متنازعہ یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کے متعلق محترم وزیر تعلیم کی جھوٹ دار پریس کانفرس دیکھ کر احساس ہوا کہ اگر تعلیم کا وزیر اپنی صوبہ کے تعلیمی اداروں کے مسائل ،وسائل ، حاصلات ، اور ترقی سے اتنے بے خبر اور ناواقف ہیں تو باقی سرکار کا کیا حال ہوگا۔موصوف دس سال سے سندھ کے تعلیم کے وزیر ہے ، سوائے پیسوں پہ نوکریان بیچنے کے، سندہ کی تعلیم کی عالمی اداروں کی روشنی میں بیان کرتے تو دل بھی خوش ہوتا کہ موصوف نے اپنے دور وزارت میں قابل ذکر ریفارمز لے آئے ہیں۔کوئی پندرنھن دن پہلے ڈان میں سندھ کی پرائمری تعلیم میں وہ اضلاع جہاں صورتحال بدتر ہے کا نقشہ پیش کیا گیا تھا وہاں سندہ کی صورتحال پنجاب اور کے پی کے سے بہت پیچھے تھی ، تقریبن بلوچستان جیسی ہی تھی۔ سندھ میں بچے اسکولوں سے باھر ، کالیج لیبارٹریز ویران، تجربیگاھ ، اسکول بسیں ، بچوں کی معیاری تعلیم تو دیوانے کے خواب ہوئیں مگر ابھی تک لاتعدا پرائمری اسکول درختوں کے نیچے چل رہے ہیں جن کو عمارت بھی میسر نہیں۔اسکولوں ایجوکیشن میں موصوف کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ دیھی سندھ کے ساتھ سندھ کا دارالخلافہ میں ہی کراچی شھر کے اسکول بھی تباھی کا شکار ہے۔ مگر وہ اپنی بے خبری اور اپنی کم عملی کے باوجود پروفیسر وائیس چانسلرز کی نااھلی کا رونا رو رہے تھے
سب سے پہلی تو موصوف کو یہ آگہی دینا ضروری ہے کہ پوری دنیا میں اعلی تعلیمی ادارے اکیڈیمیہ ھی چلاتی ہے، جس کی بنیاد پہ عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق پاکستان ھائیر ایجوکیشن کمیشن نے فیکلٹی کے ساتھ وائیس چانسلرز کی تقرری جی کم سے کم اھلیت مقرر کی۔ اور کی روشنی میں پوری پاکستان میں یہ قانون لاگو ہوا ۔ ڈوسرے صوبوں کا تو معلوم نہیں مگر سندھ کے اندر پی پی پی سرکار نے آتے ہی اپنے من پسند وائیس چانسلر مقرر کرنے شروع کردئیے۔ان پروفیسرز وائس چانسلرز اھلیت صرف یہ تھی کہ ان کے پیجھے سیاسی پشت پناہی تھی۔اور اس سیاسی پشت پناہی کی بنا پہ وہ سیاسی بھرتیاں کرنے کے پابند تھے۔
ڈاکٹر نذیر مغل نے چار سو ناں ٹیچنگ اسٹاف سیاسی بنیاد پے بھارتیاں کی، ٹیچنگ کیمیونٹی نے اس کے خلاف تحریک بھی چلائی مگر اس نے سیاسی حکومت کا دیا ہوا ٹارگیٹ پورا کیا اور اسے ٹچنگ کمیونٹی کی مفالفت کے باوجود سیاسی حکومت کی پشت پناہی حاصل رہی۔
اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر فتح برفت لگایا گیا جس کے پاس ڈین ہونے تک کا تجربہ نہ تھا نہ ہی وہ سینڈیکیٹ اور سینٹ جیسے۔ سٹیچوئری باڈیز میں ممبر شپ کا تجربہ رکھتے تھے اور تو اور ان کے اوپر کراچی یونیورسٹی میں ھراسمینٹ کا کیس بھی ہوچکا تھا مگر سیاسی پشت پناہی نے ان کو سندہ یونیورسٹی میں واائیس چانسلر لگا دیا گیا۔ اس نے بھی سیاسی سرکار کی فرمائش تک گریڈ ایک سے سولہ گریڈ تک کی بھرتیاں کی۔اسی سرکار نے ساتھ سکرنڈ یونیورسٹی میں جھوٹی ڈگری والے کو وائیس چانسلر، خیرپور دو وائسی چانسلرز کو میریٹ کے بجائے سیااسی اثر رسوخ کی وجہ سے وائیس چانسلر مقرر کیا، یہ تمام حضرات پروفیسز تو ضرور تھے مگر سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے ان کی مقرری میرٹ پہ نہ تھی۔وزیراعلی مراد علی شاھ جس دن چلا چلا کے وائیس چانسلرز کی نااھلی اور کرپشن کی دھائی دے رھے تھے، اسی دن اسی جگہ وہ وائیس چانسلر اسی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا جس نے جھوٹی غیرملکی وفد کی ٹکیٹ ریفند کروائی تھی۔سکرنڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر فراڈ ڈگریوں کی بڑی اسٹوری انگریزی اخبار دی نیوز کے میں صحافی امداد سومرو نے سارے دستاویز کے ساتھ لگائی اور اس کمیٹی کو بھی پیش کی لیکن مراد علی شاھ جو اس مگرمچھ کے آنسوں رو رہے تھے نہ صرف اس دوسرا ٹینیوئر دیامگر موصوف نوابشاھ بورڈ کا چیئرمین بھی بنا دیا۔اب اس قصور میں پروفیسرز واائیس چانسلرز کو برا بھلا کہنا بنتا تھا یا کہ ان کو مقرر کرنے اور باربار ٹینوئر دینے اور بورڈ کی اضافی چارج دینے والے وزیراعلی کا بھی کچھہ قصور بنتا ہے۔اس وائیس چانسلر کی ناکامی میں قصور سیاسی پشت پناہی کا ہے یا پروفیسروں کا ؟
کیا ایک بندہ بیک وقت وائیس چانسلر اور بورڈ کا چیئرمین لگ سکتا ہے ؟ اگر وہ ایک وائیس چانسلر کی حیثیت سے کرپٹ ہے تو اس کو بورڈ کیوں دیا ہوا ہے ؟ سب جانتے ہیں کہمراد علی شاہ صاحب مالکوں کا غصہ اکیڈیمیہ پہ کیوں نکال رہا تھا ۔
بات صرف سکڑنڈ کے وائیس چانسلر تک ختم نہیں ہوتی مگر وزیراعلی صاحب جس دن چند لاکھ ٹکیٹ کی کرپشن کا رونا رو رہا تھا عین اسی دن مراد علی شاھ کے اوپر چالیس ارب کی کرپشن کا کیس نیب نے رجسٹر کیا تھا ۔جب چالیس ارب کی کرپشن وارا چیف منسٹر ہوگا تو ، وائیس چانسلر بھی موصوف ایسی ہی لگائے گا ۔احتساب تو چیف منسٹر کا ہونا چاہئے، ان کی کارکردگی کا ہونا چاہئیے جس کے لیئے اب مشہور ہو چکا ہے کہ وہ سندھ کا پانی بیچ کر حکومت کا وزیر اعلی بنا ہوا ہے ۔رہی بات سردار علی شاھ کی تو ویسی ہی لمبی چھوڑنے کے لئے مشھور ہیں کہ کبھی کولھی کے ساتھ کولھی ھونے کی بات کرتا ہے تو دوسرے لمحے اپنے شہر میں بدترین تشدد کے شکار شاھنواز کنبھر کی تعزیت بھی کرنے سے ڈرتا ہے جس کا خاندان نہ صرف ان کا ووٹر رہا ہے مگر شاھنواز کا نام بھی بھٹو کے بیٹے کے نام میں رکھا گیا تھا
وزیر موصوف کو یہ بھی پتا نہیں کہ سندھ میں کتنی پروفیسر امریٹس بن چکے ہیں، دس کراچی یونیورسٹی کے ہیں ، پانج جامع سندھ میں ہے باقی جامعات میں بھی امریٹس پروفیسر موجود ہیں ۔رھی بات کہ جامعات کی بجٹ کی تو و جامعات کی کل بجٹ کا صرف 37 فیصد بجٹ فیڈرل اور سندھ ھیک کی طرف سے ملتا ہے باقی 63 سیکڑوں جامعات اپنی آمدنی ہے ۔ نان اکڈمک اسٹاف سیاسی دبائو کی وجہ سے سیاسی وائس چانسلر ہی بھرتی کرتے ہیں ورنہ فیکلٹی کی مقررہ کردہ صورتحال یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں دس سال سے بوڑڈ نہیں ہوا کوئی لیکچرر مقرر نہیں ہوا اور سندھ یونیورسٹی میں آٹھ سال سے کوئی لیکچرر مقرر نہیں ہوا ۔اس دوران سو کے قریب فیلکثی میمبرس ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ۔اساتذہ کی مقرری سندھ سرکار کی منظوری سے مشروط ہوچکی ہے جس کی وجہ سلیکشن بورڈ ااور کافی اھل اساتذہ کا بورڈ سالوں سے رکا ہوا ہے ۔
ھائر ایجوکیشن کمیشن کی مطابق سائینس کے شعبہ میں ھر تیس طلباء پے ایک فیکلٹی میمبر ہونا چاھئے ، اس وقت سندھ کی ساری سرکاری جامعات میں سو ،دسو طالب علموں پے ایک استاد مقرر ہے ،جس کی وجہ سی سندھ کی بہت سی جامعات میں ھائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایم فل اور پی ایچھ ڈی پروگرام منجمد کردیے تھے ، جس میں زیادہ تر پروگرام جامعہ سندھ، خیرپور ارو کراچی کے تھے جو اس بات کی گواھی ہے کہ اساتذہ کی تعداد ھیک کی مقرر کردیا ریشو سے بہت کم ہے ۔
لہذا وزیر موصوف کے لئے مشورہ ہے کہ اپنی بے خبری کو اشتہار بنانے سے قبل یونیورسٹیوں کے متعلق درست معلومات حاصل کریں پھر اپنی نااھل سرکار کا دفاع کریں ۔
رہی بات جامعات میں اھل پروفیسر اپلائے نہیں کر رہے اس کا بھی بڑا سبب سفارش اور پیسہ کلچر ہے کیونکہ وہ جو اھل ہیں وہ جانتے ہیں کہ مقرری کیسی ہو رہی ہے لہذا وہ اپلائے کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ ان کے پاس نہ سیاسی سفارش ہے اور نہ پیسہ ہے۔اس لیئے اھل پروفیسرز کی بہت بڑی تعداد اس سفارش اور پیسا نہ ہونے کہ سبب اپلائے ہی نہیں کرتی
کراچی یونیورسٹی میں ایک میریٹوریس پروفیسر کو نااھل کردیا گیا ، ان کی جگہ ایک جونئر کو وی سی لگایا دیا جو کہ بعد میں وہ کورٹ میں چیلنج بھی ہوا ۔ پروفیسر اپنی جامعات کی بہتر معیار کے لیئے لڑ رہے ہیں اس لیئے وہ کبھی اپ کی سرکار کے پسندیدہ نہیں بن سکتے مگر اس قسم کی بیہودہ الزام تراشی سے ان کو ان گناھون کی سزا نہ دو جو سندھ گورنمنٹ کی کرپشن کی وجہ سرزرد ہوئے ہیں ۔وزیر موصوف آگے فرما رہی ہیں وہ جامعات کی مقرری کے معیا ر کو کم کرکے کامپیٹیشن کا ماحول تیار کر رہی ہے۔حضور آپ اتنی بھی زحمت نہ کریں’ سیدھا ایس ایچ او وی سی لگا دیں اپ کو اب روہنے والا کون ہے کہ پوری اسمبلی گروی رکھی ہوئی ہےباقی آپ کی تعلیم دوستی تو بیس سال کی سرکاری پالیسی سے واضع ہو گئی ہے ۔ سردار شاھ آگے فرما رہی ہیں کوئی جامعات کے اندر قابل فخر تحقیق نہیں ہوئی ،یہ تو وزیر موصوف بتادیں سندھ سرکار نے کتنے محقق بھرتی کیئے ہیں؟سندھ ھیک کے اندر کتنی محقق مقرر ہیں ؟مگر پروفیسرز اس کےباوجود اسی پراڈکٹ بنا رھے ھیں جو باقاعدہ پیٹینٹ ہو رھی ہیں۔وزیر موصوف کو شاید پثینٹ کا علم نہ ہو مگر ہم مشورہ دیتی ہیں کہ گوگول کر لیں تو اندازہ ہوگا کہ سندھ کی ماجعات میں محدود تحقیقی بجٹ کے باوجود پروفیسر اپنی لگن سی ھر سال کوئی نئی تحقیقی ہوتی ہے جو باقاعدہ پیٹنٹ ہوتی ہے ۔باقی کمرشلائیزیشن پروفیسر کا کام نہیں وہ بھی سندہ سرکار کو آگے بڑھنا ہوگا۔
المیہ یہ ہیں سندھ سرکار جامعات میں سنڈیکیٹ کے ممبران بھی سفارش پے ایسی لگاتی ہے جس کی موجودگی سے کوئی بہتر اثر نہیں ہوتا ۔ کبھی سرکار نے کسی صنعتکار، سرمایہ کار، سول سوسائیٹی افراد کو سینڈیکیٹ کا ممبر کیوں نہیں بنایا،
کبھی سندھ سرکار نے تعلیمدان کی خدمات کو پیش نظر رکھتے سینڈیکیٹ کا ممبر نہیں بنایا ۔ حد تو یہ کہ ایک بندی پے ھراسمینٹ کا کیس تھا ،وزیر اعلی نے اس کو کراچی یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کا میمبر مقرر کردیا۔اور تو اور پندرھن سالہ مسلسل اقتدار کے باوکود سندہ حکومت نے زحمت گوارا نہیں کی ایک صوبائی سطح کی ہی تعلیمی کانفرنس کرکے کے کوئی پالیسی پیپر بناتے۔سندھ کے اندر پی پی کی تین ادوار میں تعلیم کے شعبہ میں کوئی خاطر خواہ پیس رفت ہوئی ہو بتائیں ۔لاکھوں نوجوانون کے مستقبل کو دائو پے لگا کر پروفیسروں کو کوس رہیں ہیں یہ تو وہ مثلا ہوا ہے الٹا چور کوتوال کو ڈاننٹے۔تو حضور لعن طعن کرنے بجائے ہوش کے ناخن لیں اب بھی وقت ہے کہ تعلیم کے شعبے میں بیورو کریسی کو گھسیڑنے کے بجائے ماہر تعلیم سے مشاورت کریں، اور کچھہ نہیں تو ایک غیرجانبدار کمیشن بٹھائیں جو کہ جامعات سے لے پرائمری تعلیم تک کی ابتری کا جائزہ لے اور پھر ان اسباب پہ غور کریں،اس کی روشنی میں باہمی مشاورت سے پالیسی بنائی اور ضرورت کے مطابق ترامیم لے ائیں ۔بیورو کرسی کو گھسیڑنے سے وزیروں کا حصہ پتی تو مل سکتا ہے جیسا کہ سرکار میں رائج ہے مگر اس سے تعلیمی صورتحال کی درستگی ناممکن ہے