں سے ہر کوئی کلب کے اندر آنا چاہتا تھا جبکہ بی بی کی سیکیوریٹی کیلئے آنیوالے کارکنوں نے کلب کے اندر کا انتظام سنبھال لیا تھا اور انہیں روک رکھا تھا ۔تمام وقت دھینگا مشتی ہوتی رہی اور اسی میں پریس کلب کی ایک بیرونی دیوار بھی گر گئی۔ بی بی آئیں اور نمائش کا افتتاح کیا ۔ وہ اپنی تصاویر دیکھتے ہوئے کافی خوش نظر آ رہی تھیں اور میری تعریف بھی کرتی رہیں پھر وہ ایک تصویر کو دیکھ کر رُک گئیں اور مجھ سے مارکر مانگا جو وہاں موجود کلب کے صدر محمودعلی اسد نے انہیں دے دیا ۔ مارکر لے کر بی بی نے ذرا زور دار آواز میں مجھے کہا ” زاہد تم میرے بھائی ہو!” اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا بی بی نے پیچھے مڑ کر وہاں موجود صحافیوں کی طرف مُنہ کر کے دوبارہ اسی آواز میں کہا” زاہد تم میرے بھائی ہو!” ایسا لگتا تھا کہ وہ جان بوجھ کر صحافیوں کو سنانا چاہ رہ تھیں۔ میں نے انگریزی میں کہا (Madam, its an honour for me)وہ کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور مارکر سے سامنے لگی اپنی تصویر پر خود سےآٹوگراف دینے لگیں اور اس دوران وہ پھر بولیں” زاہد تم میرے بھائی ہو” ۔ میری اس وقت جو کیفیت تھی وہ میں شائد بیان نہ کر سکوں۔میں بلکل خاموش سا ہو گیا۔ کبھی میر ا دل چاہتا تھا کہ میں خوشی سے ناچوں کبھی میں اپنے آپ کو اداس محسوس کر رہا تھا۔ بی بی کے آٹو گراف یہ تھے ” زاہدحسین کیلئے ، ایک بھائی جو آذادی اور مساوات کی جدوجہد میں شریک ہوا”۔
بی بی نے کلب کے ہال میں لگی 350 تصاویر کو پوری توجہ سے دیکھا اور کافی تصاویر پر رک کر باتیں بھی کیں کہ اس وقت میں یہ کر رہی تھی تم نے تصویر بنا لی اس وقت میں یوں تھی اور تم نے تصویر بنا لی۔اس دوران وہاں موجود دیگر صحافی بھی بی بی سے بات کرنا چاہتے تھے مگر کلب کے صدر محمود علی اسد نے انہیں روک دیا کہ بی بی افطار کلب کے ممبران کے ساتھ کریں گی وہاں آرام سے سوال جواب کرلینا۔ بی بی نے تصاویر دیکھنے کے بعد میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ” زاہد! تم مجھے پہلے بھی تصاویر دیتے رہے ہو ، مجھے یہ سب تصاویر چاہئیں” میں نے کہا کہ یہ تین روزہ نمائش ہے چنانچہ یہ تصاویر تین دن یہیں لگی رہیں گی ۔ تین دن کے بعد دوست محمد یا عرس کو بھیج کر یہ تصاویر منگوا لیجئے گا۔ بی بی نے ایک بار پھر میر ا شکریہ ادا کیا اور ہم کلب کے ڈائننگ ہال کی طرف چل دئے جہاں کلب کے عہدیداروں نے میری طرف سے کی بجائے کلب کی طرف سے بی بی اور دیگر ممبرانِ کلب(سب صحافی) کیلئے ایک زبردست افطار کا انتطام کیا ہوا تھا۔
اب آئیے اس آٹوگراف والی بد قسمت تصویر کی طرف۔
تین دن تصویری نمائش دیکھنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ تین دن کے بعد دوست محمد بڑی گاڑی لے کر آیا اور میں نے سوائے اس آٹوگراف والی تصویر کے باقی تمام تصاویر اس کے حوالے کر دیں اور اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ کوئی رکشا یا ٹیکسی لے آؤ اور یہ تصویر میرے گھر چھوڑ آؤ۔ تو اس نے کہا کہ رکشا ٹیکسی کی ضرورت نہیں ہے بائیک پر لے جاؤں گا ۔ میں نے کہا اس کا فریم قیمتی ہے رسک مت لو مگر وہ نہ مانا اور اپنے ایک دوست سے کہا کہ تصویر پکڑ کر پیچھے بیٹھو۔ میں نے منع کیا مگر نوجوان نہ مانا اوروہ اور اس کا ساتھی تصویر لے گئے۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا – لکی اسٹار پہنچے تو ایک تیز پک اپ نے ٹکر مار دی وونوں گرے اور چوٹیں آئیں اورتصویر کے فریم کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ ٖ تصویر گھر نہ پہنچ سکی۔ اگلے دن تصویر فریم والے کو دوبارہ بھجوائی جو دہاں تین ماہ پڑی رہی کیونکہ فریم والے رشید بھائی کو ٹائیفائیڈ ہو گیا اور دکان اس دوران بند رہی۔ تین ماہ کے بعد یہ تصویر ملی اورگھر پہنچی۔ مضبوط فریم کی وجہ سے بھاری ہے تو دو عدد ہُک دیوار میں لگانے پڑے اور خدا خدا کر کے تصویر ٹنگ گئی۔یہ تصویر 1988 کے الیکشن تک ٹنگی رہی۔میں 1977 سے لائنز ایریا میں رہ رہا ہوں ۔ 1984 سے ایم کیو ایم کا
دور شروع ہوا تو آہستہ آہستہ یہ علاقہ میرے لئے مشگل ہوتا گیا مگر اخبار میں کام کرنے کے باعث بہت زیادہ پریشانی نہیں ہوئی مگر 1988 کے انتخابات نے ایک دم ٹرن لیا اور ایم کیو ایم کی الیکشن میں کامیابی کے بعد یہ علاقہ میرے گھر والوں کیلئے مشگل پیدا کرنے لگا۔ ایک کام تو یہ ہوا کہ الیکشن کی کامیابی کے اگلے روز ہمارے گھر کے دروازے پر پتھراؤ ہونا شروع ہو گیا۔ ایک مخصوص وقفے سے دروازے پر پتھر مارے جاتے جب کوئی باہر نکل کر دیکھتا تو کوئی پتھر مارنے والا نظر نہ آتا۔ جب دو تین دن یہ سلسلہ جاری رہا تو میں ایم کیو ایم کے یونٹ انچارج ناصر کے پاس گیا اور اسے صورتِ حال بتائی اس نے کہا کہ وہ اپنے لوگوں سے معلوم کر کے بتائے گا۔ اگلے روز وہ میرے گھر آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے گھر میں کوئی بینظیر کی تصویر لگی ہے؟ میں نے کہاکہ ہاں اس نے کہا کہ مجھے دکھائیں ۔ میں اسے گھر کے اندر لے آیا اور اسے تصویر دکھائی۔ اس نے کہا کہ یہ اس پر کیا لکھا ہے میں نے بتایا کہ بینظیر کے آٹوگراف ہیں اور یہ یہ لکھا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ تصویر اتار دیں محلے والوں کو اس پر اعتراض ہے۔ میں نے کہا کہ اس میں اعتراض والی کیا بات ہے اور ویسے بھی بی بی الطاف بھائی سے ملنے نائن زیرو جا چکی ہیں اور دونوں جماعتوں میں مشترکہ حکومت بنانے کا معاہدہ ہو چکا ہے تو اب اس کی ایک تصویر لگانے پر اعتراض کیوں؟ اس نے کہا زاہد بھائی آپ اخبار والے ہو ہم اس لئے آپ کی عزت کرتے ہیں آپ کو اپنے علاقے کے لوگوں کا پتہ نہیں ہے۔ پتھر مارنے والوں میں وہ بھی شامل ہے جسے آپ نے عزیز میمن سے کہہ کر یو بی ایل میں نوکری دلوائی تھی۔ آپ میری بات مانیں اور کچھ دن کیلئے یہ تصویر ہٹادیں میں ان کو بتا دوں گا کہ تصویر ہٹادی ہے اب کوئی پتھر نہ مارے۔میں نے کہا کہ میں نائن زیرو جاتا ہوں اور وہاں بات کرتا ہوں اس نے کہا کہ کچھ نہیں ہو گا پتھر مارنے والے چھپ کر مارتے رہیں گے میں نے آپ کو جو کہنا تھا کہہ دیا آگے آپ کی مرضی۔میں نے اس کی مدد سے تصویر اتاری اور بیڈ کے نیچے رکھ دی۔پتھر آنے بند ہو گئے۔
میں چودہ ، سولہ گھنٹے کام کے بعد گھر آتا تھا۔چھوٹا سا کوارٹر تھا جو کرائے پر تھا۔ تصویر بیڈ کے نیچے پڑی رہی اوراس پر مٹی دھول بھی جمتی رہی۔شہر کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے ۔ میری مصروفیت بڑھتی گئی تصویر ذہین سے نکل گئی ۔ مارا ماری کا زمانہ تھا۔ لائنز ایریا میں آئے دن کرفیو لگا رہتا یا ایم کیو ایم کے لڑکوں اور پولیس میں فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا۔ میرا بیٹا چھوٹا تھا وہ گلی سے گولیوں کے خالی خول جمع کر کے لاتا رہتا اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا رہتا۔تمبر1986 میں پان امریکن ائیر لائن کا بمبئی سے نیویارک جانے والا جہاز فلسطینی مجاہدین نے کراچی میں اغوا کر لیا جس میں ہمارے کمانڈوز کی حماقت کی وجہ سے ہائی جیکروں نے جہاز میں فائرنگ کر دی جس سے امریکنوں سمیت (51) مسافر ہلاک اور(120) زخمی ہوئے۔ میں نے رائیٹرز کیلئے بہت اچھی کوریج دی جس میں زخمی اپنے زخمی بچوں کولے کر رن وے پربھاگ رہے ہیں اور سیکیوریٹی فورس ہائی جیکروں کو گرفتار کر رہی ہے اور امریکنوں کی لاشیں وغیرہ کی تصاویر شامل تھیں ۔ نیو یارک ٹائمز نے میری آٹھ تصاویر( چار فرنٹ پیچ اور چار بیک پیچ) پر استعمال کیں جبکہ امریکن نیوز ایجنسی (AP) بری طرح ناکام ہوئی جس کے نتیجے میں دو دن بعد تھائی لینڈ میں متعین اے پی کا فوٹو ایڈیٹر جیمز بورڈیر اور اسلام آباد سے اے بی کا بیورو چیف بیری رنفریو کراچی آئے اور مجھے اے پی کیلئے کام کرنے کی آفر کی- رائیٹرز میں مجھے فی تصویر پیسے ملتے تھے کیونکہ میں ڈان میں بھی کام کرتا تھا
اے پی نے مجھے تنخواہ دار اسٹنگر کی پیشکش کی اور تنخواہ بھی ڈالرز میں۔ میں نے ان سے ایک دن کا وقت مانگا اور رائیٹرز کے فوٹو ایڈیٹر سے ہانگ کانگ میں بات کی اور اسے اے پی کی آفر کا بتایا اس نے کہا کہ چونکہ رائیٹرز نے فوٹو سروس ابھی شروع کی ہے اور کمپنی کا پلان یہ ہے کہ ابھی تین سال تک دنیا بھر میں فوٹو اسٹنگرز کو فی تصویر ہی کی ادائیگی کی جائے گی لہٰذہ میرا مشورہ ہے کہ تم اے پی کی آفر قبول کر لو۔ ہمارا سیٹ اپ جب مکمل ہو جائے گا اور ہم مارکیٹ میں جب جگہ بنا لیں گے تو ہم تمہیں اُن سے چھین لیں گے کیونکہ تم نے ہمارا بہت بڑا کام کیا ہے کہ اے پی کو ان کے اپنے گھر میں شکست دی ہے جس سے ہمارے لئے راستہ بنا ہے (اور واقعی وہ مجھے 1995 میں مکمل اسٹاف فوٹوگرافر کی حیثیت سے واپس لے گئے)
یہ کہانی سنانے کی وجہ یہ ہے کہ اے پی کی کمائی سے میں نے لائینز ایریا کے ہی دوسرے علاقے اے بی سینیا لائن میں ایک 45 گز کا پلاٹ خریدا اور ایک سال میں اپنا مکان بنا کر جیکب لائین سے شفٹ کرگئے۔ شفٹنگ کے دوران اس تصویر کو کباڑ سے نکالا تو اس کی یہ حالت ہو چکی تھی ۔ اس کو اس حال میں دیکھ کر گھر کے سب لوگوں کو بہت افسوس ہوا۔ اس کو کاپی کرکے درست کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی اس وقت فوٹو شاپ وغیرہ کا آغاز تھا مگراس کا سافٹ ویئر ابتدائی شکل میں تھا۔ شفٹ کرنے کے بعد سوچا تھا کہ یہاں صورتحال بہتر ہو گی مگر ایک سال میں ہی جب بھتے کی اور کھالوں کی پرچیاں گھر پر ملنے لگیں تو اس تصویر کو پھر ڈمپ کر دیا گیا۔اے پی میں کافی دوڑ لگی رہتی تھی افغانستان کے کافی چکر لگے اور ایک ایک مہینہ وہاں ڈیوٹیاں دیں۔پھر رائیٹرز میں واپس آئے توپورے پاکستان کے انچارج ہو گئے اور کام بہت بڑھ گیا۔ نتیجہ تصویر ذہن سے نکل گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چار سال سے بیماری کے باعث گھر میں ہیں۔ پرانے نیگیٹیوز کی اسکیننگ شروع کر رکھی ہے کچھ دن پہلے اس تصویرکا خیال آیا ۔ کاٹھ کباڑ سے نکالا تو دیکھا اس کا شیشہ بھی تڑخ چکا ہے تصویر پہلے ہی خراب تھی ۔ شاید اس تصویرکی قسمت ہی خراب تھی کہ 350 میں سے اکیلی رہ گئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ بھی بی بی کے پاس چلی جاتی ہم بدقسمتوں کے پاس رہ کر تو اس نے اپنی قسمت بھی خراب کر لی۔