وطن عزیز کے ہر دل عزیز عالم دین سیاستدان عزت مآب حافظ حسین احمد بھی "خوش گواریادیں”چھوڑ چلے گئے۔۔۔حافظ صاحب کے "شیریں لہجے” میں کہہ لیجیے کہ "عندلیب پارلیمان” نغمہ جمہوریت کہتے کہتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔۔۔سیاست و صحافت کو شاید ہی ایسا تبسم آمیز تکلم نصیب ہو کہ بہار آجائے۔۔۔حافظ حسین احمد صاحب بلوچستان کے علاقے مستونگ، جو اب قومی اسمبلی کا حلقہ 260 ہے، سے پہلی بار جے یو آئی کے ٹکٹ پر 1988سے 1990تک رکن قومی اسمبلی رہے۔۔۔1991سے 1994تک سینٹر جبکہ 2002 سے 2007تک ایم این اے رہے۔۔۔۔یہ پرنٹ میڈیا کے شباب کا زمانہ تھا اور چہار سو شگفتہ مزاج حافظ صاحب کا طوطی بولتا تھا۔۔۔وہ قومی اسمبلی،سینٹ میں چہکتے تو قہقہے گونجتے اور ایوان کشت زعفران بن جاتے۔۔۔ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مخاطب ہوتے تو ان کے جملے سرخیاں ٹھہرتے۔۔اخبارات کے صفحات تو گویا ان کے سیاسی چثکلوں سے کھل آٹھتے۔۔۔۔۔قارئین ڈھونڈ ڈھونڈ کر حافظ صاحب کے دلنشین بیانات پڑھتے اور زیر لب مسکرادیتے۔۔۔۔۔2020میں حافظ صاحب کے مولانا فضل الرحمان سے اختلاف رائے کی ہلکی پھلکی موسیقی چلی تو نومولود الیکٹرانک میڈیا کے "اچھل کودیوں” نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔۔۔۔میں نے تب "کیا حافظ حسین احمد باغی ہو گئے؟” کے عنوان سے کالم میں لکھا "مولانا شیرانی کو قریب سے دیکھا نہ سنا مگر حافظ حسین احمد کیساتھ ایک سفری نشست کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے سنسنی خیز ٹی وی اینکر اور سیاسی تجزیہ کار کچھ بھی کر لیں ان کے من کی مراد پوری نہیں ہوگی۔۔۔۔۔یہ بڑی لمبی رفاقتوں والے بڑے وضع دارلوگ ہیں۔۔۔۔۔یہ ہماری طرح کے جذباتی رومانٹک نہیں کہ جن کے ہاں ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے چلے جائیں۔۔۔۔یہ بیعت والے لوگ ہیں اور یہاں اطاعت امیر چلتی ہے۔۔۔۔کچھ بھی ہو جائے یہ "سرخ لائن” عبور نہیں کرتے۔۔ہمارے خیال میں مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد اپنے "محور” سے کبھی باہر نکل نہیں پائیں گے کہ مسجدوں کے یہ بوریا نشین مولانا فضل الرحمان نہیں مفتی محمود کے "مرشدخانے” سے وابستہ "مرید” ہیں۔۔۔۔۔پھر یہی ہوا اور مولانا اور حافظ صاحب بغل گیر ہوگئے بلکہ شیر و شکر ہو گئے۔۔۔۔کہتے ہیں کسی بندے کے بارے میں جاننا ہو کہ وہ کیسا ہے تو اس کے ساتھ سفر کرو۔۔۔چیختے چنگھاڑتے میڈیا کے ہنگام دھیمے مزاج والے حافظ حسین احمد کے ساتھ کئی سال پہلے کی ایک "سفری نشست” یاد آ گئی۔۔۔۔۔شکرگڑھ کے عالم دین جناب قاری سعید الرحمان مبشر نے فرمائش کی کہ اگر حافظ صاحب ہمارے پروگرام کو رونق بخش دیں تو ہماری خوش بختی ہوگی۔۔۔۔میں نے ہمیشہ کی طرح جامعہ اشرفیہ کے ترجمان مولانا مجیب انقلابی سے رجوع کیا۔۔۔۔انہوں نے حافظ اعجاز الحق کا ریفرنس دیا۔۔۔۔حافظ اعجاز نے گرین سگنل دیدیا کہ حافظ حسین احمد لندن واپسی پر شکرگڑھ تشریف لائینگے۔۔۔۔غالبا برطانیہ جانے سے پہلے وہ مکہ مکرمہ میں تھے کہ حرم کعبہ میں بیٹھے ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ نے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران میری ان سے بھی بات کرائی تھی۔۔۔۔سعودی عرب میں مقیم ہمارے” ننھیالی پنڈ” کے ایک آلو مزاج "بزنس کلاس بھائی” ایک زمینی مسئلے میں پھنس گئے۔۔۔۔انہوں نے کوئی 9سال بعد "”اپنے مطلب” کے لیے رجوع کیا تھا۔۔۔۔ہم نے انہیں اپنا "کزن”ظاہر کرتے ہوئے مکہ مکرمہ کے شیخ الحدیث ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ صاحب کے پاس بھیجا تو وہ اتفاق سے حرم میں حافظ صاحب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔۔۔۔حافظ صاحب نے کہا کہ اتنی دور سفارش کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔آپ مجھے کہتے میں مولانا فضل الرحمان کو کہہ کر یہ کام کرادیتا۔۔۔۔میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام کوئٹہ نہیں مکہ والوں کی طاقت سے ہی ہونا تھا۔۔۔۔حافظ صاحب لندن واپسی پر مقررہ تاریخ کو لاہور پہنچے۔۔۔۔میں نے انہیں حافظ اعجاز الحق کی رہائش گاہ سے لیا اور شکرگڑھ کو چل دیے۔۔۔۔اتفاق کی بات ہے مولانا فضل الرحمان ان دنوں بھی بوجوہ حافظ صاحب سے نالاں تھے۔۔۔۔مجھے علم تھا کہ حافظ صاحب "زیر عتاب "ہیں۔۔۔تین چار گھنٹے کے سفر میں انہوں نے محسوس ہونے دیا نہ میں نے کریدا کہ وہ اس دن ہمارے مہمان تھے۔۔۔۔۔راستے میں ہنستے مسکراتے، چہکتے مہکتے حافظ صاحب پھلجھڑیاں اور شگوفے چھوڑتے رہے۔۔۔۔۔کسی کا فون آیا کہ میں آپ کے پائوں پڑتا ہوں مجھے جلسے کی تاریخ دیدیں۔۔۔۔۔حافظ صاحب نے کہا بھائی پائوں پڑنا نہیں پائوں پر کھڑے ہونا سیکھو۔۔۔۔شکرگڑھ جاتی تیز رفتاری کے باعث جھومتی بس کے پیچھے "جھولے لعل” لکھا دیکھ کر بولے کہ یہی اس کی” عملی تصویر” ہے۔۔۔۔کالم نگار جناب مظہر برلاس کے گائوں کے پاس سے گزرتے بتایا کہ میں ان کا نکاح خواں ہوں۔۔۔۔یہ تو تھیں حافظ صاحب کی شرارتیں۔۔۔۔اب سنجیدہ باتیں۔۔۔۔راستے میں جے یو آئی کے کارکنوں کے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کمال انداز اپنایا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کی مولانا سے کوئی کشیدگی چل رہی ہے۔۔۔۔انہوں نے مفتی محمود کو بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صرف ان کے لئے اس خوب صورت انداز میں قائد جمعیت کا لفظ استعمال کیا کہ کسی کو مولانا یاد ہی نہ رہے اورکارکن دیوانوں کی طرح مفتی محمود زندہ باد کے نعروں میں کھو کر رہ گئے۔۔۔شکرگڑھ میں بھی انہوں نے ایک لفظ مولانا کیخلاف نہیں بولا۔۔۔۔جلسے کے بعد سیالکوٹ سے جے یو آئی کا ایک وفد آگیا کہ حضرت کل ہماری کانفرنس ہے اور مولانا فضل الرحمان چین دورے کی وجہ سے نہیں آرہے۔۔۔۔آپ پاس آئے ہوئے ہیں تشریف لے آئیں تو مہربانی ہوگی۔۔۔حافظ صاحب نے کہا کہ میں امیر صاحب کے حکم بغیر نہیں جا سکتا وہ مجھے فون کردیں میں حاضر ہو جائونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا نے فون کرنا تھا نہ انہوں نے جانا تھا لیکن کسی کو خبر نہ ہوئی کہ” اوپر” کیا چل رہا ہے۔۔۔۔اظہار ناراضی میں اظہار شکوہ کا یہ انداز نرالا دیکھا۔۔۔بڑوں کی یہی بڑی باتیں انہیں بڑا بناتی ہیں۔۔۔۔شکرگڑھ میں ہمارے دوست قبلہ نے انہیں بڑی عقیدت سے کاٹن کے دو سوٹ دیے اور حافظ صاحب اگلی صبح اسلام آباد روانہ ہوگئے۔۔۔۔تب سے حافظ صاحب سے محبت کا رشتہ تھا…….گاہے گاہے ان سے بات بھی ہو جاتی۔۔۔۔حال احوال پوچھ لیتا۔۔۔۔ہمیشہ محبت سے پیش آتے۔۔۔۔دل و دماغ والے حافظ صاحب چند سال پہلے گردوں کے مرض میں کھو گئے…اتنے خوب صورت انسان کو ناجانے کس بد بخت کی نظر بد کھا گئی کہ قبر میں جا اترے۔۔عزت مآب حافظ حسین احمد سیاسی طور پر "مکتب محمود” کے خوشہ چیں تھے اور "عہد وفا” نبھا کر امر ہو گئے۔۔۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔۔۔۔۔!!!