یہ میراکسی بھی اسٹوپا سے پہلا تعارف تھا اور پھر یہ کوئی عام اسٹوپا نہیں بلکہ ” شنگردر اسٹوپا“ تھا۔۔۔ ایک بلند وبالا گول گنبد نما بے درودیوارعمارت میرے سامنے تھی۔ اس کی اونچائی ایسی تھی کہ مجھے سر اٹھا کر دیکھنا پڑرہا تھا۔اس اسٹوپا کے گنبد کا قطر 162 اور اونچائی 90 فٹ تھی۔
یہ سوات کے علاقے بری کوٹ کے قریب موجود قدیم شنگردر اسٹوپا تھا۔کسی بھی اسٹوپا سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔۔۔ اور پھر یہ تعارف قدم قدم پر ہوتا رہا۔ جی ہاں وادی سوات ایسی ہی سرزمین ہے جہاں مہاتما گوتم بدھ کے قد آدم مجسمے، اسٹوپا اور گندھارا تہذیب کے آثار قدم قدم پر آپ کا دامن تھام لیتے ہیں، یہ آثاردنیا بھر میں بدھ مت کے زائرین کے لیے انتہائی مقدس اور متبرک سمجھے جاتے ہیں ۔ ۔۔
تو بات ہورہی تھی شنگردراسٹوپا کی ، اسٹوپا کوآسان زبان میں بدھا کی قبر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ روایت ہے کہ اسٹوپا میں ان کی خاک دفن ہوتی ہے اور اس شنگردر اسٹوپا کے حوالے سے توزیادہ تر مورخ متفق ہیں کہ اس میں مہاتما گوتم بدھ کی خاک دفن ہے۔
تاریخ کی ایک ادنی سی طالبہ ہونے کے ناتے میں خود کو خوش قسمت سمجھ رہی تھی کہ ہزارہا سال پرانے اسٹوپا کو دیکھنے کا موقع ملا جس میں اس عظیم انسان کی راکھ دفن ہے جس کا پیغام امن اور محبت تھاجس کی آج دنیا کو بہت ضرورت ہے۔ اسٹوپا کو قریب سے دیکھتے ہوئے اور تصاویر لیتے ہوئے میں یہی سوچتی رہی کہ یہ پتھر صدیوں سے اسی طرح موجود ہیں۔ صدیاںآئی اور گزر گئیں ، آج میں یہاں کھڑی ہوں ، مجھ سے پہلے جانے کتنے اور میرے بعد جانے کتنے اسے ایسے ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ اسٹوپا، اور ارد گرد کے پہاڑ اور تمام لینڈ اسکیپ صدیوں سے وہی تھا صرف لوگ بدلتے رہتے تھے۔ تماشا دیکھنے والی آنکھیں مختلف ہوتی تھیں۔
شنگردراسٹوپا وادی سوات میں بری کوٹ کے قریب ایستادہ صدیوں کے سفر کا امین بنا کھڑاہے۔ محققین کے مطابق شنگردر کا لفظ شنگریلا سے نکلاہے جو تبتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دیوتاﺅں کی جگہ کے ہیں۔ مورخ اس بات پر یکسو ہیں کہ اس اسٹوپا میں بدھا کی راکھ محفوظ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہاتما بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی ۔ بعد ازاں اشوک اعظم نے اس خاک کو ان اسٹوپوں سے نکال کر سلطنت کے تمام بڑے بڑے صوبوں اور شہروں میں بھجوایا اور حکم دیا کہ وہاں شان دار اسٹوپے تعمیر کرکے انہیں اس میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ یہ خاک اس طرح چوراسی ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی۔ اسٹوپا کو بدھ کی قبر بھی کہاجاتا ہے۔ایک تاریخی حوالہ یہ بھی ہے کہ چینی سیاح ہیون سانگ نے اپنے سفرنامے میں جس بادشاہ اتراسینا کا ذکر کیا ہے یہ اسٹوپا اسی نے تعمیر کروایا تھا اور اس میں مہاتما بدھ کی خاک محفوظ تھی۔ حوالے کوئی بھی ہو یہ بات طے تھی کہ اس اسٹوپا میں مہاتماگوتم بدھ کی خاک مدفن تھی۔
سوات میں آپ کی ملاقات بدھا سے نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہاں تو قدم قدم پر چٹانوں پر منقش مہاتماکے بلندوبالا مجسمے ، اسٹوپا اور گندھارا تہذیب کے آثار آپ کو حیران کردیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک حیران کن اور دل کی دھڑکن بڑھانے والا لمحہ وہ تھا جب اچانک مالم جبہ کی چڑھائیاں چڑھتے ہوئے وہ چٹان سامنے آجاتی ہے جس پر مہاتما پرسکون انداز میں بیٹھے گویا آنے جانے والوں کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ چٹان دراصل واقع توجہان آباد میں ہے لیکن مالم جبہ کے راستے میں بھی آتے جاتے نظر آجاتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑامجسمہ ہے۔ لبادے کی شکن آلود تہیں ، دونوں ہاتھ گود میں، آلتی پالتی مارے پرسکون انداز سے صدیوں سے اسی طرح بیٹھے گزرتے ہوئے وقت کو دیکھ رہے ہےں۔ کہا جاتا ہے کہ جہان آباد کے اس علاقے میں مہاتما بدھ آئے اور انہوں نے انسانوں اور دیوی دیوتاﺅں کو سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کی اور جب وہ وہاں سے چلے گئے تو معجزانہ طور پر پہاڑی کے پتھر میں سے یہ مجسمہ ظاہر ہوگیا۔ گزرتے وقت نے اس مجسمے کے کچھ حصوں کو متاثر کیا ہے لیکن اگر آپ دیکھنے والی نگاہ رکھتے ہیں تو آپ کے لیے یہ مکمل اور سالم ہے۔
بدھ مذہب کے حوالے سے یہاں ایک اور اہم تاریخی آثار ”بت کدہ“ کے نام سے موجود ہیں جنہیں مقامی لوگ ”گل کدہ“ یا بت کڑا بھی کہتے ہیں۔
سوات میوزیم سے قریب مین روڈ سے تھوڑا سا آگے بڑھےں تو سیدھے ہاتھ پر ایک سڑک اندر جارہی ہے ۔ایک سمت میں سیب کے باغات ہیں، سیب اگرچہ ابھی پکے نہیں تھے مگر خوشبو مہک رہی تھی۔ دور سے پتھروں کے کچھ ڈھیر نظر آرہے تھے جن کے گرد باڑھ تھی۔ درختوں کا ایک جھنڈ تھا اور ان کے سامنے ایک بڑے میدان میں پتھروں کے ڈھیر تھے۔ یہاں فضا میں ایک عجیب خاموشی تھی۔ ہم بارہ افراد کی موجودگی کے باوجود یہ خاموشی اتنی زیادہ تھی کہ بولتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ابتدا میں ایک کمرابنا ہوا تھا جو خالی تھا،صرف دیوار پر ایک پوسٹر لگا ہوا تھا جس پر بت کدے سے متعلق تفصیل درج تھی۔
آج سے تقریبا دو ہزار اور چند سو برس پیشتر اشوک اعظم نے یہ معبد تعمیر کروایاتھا۔ اس کے مرکز میں ایک عظیم اسٹوپا تھا۔ اور اس کے گرد 240 چھوٹے اسٹوپے اور عبادت گاہیں تھیں۔ حضرت عیسی ؑ کی پیدائش سے پیشتر اس میں تین مرتبہ توسیع ہوئی اور پھر یہ بت کدہ تیرہ سو برس تک آباد رہنے کے بعد حملہ آوروں کے ہاتھوں برباد ہوگیا۔ بدھ کے پیروکاروں اور بزرگ ہستیوں کو بھی اسٹوپوں میں دفن کیا جاتا ہے۔ منت پوری ہونے پر شکرانے کے طور پر امیر اشخاص بھی اسٹوپے بناتے تھے۔ اسٹوپا کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں، اس وقت بھی ایک چھتری وہیں اسٹوپوں کے درمیان پڑی تھی جس کے درمیان گول سوراخ بھی تھا ۔ سارے آثار ٹوٹے پھوٹے اور کسی بھی حفاظتی انتظامات سے بے نیاز وقت کے رحم و کرم پر تھے۔چاروں جانب ٹوٹ پھوٹ کی نشانیاں ہماری غفلت اور بے تعلقی پر نوحہ کناں تھیں۔ہمیں ان شیروں کے مجسمے دیکھ کر بھی بہت افسوس ہوا جن کی تصویریں سیاحتی بروشرز پر بڑی شان دار نظر آتی ہیں لیکن اس وقت وہ ٹوٹے پھوٹے اور نامکمل حالت میں الٹے پڑے ہوئے تھے۔ اگر ہماری غفلت کا عالم یہی رہا تو کچھ عرصے بعد ان شیروں کا نام و نشاں تک نہ ہوگا۔یہاں سے خاک کی کچھ ڈبیاں بھی نکلی تھیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مہاتما ہی کی خاک ہے۔یہ ڈبیاں سوات میوزیم میں محفوظ ہیں۔ہمارے گائیڈ ثناءاللہ جن کا تعلق بت کدہ کے انفارمیشن سینٹر سے تھا ،کے مطابق بت کدہ سے 9484 مجسمے برآمد ہوئے تھے جو سب کے سب اٹلی کے میوزیم میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کے مطابق تو1956 سے 1961تک جس اطالوی مشن نے بت کدہ کی کھدائی کی تھی وہی مشن بہترین اور مکمل مجسمے اپنے ساتھ لے گیا البتہ چند ایک اشک شوئی کے لیے سوات میوزیم کو دے گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گندھارا کا سب سے اعلی کام ایک اطالوی پروفیسر کے ذاتی گھر کی زینت ہے۔
تہذیبیں ہمیشہ دریاﺅں کے کنارے ہی پروان چڑھتی اور پھولتی پھلتی ہیں۔ دریائے سوات کے کناروں نے بھی کئی تہذیبوں ، مذہبوں اور قوموں کو پھلتے پھولتے اور پھر زوال پزیر ہوتے دیکھا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم کے سوات میں تمام مذاہب میں بدھ مت کو اولیت حاصل رہی ہے۔ بدھ مت یہاں باہر سے آیا لیکن پھلا پھولا یہیں۔ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس کے اثرات آج بھی سوات میں آثار قدیمہ کی شکل میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ سوات کا وہ کون سا علاقہ ہے جہاں بدھ مت کے آثار نہیں ملتے۔ یہاں چپے چپے پر منقش بدھ دور کے آثار بدھ مذہب کی عظمت رفتہ کی داستان سنارہے ہیں۔
سوات میں گندھارا آرٹ مہاتما گوتم بدھ کے مختلف مجسموں اور پتھروں کے نقوش میں ڈھلتا نظر آتا ہے۔ گویا سنگ تراشی،مجسمہ سازی، تصویر کشی اور مختلف نقوش پر مشتمل کندہ کاری کا جو فن وجود میں آیا ہے۔ اسے گندھارا آرٹ کا نام دیا گیا ہے۔ گندھارانہ صرف فن کا نام ہے بلکہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پررہا۔
گندھارا کا نام سب سے پہلے ہندوﺅں کی مذہبی کتاب ” رگ وید“ میں آیا ہے۔ اس کے بعد ایرانی ، یونانی اور رومی زبانوں سے تعلق رکھنے والے تاریخی ذرائع سے بھی مختصرا معلوم ہوتا ہے۔ تاہم گندھارا کا مفصل ذکر چینی سیاح ہیون سانگ کی تحریروں میں ملتا ہے۔ یہ سیاح ساتویں صدی عیسوی میں بدھ مت کے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے برصغیر آیا تھا۔ چونکہ گندھارا کا علاقہ بھی بدھ مت کا اہم مرکز تھا اس لیے وہ یہاں بھی آیا۔ اس کی تحریروں کی روشنی میں گندھارا کی ریاست میں شمال کی طرف سوات، دیر، باجوڑاور مشرق کی طرف دریائے سندھ کا علاقہ شامل تھا۔
اگرچہ حالیہ دنوں میں گندھاراکے آثار والے یہ تمام علاقے مثلاسوات، پشاور ، دیر اور ہمارے دیگرپہاڑی علاقے دنیا بھر میں دہشت گردی کے حوالے سے خبروں کا موضوع بنتے چلے آرہے ہیں لیکن اگر ہم چاہیں اور تھوڑی سی کوشش کریں تویہی علاقے گندھارا آرٹ اور بدھ مت کے آثار کے حوالے سے عالمی سطح پر مشہورہوسکتے ہیں۔یہ تمام علاقے اور یہ آثار ہمارا وہ بیش بہا سرمایہ ہیں کہ اگر ہم ان کی صحیح طرح سے پبلسٹی کرلیں تو دنیا بھر کے سیاح یہاں جوق در جوق آنے لگیں گے۔
جاپان اور چین میں بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کو چین کی سیاحت کی صنعت سے استفادہ کرنا چاہیے جو بیرونی سفر پر اخراجات کے حوالے سے دنیا میں چوتھی بڑی صنعت ہے۔ذرائع کے مطابق دو کروڑ پانچ لاکھ چینی ہر سال بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق یہ تعداد 2020 تک دوگنی ہوجائے گی۔ جس سے ہرسال 590 بلین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے ۔ ہم اپنے ان علاقوں کی عالمی سطح پر تشہیر کے ذریعے ان سیاحوں کو یہاں آنے کے لیے مائل کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں چین کے ساتھ مل کر کوئی جامع منصوبہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح ہم بھی سیاحت کو سماجی اور معاشی ترقی اور غربت میں کمی کے ذریعے کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔
کوریا کے ایک مذہبی رہنما مونک جیون وون ڈیوک جو 2007 میں پاکستان آئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان صرف تخت بائی کے کھنڈرات کو ہی بحال کردے تو یہ ہمارے لیے اتنے ہی مقدس اور متبرک ہیں جیسے کسی مسلمان کے لیے شہر مکہ، انہوں نے کہا کہ چین، جاپان اور کوریا کے ہزاروں بدھ مت کے پیروکار ان علاقوں کا رخ کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
پاکستان نے بیرونی مارکیٹوں میں اپنے سیاحتی اثاثوں کی تشہیر مناسب طور پر نہیں کی ہے۔مناسب تشہیر سے یہ علاقے غیر ملکی سیاحوں کی جوق در جوق آمد کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ بہترین بنیادی سہولتوں اور فول پروف حفاظتی انتظامات کے بغیر سیاحوں کی آمد ایک خواب ہی ہوسکتی ہے، تعبیر نہیں۔
کسی بھی ملک میں سیاحت کا ڈھانچا بنیادی سہولتوں پر استوار ہوتا ہے جس میں سڑکیں ، ہوٹل، بجلی ، صاف پانی اور محفوظ خوراک شامل ہے ۔ ایسی تمام سہولتوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان سیاحت کے حوالے سے ایک جامع منصوبہ تیار کرے بلکہ اگلے سال کو وہ سیاحت کا قومی سال بھی قرار دے سکتی ہے۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی،امن وامان کی بہتری اور مناسب تشہیر سے ہماری سیاحت کی صنعت کہاں سے کہاں پہنچ سکتی ہے اس کا اندازہ کوئی بھی صاحب فہم لگا سکتا ہے۔ ایسے تمام اقدامات سے ہم عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بھی بہتر بناسکتے ہیں جسے ہم نے خود ہی بگاڑ دیا ہے۔