دہشت گردی کے عالمی چمپئن امریکا کے صدرڈونلڈ ٹرمپ طاقت کے نشے میں ہوش و حواس کھو چکے ہیں۔”جنگی مجرم‘‘ دہشت گرد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی میزبانی کے دوران امریکی صدر نے پاگل پن پر مبنی دعویٰ کیا کہ امریکا طویل عرصہ کیلئے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا، ہم اس کے مالک ہوں گے، ہمارا مقصد اس علاقے میں استحکام لانا ہے، میں غزہ میں طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھتا ہوں، ہم غزہ کو ترقی دیں گے، علاقے کے لوگوں کو ملازمتیں دیں گے، شہریوں کو بسائیں گے، فلسطینیوں کیلئے منصوبے کے تحت اردن اور مصر کے رہنما جگہ فراہم کریں گے،مشرق وسطیٰ کے دیگر رہنماؤں سے بات ہوئی ہے انہیں فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنے کا پروگرام پسند آیا ہے، میں اپنے منصوبے کے بعد غزہ میں دنیا بھر کے لوگوں کو آباد ہوتے دیکھتا ہوں، میں اسرائیل غزہ اور سعودی عرب کا دورہ کروں گا، بہت سے ممالک جلد ہی ابراہام معاہدے میں شریک ہوں گے۔ سعودی عرب اس معاملہ میں بہت مدد گار ثابت ہو گا، ضرورت پڑی تو امریکی فوج غزہ میں تعینات کی جائے گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہایت ڈھٹائی سے انتہائی شرمناک بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ پاگل پن پر مبنی اعلان کیا ہے جسے نہ صرف پوری دنیا نے مسترد کر دیا ہے بلکہ اپنے اور پرائے، حامی اور مخالف سب ہی نے شدید تنقید کا نشانہ بنا یا۔ جس وقت امریکی صدر اور اسرائیل کے وزیر اعظم یہ پریس کانفرنس کر رہے تھے، اس وقت واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر فلسطین کے حامی ان کے منصوبہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔ مظاہرین نے فلسطینی پرچم اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر فلسطین کی آزادی کے حق میں نعرے درج تھے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے ہی کینیڈا، پاناما، میکسیکو اور چین وغیرہ کے خلاف جارحانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ان ممالک کی آزادی و خود مختاری کا لحاظ رکھے بغیر انہیں دھمکیاں دے ڈالیں، اب انہوں نے فلسطین اور غزہ کی پٹی سے متعلق اپنا یہ مضحکہ خیز منصوبہ پیش کر دیا ہے جو کسی طرح بھی نہ تو فلسطینی باشندوں کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی برادری کی تائید اسے حاصل ہو سکتی ہے، خود امریکا کے اندر سے اس کے خلاف فوری طور پر رد عمل سامنے آیا ہے۔ امریکی ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے اسے ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر امریکی حملہ ہزاروں امریکی فوجیوں کے قتل اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں کی جنگ کا سبب بنے گا۔ عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کے اس منصوبے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور پوری عالمی برادری نے یک آواز ہو کر اسے کلی طور پر مسترد کر دیا ہے حتیٰ کہ ہر طرح کے حالات میں امریکا کا ساتھ دینے والے اس کے اتحادی ممالک بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کو ہضم نہیں کر سکے اور برطانیہ، فرانس، جرمنی اور آسٹریلیا تک بھی امریکا کے ساتھ کھڑے ہونے پر آمادہ نہیں ہیں جب کہ روس اور چین نے بھی واضح الفاظ میں ٹرمپ منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے غزہ پر کنٹرول کے اعلان سے انہیں شدید دھچکا لگا۔
عالمی دہشت گردوں یعنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپاور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے گزشتہ دنوں غزہ پر امریکی قبضہ کے جس شرمناک منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے پر اسرائیل کس طرح بغلیں بجا رہا ہے اور اس ضمن میں امریکا اور اسرائیل کے مستقبل کے عزائم کیا ہیں اس کا اندازہ اسرائیل کے وزیر دفاع کے فوج کو تیار رہنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے دیے گئے بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ فوج غزہ کے رہائشیوں کو رضا کارانہ طور پر علاقہ چھوڑنے کی منصوبہ بندی کیلئے تیار ہے۔ امریکا کے دورے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب پہلی بار غزہ پر امریکی قبضے کے منصوبے کی نقاب کشائی کی تھی تو محسوس ہوتا تھا کہ اس پر عملی پیش رفت کیلئے ممکنہ اقدامات کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعلان پر عمل درآمد میں کس قدر سنجیدہ ہیں اور جلدی میں ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر اسرائیلی وزیر دفاع نے منصوبے کی جن تفصیلات سے پردہ اٹھایا اور یہ تک بتا دیا ہے کہ وہ فلسطینی باشندوں کو غزہ سے دیس نکالا دے کر کیسے کیسے اور کہاں کہاں بھیجنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں اس کے بعد عالمی برادری پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ محض زبانی اس ظالمانہ منصوبے کی مخالفت تک محدود نہ رہے بلکہ عملاً اس کو روکنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جانا لازم ہے کیونکہ موجودہ امریکی صدر سے کچھ بعید نہیں، امریکا کے سابق صدور، جن کی شخصیت میں اس طرح کی نامعقولیت کی شہرت نہیں تھی، ان کے ادوار میں بھی امریکا نے ہمیشہ طاقت کے نشہ میں دھت ہو کر جارحانہ اور ظالمانہ اقدامات سے گریز نہیں کیا۔ ماضی قریب میں نائن الیون کا جواز بنا کر امریکا کی افغانستان پر چڑھائی اور زہریلی گیسوں کی تیاری کا الزام عائد کر کے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے جیسے کام امریکی جارحانہ ذہنیت کی نادر مثالیں ہیں تاہم افغانستان اور عراق پر ان حملوں کیلئے اس وقت کی امریکی قیادت نے جھوٹے سچے بہانے تراش کر دنیا کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ بہت سے ممالک نے ان حملوں میں امریکا کا ساتھ دیا تھا مگر صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کے منصوبے کو تاحال اسرائیل کے علاوہ کسی ایک بھی ملک کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی واضح الفاظ میں غزہ سے فلسطینی باشندوں کے انخلا اور امریکا کے وہاں پر جبری تسلط کے ٹرمپ منصوبے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن غزہ سے جبری طور پر بے دخل کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، امریکی صدر کا نام لیے بغیر انتونیو گوتریس نے کہا کہ ایسے بیانات سے حالات مزید خراب اور پیچیدگی کی طرف جا سکتے ہیں، ہم فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں، غزہ کے مسئلے کا پر امن اور مستقل حل تلاش کیا جائے اور اس کیلئے سب کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہو گا۔عالمی برادری کے ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر امریکی قبضہ کے منصوبے کے استرداد اور اس کی مخالفت میں یک آواز ہونا فلسطینی عوام اور امت مسلمہ کیلئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک ٹرمپ کے منصوبے کو خاک میں ملانے کیلئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں فوری طور پر عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس بلائے جائیں اور ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے جس کے ذریعے فلسطینی بھائیوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔