پاکستان کے دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کافی عرصے سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔افواج پاکستان کی دلیرانہ کارروائیوں اور جانی قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کی سنگین وارداتیں روز کا معمول ہیں۔ افغانستان سے متصل علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں، دہشت گردوں کا نیٹ ورک تہہ در تہہ ہے۔ ان کے ٹریننگ کیمپ پاکستان کی حدود سے باہر خصوصاً افغانستان میں ہیں۔ یہ اسمگلنگ، ڈرگز،اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کرنے والوں پر مشتمل ہیں یہ لوگ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں ان کا مقصد سیکیورٹی فورسز کا مورال ڈاؤن کرنا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ دہشت گرد سیکیورٹی فورسز سے زیادہ طاقتور ہیں۔گزشتہ برسوں کے دوران کئی عسکریت پسند گروہوں نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے چین کو پاکستانی علاقوں میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھنے کے خلاف بار بار دھمکیاں دی ہیں۔اِن گروہوں نے متعدد حملے کیے ہیں جن میں چینی انجینئرز پر حملے، کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ اور تین چینی اساتذہ کا قتل شامل ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان اور چین دونوں نے انسدادِ دہشت گردی اور مسلسل ترقی کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔دہشت گردی کا مسئلہ سنگین ترین صورت اختیار کرچکا ہے۔ایک سانحے کا دکھ ابھی مندمل نہیں ہوتا کہ دوسرا رونما ہوجاتا ہے۔ دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا لہولہان ہیں۔پے در پے دہشت گردی کے رونما ہونے والے واقعات سے پاکستان کی فضا سوگوار ہے۔قوم سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوانوں اور غازیوں کو سلام پیش کرتی جو اپنی جانوں پر کھیل کر وطن عزیز کا دفاع کررہے ہیں۔
بلوچ قومیت کے نام پر جس طرح دہشت گردی کی جا رہی ہے اس سے عام بلوچ شہری کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس میں چند مٹھی بھر عناصر شامل ہیں جو بھارت کی شہ اور بھارت کی جانب سے اسلحے اور پیسہ ملنے کی بنا پر اس طرح کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کو بھارت کی جانب سے سپورٹ کیاجاتا ہے اور یہ عناصر پیسے اور شہرت کے لیے بھارت کی بولی بھی بولتے ہیں بلکہ بھارت کے ایما پر پاکستانیوں پر حملہ آور بھی ہوتے ہیں۔بھارت کی خفیہ ایجنسی را ایک عرصے سے بلوچستان میں سرگرم ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح بلوچستان کو بد امنی کا شکار کیا جائے۔ جس طرح نوجوانوں کو بلوچستان میں ورغلایا جا رہا ہے اور انھیں جس طرح سے سہانے خواب دکھائے جا رہے ہیں وہ ان کے لیے ڈراؤنے خواب ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کی اہمیت اور آزاد ملک میں رہنے کی قدر و قیمت تو ان لوگوں سے پوچھنی چاہیے جو اغیار کی غلامی میں جی رہے ہیں۔بھارت جس کو بلوچستان کا اتنا درد ہے اس کے اپنے ملک میں اس وقت مسلمان غلامی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات کر رکھی ہے اور طرح طرح کے لالچ کے باوجود مقبوضہ کشمیر کا نوجوان بھارت کی سرکار کے جھانسے میں نہیں آ رہا۔ بھارت بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر انھیں پاکستان سے متنفر کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے وہ ناکام ہو گی کیونکہ اگر بھارت مسلمانوں کا اتنا ہی خیر خواہ ہوتا تو اس کے اپنے ملک میں آج مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتے۔جہاں تک بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی بات ہے تو وہ ایک نہ ایک دن ضرور ختم ہو جائے گی کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کو مالی و عسکری امداد ہمسایہ ممالک کے ذریعے بھارت پہنچا رہا ہے اور پاک فوج بھارت کا یہ نیٹ ورک توڑنے میں ضرورکامیاب ہوگی کیونکہ ماضی میں بھی پاک فوج نے کلبھوشن یادیو کو بلوچستان میں تخریب کاری کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ برس ملک میں مجموعی طور پر 444 دہشت گردانہ حملے ہوئے، جس میں سیکورٹی فورسز کے کم از کم 685 ارکان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان واقعات میں عام شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں کو ملا کر مجموعی طور پر 1,612 افراد شہید ہوئے جبکہ 934 شدت پسند بھی مارے گئے۔اس سال مجموعی طور پر جو ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں وہ گزشتہ نو برسوں کے دوران سب سے زیادہ ہیں اور سن 2023ء کے مقابلے میں 66فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ تشدد کے سبب سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا میں ہوا، جہاں 1616افراد ہلاک ہوئے جبکہ بلوچستان میں 782 افراد مارے گئے،سی آر ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق سن 2024 میں ملک میں ہونے والے تشدد کے سینکڑوں واقعات میں مجموعی طور پر دو ہزار 546 افراد ہلاک ہوئے، جس میں عام شہری، سیکورٹی فورسز اور غیر مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند شامل ہیں۔یہ تمام ہلاکتیں دہشت گردانہ حملوں یا پھر انسداد دہشت گردی کی مجموعی 1166 کارروائیوں کے دوران ہوئیں۔
بھارت نے افغان طالبان کے ساتھ روابط بڑھانا شروع کردیے ہیں جس کا مقصد طالبان حکومت کے ساتھ تعاون سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ پچھلی دو دہائیاں شاہد ہیں کہ بھارت نے کھیل کے میدانوں سے لے کر ہر سطح پر پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ مستحکم افغانستان کی بات کی ہے اور عملی طور پر اس کے لیے کوششیں بھی کی ہیں، اس کے جواب میں اگر افغانستان کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے تو پاکستان کو آنے والے دنوں میں اس گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی ابھی سے تیار کرنا ہو گی، کیونکہ اس گٹھ جوڑ کے باعث خطے کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے۔