فورڈ واہ نہر منچن آباد (ضلع بہاول نگر) کےجنوب میں شہر کے پہلو کو چھو کر بہتی چلی جا رہی ہے۔ سورج اور نہر ایک ہی منزل کے مسافر لگتے ہیں۔ دونوں مشرق سے آتے ہیں اور مغرب کی طرف کسی ان دیکھی منزل کی طرف نکل جاتے ہیں۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں سلیمانکی ہیڈ ورکس سے نکلنے والی فورڈ واہ اور صادقیہ نہریں پیاس سے سسکتے اور جلتے صحرائے چولستان کے لیے امرت دھارا ثابت ہوئیں۔ روہی کے پیاسے ہونٹوں کو جل کا ٹھنڈا جام مل گیا اور بنجر سوکھی زمیں سے گندم، چاول، گنا، کپاس، سرسوں کے کھیت پھوٹ پڑے۔ بے آب و گیاہ بیابان میں زندگی لہلہانے لگی۔مئی کی آگ برساتی دوپہر کو چلچلاتی دھوپ میں جلتے، سنسان ریلوے اسٹیشن پر ہو کا عالم تھا۔منچن آباد ریلوے اسٹیشن برطانوی راج میں سن 1896 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ سمہ سٹہ بھٹنڈہ دہلی لائن سے جڑا یہ چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن ہزاروں مسافروں کو پورب میں ابھور، فاضلکا، بھٹنڈہ اور دلی سمیت سینکڑوں بستیوں تک لے جاتا تھا اور پچھم میں بہاول نگر، بہاول پور، سمہ سٹہ اور کراچی تک کے شہروں سے ملاتا تھا۔ ایک جہان تھا جو اس سے جڑا تھا۔ ایک دنیا تھی جس سے یہ لوگوں کو آشنا کرواتا تھا۔ اپنی اپنی بستی کے ہی مدار میں گھومنے والے کسانوں کو دور سیاروں کی سیر کرواتا تھا۔
کتنے ہی لوگوں کی یادیں اس اسٹیشن کے ساتھ وابستہ ہوں گی۔ کچھ یادیں مئی کی گرم دھوپ جیسی ہوں گی، کچھ یادیں اس کے پلیٹ فارم پہ اگے نیم کے پیڑ کی ٹھنڈی چھاوں ایسی ہوں گی۔جب ریلوے ٹریک بچھائے گئے ہوں گے، ریل گاڑیاں چلی ہوں گی تو لوگوں کی دنیا ایک دم سے وسیع اور بے کنار ہو گئی ہو گی۔ روہی میں بسنے والوں نے دور دور کے نگر دیکھ لیے ہوں گے۔
سنتالیس کی ہجرت میں آس پاس کے ہزارہا ہندو اور سکھ اپنا سب کچھ چھوڑ کر، جانیں بچا کر اس اسٹیشن پہ آئے ہوں گے۔ اس امید کے ساتھ کہ ریل ان کو اس دنیا لے جائے جہاں ان کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ اور مشرقی علاقوں کے لٹے پٹے کتنے ہی مسلمان اس اسٹیشن پہ اترے ہوں گے تو موت کے آسیب دبے پاوں لوٹ گئے ہوں گے۔ ان کے دامن خالی تھے۔ جیون کے سبھی سہارے چھوٹ گئے تھے۔ اب نہ گھر تھا نہ زمین۔ نہ راستہ تھا نہ روشنی۔ بس مسافر تھے اور چھالوں سے چھلنی پاوں تھے۔ پیاروں سے جدا ہونے کے غم سے دل افسردہ تھے۔ کس راہ کی خاک چھانیں یہ بھی معلوم نہ تھا۔ پھر بھی اس چھوٹی سی عمارت پر اتر کر ان کی امیدوں کے چراغ ضرور جل اٹھے ہوں گے۔ کچھ تو اندھیرا چھٹ گیا ہو گا۔ کوئی پگڈنڈی تو سجھائی دی ہو گی۔
منچن آباد ریلوے اسٹیشن سے کتنی ہی کہانیاں جڑی ہوں گی۔ ان گنت ان کہی کہانیاں جو وقت کے ریگستان میں ریت ہو گئیں۔
اس اسٹیشن نے دور دیس بیاہی بیٹی کی آنکھوں میں اداسی تو دیکھی ہو گی جو ماں باپ سے مل کر واپس جا رہی ہے۔ کتنے بوجھل قدموں سے چل رہی ہے یہ لڑکی۔ریلوے اسٹیشن نے اس نوجوان کے چہرے پہ کھلی امید بھی دیکھی ہو گی جو خاندان کی غربت ختم کرنے کے لیے کسی شہر میں کام کرنے جا رہا ہے۔اس ماں کے من پہ لکھی بے بسی کی داستان بھی پڑھی ہو گی جو اپنے بیمار لاغر بچے کو سینے سے چمٹائے کسی پیر سے دم کروانے جا رہی ہے۔نو عمر چہروں پہ پھیلی سہانے سپنوں کی دھنک بھی دیکھی ہو گی۔تقسیم میں اجڑنے والے اس باپ کی آہیں بھی سنی ہوں گی جس کی جوان بیٹی کو حملہ آور اٹھا کر لے گئے تھے۔ان سہمے بچوں کی دل چیر دینے والی خاموشی بھی ضرور دیکھی ہو گی جن کا باپ دنگوں کی نذر ہو گیا۔
ان بے چارے ماں باپ کی بے چینی دیکھی ہو گی جن کو قافلے میں پیدل چلتے اپنی بیمار بیٹی کو آم کے پیڑ کی چھاوں میں سلا کر آگے جانا پڑا۔ بچی کو اٹھانے کی سکت ہی نہیں رہی تھی۔یہ بوسیدہ درو دیوار بول سکتیں تو بیتے دنوں کی کہانیاں سنا سنا ہلکان ہو جاتے۔ ہونٹ خشک ہو جاتے اور گلا رندھ جاتا۔منچن آباد کا یہ ریلوے اسٹیشن انڈیا پاکستان سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس سے آگے منڈی صادق گنج اور امروکا کے ریلوے اسٹیشنز ہیں۔ امروکا کے مقام پر سرحد کھنچی تو ریلوے لائن بھی کٹ گئی۔ ایک ہی لائن سے جڑے ریلوے اسٹیشن ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔انڈیا اور پاکستان کے شہروں کا دوبارہ ریل کے ذریعے جڑنا اتنا ناممکن لگتا ہے جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہو جانا۔ اس دنیا میں کیا ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے کبھی سورج مغرب سے طلوع ہو ہی جائے۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس لائن پر چند سال ہی ٹرین چلی ہو گی۔
اب یہ سنسان اور پریشان عمارت منہدم ہو رہی ہے۔ اس کے دروازے کھڑکیاں نوچ لیے گئے ہیں۔ دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ دیواروں کی سفیدی پر کوئلے اور سیاہی سے جگہ جگہ نام لکھے ہیں یا لڑکوں نے دل بنا کر اس میں خود ہی تیر پیوست کر دئیے ہیں۔ من میں بسی دوشیزاوں کو دیوار پہ اتارنے کی کوشش کی گئی ہے اور عجیب و غریب شبیہیں بن گئی ہیں۔
ٹکٹ کی کھڑکی کے اوپر کرایہ نامہ درج ہے۔ منڈی صادق گنج، سوبھے والا، امروکا، چھبیانہ، چاویکا، بہاولنگر اور چشتیاں تک کے کرائے درج ہیں۔ کرایہ نامہ جگہ جگہ سے مٹ چکا ہے۔عمارت کے ماتھے پہ سیاہ رنگ سے اردو انگریزی میں ‘منچن آباد’ درج ہے۔ انگریزی میں لکھا ہے کہ تعمیر کرنے کا سال 1896 ہے۔ کلومیٹرز بھی درج ہیں کچھ۔ یہ بھی لکھا ہے کہ سطح سمندر سے اس کی بلندی 541 فٹ ہے۔ اس لکھی ہوئی تختی میں بھی ایک لمبی دراڑ پڑ گئی ہے۔ جیسے سنتالیس کے دنگوں میں برچھی کا ایک وار تختی پہ بھی کیا گیا ہو۔کمروں میں بدبو اور تعفن پھیلا ہوا ہے۔اسٹیشن ماسٹر کا گھر کھنڈر بن چکا ہے اور اک جوہڑ میں گھرا ہے۔اسٹیشن کے سامنے پکھی واس خانہ بدوشوں نے اپنی پکھیاں لگا رکھی ہیں۔ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس خانہ بدوشوں کے بچے یہاں کھیل رہے ہیں۔ایک بد حال شخص گندگی سے بھرے ‘پارسل گودام’ میں بیٹھا پکے سگریٹ کے سوٹے لگا رہا ہے۔ریلوئے لائن پہ جھاڑیاں اگ چکی ہیں۔ پلیٹ فارم پہ گائیں اور بھینسیں بندھی ہیں۔ کھجور کا ایک پیڑ اداس سا کھڑا ہے۔ نیم کے دو سرسبز پیڑ گرمی میں جھلس رہے ہیں.یہ سنسان اور اداس ریلوے اسٹیشن مستقبل پر نوحہ خواں ہے کہ کب وہ وقت آئے گا جب یہاں پھر سے ریل کا پہیہ چلے گا..