(تحریر:برگیڈیربشیرآراٸیں)
دو دن بارش نے گھر میں بند رکھا تھا مگر آج شام میں اپنی بیگم کے ساتھ بہادرآباد چوبرجی جا پہنچا کہ ایک کپ پشاوری آٸسکریم ہی کھالیں ۔ گاڑی روکی ہی تھی کہ دونوں طرف سے بھکاریوں نے ہلہ بول دیا ۔ ہم نے انکی آوازوں پر توجہ نہ دی تو وہ گاڑی کے شیشوں کو کسی دھاتی چیز سے یوں بجانے لگے جیسے ہم نے شیشہ نہ کھولا تو وہ توڑ دیں گے ۔ خدا جانتا ہے ان لوگوں نے ہماری برداشت کا پورا امتحان لیا ۔ ہم گاڑی میں بیٹھ کر نہ فون پر نہ آپس میں بات کرسکے کیونکہ وہ لوگ گاڑی کے چاروں شیشوں پر پوری قوت سے ٹھک ٹھک کرتے رہے ۔
ان میں ہر عمر کے لوگ ہیں ۔ بچے ۔ جوان لڑکیاں ۔ بوڑھی عورتیں اور ہٹے کٹے مرد ۔ آپ ذرا غور کریں تو یہ پورے پورے گھرانے اسی کام پر لگے ہوٸے ہیں ۔ جوان بچیاں ایسی ہیں کہ اگر وہ کام کرنے پر آمادہ ہو جاٸیں تو 15-18 ہزار روپے ماہانہ پر انکو کسی بھی گھر میں کام مل سکتا ہے مگر وہ بھیک مانگ کر اس سے زیادہ کماتی ہیں ۔
ہم مومن لوگ ثواب کمانے کے چکر میں انکو خوب نقد پیسے دیتے ہیں ۔ عام طور پر جو بچے آٸسکریم یا چناچاٹ کھلا رہے ہوتے ہیں اور سارا دن بھاگ بھاگ کر یہ کام کرتے ہیں انکو ٹِپ نہیں بلکہ بل ادا کرنے پر بچنے والے کھلے پیسے بھکاریوں کو تھما دیتے ہیں کہ اس طرح اللہ ہم سے راضی ہوگا اور جنت میں جگہ مل جاٸیگی ۔ ہمارے دٸیے پیسوں سے یہ لوگ بیڑی ۔ سگریٹ ۔ چرس اور شراب پیتے ہیں ۔ ہم جیسے ثواب کے شوقینوں نے پتہ نہیں دانستہ یا نادانستہ کراچی میں ایک پوری بھکاری انڈسٹری کھڑی کردی ہے اور اس فیلڈ کے ماہر ورکرز آپکو ہر شاپنگ مال ۔ کے ایف سی یا پیزا ہٹ پر اور سڑکوں کے چوراہوں اور سگنلز پر وافر تعداد میں ملیں گے ۔
ہم کسی یتیم غریب بچے کے اسکول کی فیس نہیں دیں گے ۔ اپنے ہی محلے میں کسی بیوہ کو آٹا لیکر نہیں دیں گے ۔ ہسپتال میں کسی مرتے مریض کو دواٸی لیکر نہیں دیں گے مگر سخی ایسے ہیں کہ کار میں دس دس اور بیس بیس روپے کے نوٹ رکھتے ہیں تاکہ آفس آتے جاتے ہر سگنل پر ان حرامخور اور کام چور بھکاریوں کو دیکر جنت کما تے ہیں ۔ آپ انکو کسی نوکری کی پیشکش کیجیے ۔ کوٸی مزدوری بتاٸیے ۔ یہ آپکو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے دور جا کھڑے ہونگے کہ بڑے نوکری دلوانے آٸے ہیں ۔
اگر ہم آج تہیہ کرلیں کہ ان فراڈیے بھکاری ورکرز کو سڑکوں چوراہوں پر نقد پیسے نہیں دینے تو یہ بہت بڑی قومی خدمت ہوگی ۔ بچوں کا اغوا اور پھر انکو مصنوعی طور پر معذور کرکے چوراہوں پر ڈالنا ۔ نشے پر لگانا ۔ بچیوں کو جسم فروشی کی ترغیب دینا سب بھکاری انڈسٹری کی باٸی پروڈکٹس ہیں ۔ لوگ اندرونِ سندھ اور خاص طور پر پنجاب سے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پورے کے پورے کنبے کراچی پہنچتے ہیں اور آپکی سخاوت اور بےوقوفی کا خوب فاٸدہ اٹھاتے ہیں ۔
خدا کے واسطے سڑکوں پر ان ہٹے کٹے ۔ ہنستے کھیلتے بھاگتے دوڑتے بھکاری ورکرز کو نقد رقم دینا بند کردیں بلکہ انکو کچھ نہ دیں ۔ کہہ دیں کہ صرف کام دیں گے ۔ ثواب کے چکر میں کراچی کو تباہی سے بچانے کیلیے ہم سب کو آج قسم کھا لینی چاہیے کہ کسی بھکاری کو پیسے نہیں دینگے ورنہ ایک دن ایسا بھی ہوگا کہ کراچی میں آپ کہیں بھی گاڑی نہیں روک پاٸیں گے ۔