میں حسب معمول کراچی پریس کلب میں ڈیوٹی پر تھا ۔ تقریبا دن 10 بجے کے قریب سسٹر کی کال آٸی میں نے کال اٹینڈ کی تو بولی کہ ” امی جان کی طبیعت ناساز ہے امی جان کو RHQ ہسپتال سکردو لے آٸی تھی یہاں کی ایمرجنسی وارڈ سے چیک اپ کرانے کے بعد ایڈمٹ کرانے کا بولا تھا لیکن میڈیکل وارڈ کے نرسز معمولی سی بات پر ہم سے لڑ رہے ہیں ۔ اماں کو وارڈ میں جگہ نہیں دے رہے حالانکہ اماں بیہوشی کی حالت میں پڑی ہوٸی ہے ”
یہ سن کر میں ایک دم سے ٹوٹ کر بکھر گیا لاکھ کوششیں کرنے کے باوجود بھی مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے وہیں رونا شروع کر دیا ۔ ایک تو مجھے امی جان کی بیماری کا غم اور دوسرا ہسپتال اسٹاف کے ملازمین (نرسز) کے نامناسب اور غیر اخلاقی رویے پر بہت غصہ آ رہا تھا ۔ گوگل سے ہسپتال کی ptcl نمبر لینےکی کوشش کی تو ایک نمبر ملا وہ بھی بند جا رہا تھا ۔
میں کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح سے ہسپتال کے MS یا کسی بھی منتظم سے رابطہ ہو سکے تاکہ پوچھ سکے کہ نرسز کو مریضوں اور اٹینڈینٹس کے ساتھ لڑنے جھگڑنے اور دھمکیاں دینے کی اجازت کس نے دی ہے بہر حال ان سے میرا رابطہ نہیں ہو سکا ۔ غم سے نڈھال میں سکردو کے مختلف معزز شخصیات تک یہ بات پہنچانے کی کوشش میں سب کو کال ملاتا رہا جن میں گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ صاحب ، شہزاد آغا صاحب (رکن گلگت بلتستان اسمبلی ) اور دیگر دوست احباب شامل تھے ۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد سسٹر کی دوبارہ کال آٸی بولی کہ اماں کو وارڈ میں جگہ مل گٸی ہے اور ایڈمیٹ کر کے ٹریٹمنٹ شروع کر دی ہے ۔ چونکہ میں اسی ٹاٸم بے قابو ہو کر رو رہا تھا آفس مینجمنٹ نے بولا کہ آپ زیادہ پریشان ہیں تو چھٹی لے کر گاٶں چلے جاٸیں اور اماں کی پراپر ٹریٹمنٹ کراٸیں ۔ تب میں نے سیکرٹری کراچی پریس کلب شعیب احمد صاحب کو کال کی اور ان کو سارا مدعا سنا دیا ۔ شعیب احمد صاحب جو کہ انتہاٸی مخلص اور شفقت آمیز شخصیت ہے انہوں نے مجھے تسلی دی اور چھٹیوں کی منظوری بھی اور ہر ممکنہ تعاون کی یقین دہانی بھی کی ۔ جوں ہی مجھے ایک مہینے کی چھٹی کی منظوری ملی میں سیدھا کینٹ سٹیشن پہ کراچی ٹو راولپنڈی کی ریلوے ٹکٹ بوک کرانے گیا ایک گھنٹہ لاٸن میں رہ کر جب ریسپشنسٹ کے پاس پہنچا پوچھنے پر بتایا کہ دو دن تک کے لیے ٹکٹ نہیں ہے تیسرے دن کی ٹکٹ مل جاٸے گی ۔ میں چاہ رہا تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے سکردو پہنچ جاٶں کیونکہ امی جان کی طبیعت ناساز تھی ۔ میں رات 9 بجے نماٸش اسٹیشن پہ کاٸنات ٹریولز والوں کے پاس ٹکٹ لینے گیا تو ماشاءاللہ سے کرایہ پچھلے دو سالوں کی نسبت دوگنے سے بھی زیادہ تھا ۔ مجبوری تھی اس لیے میں نے 3500 کی ریلوے ٹکٹ چھوڑ کر 6000 کی بس ٹکٹ لے لی ۔ دوران سفر پتہ چلا کہ سروس بھی پہلی جیسی نہیں ہے ۔ پہلے جب کرایہ 3000 تھا تب ریفریشمنٹ وغیرہ بھی کمپنی کی طرف سے دی جاتی تھی اب تو وہ سب کچھ بھی میسر نہیں تھے ۔ ارراٸول ٹاٸمنگ کے بارے میں بتایا تھا کہ بس 20 گھنٹے میں راولپنڈی پہنچ جاٸے گی لیکن پہنچی پورے 24 گھنٹے کے بعد اور مسافرین کو اتارا بھی راولپنڈی شہر سے دور کسی اڈے پر وہاں سے صدر راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی ڈراٸیورز 1000 روپے کرایہ لے رہے تھے ۔ ان سب مشکلات کا سامنا کر کے راولپنڈی پہنچ گٸے وہاں ناشتہ وغیرہ کر کے تھوڑا آرام کیا دوپہر کو کسی ہیر ڈریسر کے پاس بال بنوانے بیٹھے اور کوٹ اتار کر کسی ساٸڈ پر رکھا تھا بال بنوانے کے بعد جب کوٹ پہننے لگا تو پتہ چلا موباٸل فون کسی نے کوٹ سے نکال لیا ہے ۔اب تو کسی سے بھی رابطہ کرنا ناممکن تھا میں ایک دم ڈیپریسڈ فیل کر رہا تھا ۔
اب تو پریشانیاں بھی دوگنی ہو گٸی اور سر درد نے بھی اپنا ولولہ دکھانا شروع کر دیا ۔ گھر والوں سے رابطہ کرنے کے لیے ایک فون لینا تھا ۔ علی پور اسلام آباد میں کسی دوست کی موباٸل شاپ تھی ان کے پاس کوٸی سستا فون لینے پہنچ گیا اور 20000 کا نیا فون لے لیا جو کہ وہاں کا سب سے سستا فون تھا ۔ شام کو گھر والوں سے بات ہوٸی رات علی پور میں کسی رشتہ دار کے ہاں قیام کیا ۔ اگلے روز پیرودہاٸی بس اڈے پر راولپنڈی ٹو سکردو کی ٹکٹ بوک کرانے آیا اور میں نے K2 ٹریولز کمپنی والوں کا انتخاب کیا تھا ان کی مینجمنٹ سے لے کر ڈراٸیورز سے لے کر کنڈیکٹر تک سب بہترین تھا ۔ بہر حال طویل ترین سفر کے بعد سکردو بس اڈے پر پہنچا وہاں کوٸی دوست لینے آیا ہوا تھا اس کے ساتھ سیدھا ہسپتال گیا ۔ دو سال کے بعد امی جان سے ملاقات ہو رہی تھی اور اماں بیمار بھی تھی وہاں پہنچ کر میں نے خداٸے تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔ میرے پہنچنے کے بعد اماں کی طبیعت میں بھی بہتری آٸی اللّٰه پاک کے کرم سے امی جان کی طبیعت دن بدن بہتر ہوتی گٸی ۔ جو کہ ابھی بالکل ٹھیک ہے الحمد للہ ۔
ایک ہفتے ہسپتال میں رہ کر میں نے یہ اوبزیرو کر لیا کہ ہسپتال میں آٸے مریضوں کی ٹریٹمنٹ تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اسی ڈاکٹر کے کلینک میں نہ جاٸے جو RHQ ہسپتال میں علاج کر رہا ہے ۔
چونکہ میرا سفر پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا تھا کراچی ساحل سمندر کے قریب سے شروع ہوکر کے ٹو کے دامن تک سفر کی ۔ میں نے اسی ایک سفر میں دارلخلافہ سمیت سندھ پنجاب ،کے پی کے اور گلگت بلتستان کا جاٸزہ لے کر یہ مشاہدہ کیا کہ ہر جگہ فراڈ ، منافع خور مافیاز سرگرم ہے ۔ اگر ٹریولز سروس والے کرایہ زیادہ لے رہے ہیں یا ہوٹل مالکان سوکھی دال کے ساتھ دو جلی ہوٸی روٹیوں کے تین سو روپے لے رہے ہیں یا دوکاندار حضرات 50 روپے والی منرل واٹر کی بوتل 100 روپے میں سیل کر رہے ہیں تو ان سے کوٸی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ۔ ہر کوٸی اپنے بساط کے مطابق دوسروں کی مجبوری کا فاٸدہ اٹھا رہے ہیں اور کہیں پر بھی حکومت نام کی یا انتظامیہ نام کی کوٸی چیز نہیں ہے ۔ خیر یہ سب ہوٸی ہمارے ملک کی باتیں سب سے اہم بات جو میں آپ تمام دوست و احباب کو سمجھانا چاہ رہا ہوں وہ یہ کہ اپنے والدین کی قدر کیا کریں ان کو ٹاٸم دیا کریں ۔ پہلے جب گھر والے میرے کو کال کرتے تھے مجھے لگتا تھا گھر والے مجھے ڈسٹرب کر رہے ہیں میں کہتا تھا اتنا کال نہ کیا کرے میرے پاس اتنا ٹاٸم نہیں ہوتا حالانکہ میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پہ لگا رہتا تھا اور گھر والوں کو ہفتے میں ایک یا دو بار کال کرتا تھا پھر بعد میں تین دن کے لیے اماں بیمار ہو گٸی اور ان سے میری بات نہیں ہوٸی تو مجھے اتنی بے چینی اور بے سکونی ہوٸی کہ میں کراچی میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سکردو پہنچ گیا پھر مجھے احساس ہوا کہ گھر والے بھی ایسے ہی بے چین ہوتے ہوں گے جب ہمارے سے بات نہیں ہوتی ہوگی ان کو بے سکونی ہوتی ہوگی جب اپنی اولادوں سے ہفتوں مہینوں تک بات نہیں ہوتی ہوگی ۔ بالآخر چھوٹی سی دعا کے ساتھ اپنی تحریر کا اختتام کرنا چاہوں گا کہ اللّٰه پاک ہم سب کے والدین کو عمر دراز عطا فرما اور ہمیں ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما آمین