بدھ مت میں ایک کہاوت ہے “اگر آپ کسی شخص سے ملیں اور اسے دیکھ کر آپکا دل زور سے ڈھڑکنے لگے، آپ نروس ہو جائیں اسے اپنے دماغ سے نکال نہ سکیں تو سمجھ لیں کہ وہ آپکا ‘سول میٹ’ (soulmate) ہرگز نہیں ہے کیونکہ سول میٹ سے مل کر آپ پرسکون اور نارمل محسوس کریں گے۔ “اس کہاوت کو پانی میں گھول کر پی لیجئے ماڈرن دنیا میں بہت کام آسکتی ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اپنے چارم، کیرزمہ اور کانفیڈنس سے ہمیں اپنی جانب کھینچنے والا کوئی سول میٹ نہیں بلکہ ایک “نارساسسٹ”ہو۔لفظ نارساسسٹ آج کل ٹرینڈ میں ہے، لیکن ہر خود پسند انسان NPD (narcissistic personality disorder)کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ اعتدال میں رہ کر تھوڑی بہت خود پسندی اچھی رہتی ہے البتہ کسی بھی شخص کے لیے لفظ نارساسسٹ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے کیونکہ NPD ایک سیریس ڈساڈر ہے جو بہت سے لوگوں کی زندگیاں تباہ کردیتا ہے۔
نارساسسٹک پرسنلٹی ڈساڈر کیا ہے؟نارساسسٹ کی کیا پہچان ہے؟
سائیکالوجسٹ ڈاکٹر رامنی درواسلا اپنی کتاب “should I stay or should I go” میں این-پی-ڈی کو ایک ایسا ڈساڈر بتاتی ہیں جس میں کوئی بھی انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ ڈیپ کنکشن بنانے میں ناکام رہتا ہے، بے حد سطحی اور “ہمدردی” سے عاری۔ خود کو شاندار بتانا، ،ہمدردی سے عاری، مشتعل، بیش حساسیت ، حسد ، خبط، شرمندگی کے احساس سے عاری، مسلسل تعریف اور توجہ کی طلب ، شوبازی، جذبات سے عاری، لاپرواہی، جھوٹ، گیس لائیٹنگ(سائیکالوجی کی زبان میں حد درجہ دروغ گوئی سے کام لینا اور سامنے والے کو احساس دلانا کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو چکا ہے)، کھوکھلا پن، کنٹرولنگ، غیر متوقع رویہ، دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہونا، قریبی رشتوں کا فائدہ اٹھانا، اکیلے رہ جانے کا خوف، اپنی بات سنانا لیکن دوسروں کی بات کو اہمیت نہ دینا، ایموشنلی کمزور، فریب کار، مینی-پولیشن وغیرہ شامل ہیں، یہ فہرست لمبی ہے۔ بیشک سب انسانوں میں کسی نہ کسی حد تک منفی رجحان اور جذبات پائے جاتے ہیں لیکن نارکس کو ان طریقوں کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں آتا لوگوں سے ڈیل کرنے کا، یہ انکا ڈیفالٹ موڈ ہے۔انکا چارم اور انکی متاثر کن شخصیت جس کے سب اسیر ہوتے ہیں، وہ بس شو کے لیے ہے، انکی اصلیت ان کے قریبی رشتوں کو معلوم ہوتی ہے۔
نارساسسٹ کیسے بنتے ہیں؟
نارساسزم ماحول اور ثقافت کا پروڈکٹ ہوتا ہے۔ اگر والدین(دونوں یا کوئی ایک) نارساسسٹ ہے تو بچوں میں اس ڈساڈر کے پنپنے کے آثار نمایاں ہوتے ہیں, کیونکہ نارساسسٹ والدین کے لیے بچے سوسائٹی میں ویلیڈیشن حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں تبھی بچہ بچپن میں ہی یہ بات دماغ میں بٹھا لیتا ہے کہ زندگی ویلیڈیشن اور دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کا نام ہے، ان بچوں کا ہر عمل صرف دوسروں کی توجہ کے لیے ہوتا ہے چاہے اس عمل سے انہیں کوئی خوشی نہ مل رہی ہو یا کسی کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچ رہا ہو۔ اکثر اوقات والدین کا بچوں کو نظر انداز کرنا، انکو نگلیکٹ کرنا بچوں میں “مررنگ ایفیکٹ” کو نقصان پہنچاتا ہے، والدین بچے کے لیے آئینہ ہوتے ہیں، کیا صحیح ہے کیا غلط اسکی وضاحت انہیں والدین سے ملتی ہے، چونکہ ایک انسانی بچہ فطری طور پر امیجنری اور توجہ کا طلبگار ہوتا ہے جب اسے والدین سے کلیوز نہیں ملتے وہ ذہنی طور پر اسی توجہ والی اسٹیٹ میں رہ جاتا ہے، وہ اپنے موڈ اور ایموشنز کو ریگولیٹ کرنے کا ہنر نہیں سیکھ پاتا، اس کی سیلف-اسٹیم کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسکی کمزور انا (ego) کو سپلائی کہاں سے مل سکتی ہے، جب تک سپلائی ملتی ہے، نارساسسٹ چارمنگ، اٹریکٹو، کانفیڈنٹ اور کیرزمیٹک ہوتے ہیں، لیکن جہاں انکی انا کو سپلائی ملنا بند ہوتا ہے، یا سامنے والا ان کے مزاج کے خلاف جاتا ہے، پھر انکا چارمنگ ماسک اترنے میں دیر نہیں لگتی۔ ان کے اندر عدم تحفظ (insecurities) کا ایک نہ سلجھنے والا جال ہوتا ہے، اس جال کے گرد یہ اپنے رشتے اور پروفیشنل لائف بناتے ہیں۔ انکی دنیا ظاہری چکاچوند پر چلتی ہے، کیونکہ ان کے اندر محض عدم تحفظ کا ڈیرہ جما ہوتا ہے۔ ایموشنلی کمزور اور اپنی ناکامی کا الزام دوسروں کو دینا انکی پہچان ہے۔
اب یہاں پر ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ نارساسزم کی اقسام ہوتی ہیں، آپکا پالا کس قسم کے نارساسسٹ سے پڑا ہے یا پھر آپ بذات خود کون سے نارساسسٹ ہیں ،معلوم کرنے کے لیے تمام اقسام پر نظرثانی کرنی پڑتی ہے۔وہ لوگ جو نارساسسٹ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں وہ بہت ذہنی اذیت سے گزرتے ہیں، کیونکہ نارساسسٹ آپکی ریئلٹی مسخ (distort) کردیتے ہیں، آپ خود پر اور اپنی ذہنی حالت پر شک کرنے لگتے ہیں، کیونکہ نارساسسٹ تو کبھی غلط ہوہی نہیں سکتا! وہ شوہر جو روز بیوی کو اپنی کامیابیاں اور خوبیاں گنوائے اور بیوی میں خامیاں نکالے، خامیاں نکالنے کا عمل روز سالوں ہو تو آپ کی ریئلٹی بدلنا اٹل ہے۔ بیوی شوہر کو لوزر کہے کیونکہ وہ اسکی خواہشات پوری نہیں کرپا رہا یا پھر اس کے مزاج کے خلاف چل رہا ہے، جب لوزر لفظ زندگی کا حصہ بن جائے تو ریئلٹی اس کے مطابق ڈھلنے لگتی ہے۔ نارساسسٹ سے ملنے سے پہلے آپ ایک نارمل انسان ہوتے ہیں، نارساسسٹ کا ساتھ آپکو جھوٹ اور مینی پولیشن (manipulation) کی ایسی دنیا میں لے کر جاتا ہے کہ جہاں آپ خود کو بھی پہچان نہیں پاتے۔
این-پی-ڈی کا شکار والدین بچوں کو ویلیڈیشن کی ٹریڈ میل پر دوڑاتے رہتے ہیں، جو بچہ نارساسسٹ والدین کا پسندیدہ ہو اسے سائیکالوجی کی زبان میں “گولڈن چائلڈ” کہتے ہیں، اسے گھر میں سب ملتا ہے، اور جو بچے نارساسسٹ والدین کے پسندیدہ نہ ہوں انہیں “اسکیپ گوٹ” اور “ اِن-وزیبل چائلڈ” کہتے ہیں، بڑے ہونے پر ان ناپسندیدہ بچوں میں ایڈکشن، ابیوز اور ٹروما پایا جاتا ہے، انکا خودی کا احساس (sense of self) بکھرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ ساری زندگی اپنی ایڈکشنز سے لڑتے رہتے ہیں۔
لوگ اپنی پوری زندگی نارساسسٹ کے ساتھ اس آس میں گزار دیتے ہیں کہ شاید کسی دن پیار اور صبر کا صلہ مل جائے، لیکن وہ دن کبھی نہیں آتا۔ ڈاکٹر رامنی درواسلا ،جنہوں نے نارساسزم پر ریسرچ میں سالوں گزارے ہیں ، کہتی ہیں کہ نارساسسٹ کبھی نہیں بدلتے۔ سائیکالوجسٹ نے گزشتہ سالوں میں کئی ایسے طریقے ڈیزائن کیے ہیں جن کے زیرِ اثر نارساسسٹ والدین، ہمسفر، باس، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ، دوست وغیرہ کے ابیوز کو ہیل کیا جاسکے(کبھی موقع ملا تو ضرور لکھوں گی اس پر)۔
ماڈرن دنیا میں نارساسزم پھیلتا جارہا ہے ایک وبا کی طرح۔ ہم ایک ایسی نسل تیار کررہے ہیں جنکی پوری سیلف- اسٹیم لائک اور کومنٹز پر منحصر ہے۔ وہ والدین بھی بچوں کے ذریعے ویلیڈیشن حاصل کررہے ہیں (شاید کبھی میں بھی ان میں شامل تھی) جو نارساسسٹ نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ انکی خوبصورتی یا قابلیت پر انہیں اتنے لائکس مل رہے ہیں وہ وائرل ہورہے ہیں، ہمارے بچے بہت اسپیشل ہیں، تو یاد رکھیے کہ اس دنیا میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ہوگا جو ہمارے بچوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا، جو ان سے زیادہ ٹیلنٹڈ ہوگا، ان سے زیادہ امیر اور پاورفل ہوگا، اس موازنہ کی دوڑ میں جیت نہیں ہوتی بس ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ بچوں کی تعریف کرنا غلط نہیں، موازنہ اور مقابلہ بھی فطری ہے لیکن جو موازنہ اور مقابلہ نارساسسٹ کرواتے ہیں وہ یقیناً فطری نہیں بلکہ ایک ڈساڈر سے پیدا ہونے والا ردِعمل ہے۔ اس نارساسزم کے دور میں اگر اپنے بچوں کو منفرد اور سب سے الگ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں عاجزی (humility ) سکھائیں، خود پسندی کے اس دور میں یقیناً وہی بچہ سب سے الگ نظر آئے گا جس میں عاجزی کا عنصر ہوگا۔ جس کی سیلف-اسٹیم لائک اور شیئرنگ پر منحصر نہیں ہوگی۔ جو اپنے ایموشنز کو ریگولیٹ کرنا جانتا ہوگا۔ بیشک دکھاوا کبھی بھی کھرے پن(authenticity) کی جگہ نہیں لے سکے گا۔
( اس ٹاپک پر لکھنے کو بہت کچھ ہے، لکھنے کا مقصد نارساسسٹ سے نفرت کا اظہار نہیں بلکہ ان لوگوں کی تکلیف کو ویلیڈیٹ کرنا ہے جو واقعی میں اس ڈساڈر کے شکار لوگوں کے ابیوز کا نشانہ بنتے ہیں، نارساسسٹ سے نفرت نہیں کرنی، ان سے اپنا بچاؤ ضروری ہے)