غزہ فارمولا:
موجودہ امریکی صدر کو عالمی توجہ لینا بخوبی آتا ہے۔ 2016 والا پہلا دور صدارت اُٹھا کر دیکھ لیں یا اب 2025والا۔پہلا مہینہ ہے28دن ہوئے ہیں حلف اُٹھائے ہوئے اور مجال ہے جوکوئی دِن ایسا ہو جب ڈانلڈ ٹرمپ کا بیانیہ عالمی توجہ نہ لے پایا ہو۔ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ۔ڈانلڈ ٹرمپ کا تو اپنا سوشل میڈیا ہے پھر ایلون مسک بھی اسکے ساتھ ہی کھڑا ہے۔سب سے پہلے غزہ کے معاملے میں دیکھ لیں۔ مقبوضہ فلسطین کے یہودی وزیر اعظم نیتن یاہوکاغزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد پہلا امریکی دورہ ہوا ۔ صدر ڈانلڈ ٹرمپ سے اہم ملاقات ہوئی ، آگے کے لائحہ عمل پر سب کی نظر تھی ۔ ایسے میں ڈانلڈ ٹرمپ نے ایک پالیسی بیان کے ساتھ دوبارہ عالمی توجہ لے لی۔ وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج بھی ہوا۔یہ ٹھیک ہے کہ صدر نے اس سے قبل ہی ایسے اشارے دے دیئے تھے اور اب اُس کو دہرایا ہے۔ڈانلڈ ٹرمپ کے مطابق تباہ حال غزہ کے مسلمانوں کوپہلے غزہ سے باہر نکالاجائیگا تاکہ ملبہ ہٹا کر وہاں تعمیراتی کام کیا جا سکے۔ اِن کا کہنا تھا کہ ’’ہم غزہ میں عالمی معیار کا کام کریں۔ جس سے لوگ حیران ہو جائیں اور اس دوران اہل غزہ کو کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے اور غزہ کو ایسی جگہ بنا دیا جائے جہاں دوسروں کی طرح فلسطینی بھی رہ سکیں۔‘‘تاہم صدر نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دی ہیں کہ امریکہ کس اختیار کے تحت غزہ کی سرزمین کو اپنے کنٹرول میں لے گا اور اسے تعمیراتی یا بحالی کے عمل سے گزار ے گا۔اس کی وضاحت اگلے دن امریکی صدر کے ترجمان کرتے نظر آئے کہ اس کا مطلب یوں نہیں تھا یوں تھا ۔یہ نہیں تھا وہ تھا۔ مطلب پوری دُنیا نے ٹرمپ کے صاف الفاظ کے غلط مطلب لیے اصل مطلب ’’یہ ‘‘ہے جو ہم بتا رہے ہیں۔
یہ بات عملی طور پر تو ٹھیک ہے کہ تعمیرات کے لیے پہلے ملبہ ہٹانا ضروری ہے اور یہ کوئی عام سا کام نہیں ہے۔ ڈانلڈ ٹرمپ کے مطابق مقامی مسلمانوں کو قریب کے ( مصر، اردن و دیگر) ممالک میں ٹھہرایاجائیگا ۔ یہ ٹھہرانا بھی خصوصی امریکی ایما پر ہی ہوگا کوئی مسلمان ملک خود سے ’’بانہیں نہیں پھیلارہا‘‘۔ اِس اعلان میں چاہے جتنی عملیت پسندی پر مبنی خیر خواہی پوشیدہ ہو ، ظاہری طور پر یہ اعلان اہل غزہ کے لیے زمین چھوڑنے کے مترادف ہے۔’’اَنا دَمّی فلسطینی‘‘ ( یعنی: میں اپنے لہو کے آخری قطرے تک فلسطینی زمین کے ساتھ ہوں) کا نعرہ لگانے والوں کے لیے یہ بات تصور میں ہی نہیں۔
یہ تو ہم نے کراچی میں بھی دیکھا کہ 1990 کی دہائی میں جب کئی علاقوں میں حالات خراب ہوئے تو لوگ وہاں سے نقل مکانی کر گئے ۔ پھر اُن علاقوں میں وہ مکانات کہیں اور قبضوں میں چلے گئے ۔ 2013 کے بعد جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو سب بدل چُکا تھا، لوگوں کو اپنے مکان یا اپنی زمین پر واپسی میں کئی قسم کے مسائل ہوئے ۔ یہ تو ایک شہر میں رہنے والوں کا ہم نے دیکھا مگر غزہ والوں کا صبر، عزیمت اعلیٰ ترین ہے۔ اُنہوں نے شدید بمباری میں ، سخت موسم میں ، سخت بھوک پیاس، علاج، بجلی، پانی ہر تکلیف کو برداشت کیاہے۔ وہ کسی انعامی لالچ کے باوجود زمین چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اب بھلا یہ کون سی تعمیرات کی تھپکی ہے کہ وہ مان جائیں۔ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کی ایسی کوئی قبضے کی بد نیتی واقعی میں نہ ہو۔ ہم تو ’’ظاہر پر ‘‘اور امریکہ کا جنگی ماضی دیکھ کر ، اسرائیل نوازی اورامریکہ کا استعماری کردار دیکھ کر ہی فیصلہ کرسکتے ہیں۔اس اعلان پر حماس اور مقا می فلسطینی مسلمان ، عرب ممالک، دیگر مسلم ممالک بلکہ اقوام متحدہ ، فرانس، جرمنی ،روس نے بھی رد عمل دیا ہے۔اِن سب بیانیوں کے بیچ میں جو سب سے ’’اہم ‘‘صدا بطور مسئلے کا حل گونجتی سُنائی دی وہ تھی ’’2 ریاستی فارمولا‘‘ یعنی ایک اسرائیل اور ایک فلسطینی ریاست بنا دی جائے۔