بیشک ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے لیکن اسے معاشرے کا معزز شہری ایک معلم ہی بناتا ہے ۔اسلام نے معلم یعنی استاد کو روحانی باپ قرار دے کر ایک قابلِ قدر ہستی اور محترم و معظم شخصیت کی حیثیت عطا کی ۔ دین اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک کی سب سے پہلی آیت جو اتاری گئ اس میں سب سے پہلا پیغام ہی علم سے متعلق تھا کہ "پڑھ اپنے رب کے نام سے ،جس نے تجھے پیدا کیا ". ہمارے دین میں علم اور معلم کو انتہائ اہمیت حاصل ہے ۔ ارشاد نبویؐ ہے کہ "تم عالم بنو یا پھر طالب علم بنو اور اگر نہیں بن سکتے تو کم از کم ان سے محبت رکھنے والے ضرور بنو ” ۔۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے باوجود کہ ہمارا ملک ایک اسلامی جمہوری ملک ہے ہم تعلیم کو قطعاً وہ اہمیت نہیں دے رہے جس کی تعلیم ہمیں ہمارا مذہب اسلام دیتا ہے ۔ ہمارے ملک کو بنے 76 سال کا طویل عرصہ بیت گیاہے مگر ہم اب تک اپنا تعلیمی نظام صحیح بنیادوں پہ استوار نہیں کر سکے ہیں ۔ہم آزاد ہونے کے باوجود اب تک غلامانہ سوچ کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ اور لارڈ میکالے کے بنائے ہوئے انگریزی نظامِ تعلیم کو اپنائے ہوئے ہیں ۔ لارڈ میکالے نے ایک بار برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” ہم تب تک برصغیر کو فتح نہیں کر پائیں گے جب تک کہ ہم وہاں کے لوگوں کو ان کے کلچر ،ان کے اجداد کے کارناموں اور ان کی تاریخ سے دور نہیں کر دیں گے ،انہیں یہ باور کرنا ہو گا کہ وہ کم تر ہیں اور ہم برتر ” اس خطاب سے باخوبی اندازہ لگایا کا سکتا ہے کہ لارڈ میکالے کی کیا سوچ تھی اور اس نے کیا حکمتِ عملی اپنائ تھی ۔ آزادی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنا تعلیمی نظام اسلامی شریعت کےعین مطابق اور اپنی زبان میں بناتے مگر افسوس کہ ایسا ہوا نہیں اور چند غلامانہ سوچ کے بااثر اور بے ضمیر افراد نے نظام تعلیم کو لارڈ میکالے والا نظام بنائے رکھا اور تب سے اب تک ہمارے نظام ِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں کوئ قابلِ قدر ترمیم نہیں کی جاسکی ۔
اس کی سب سے بڑی وجہ وہ مخصوص طبقہ ہے جو ملکی سیاست میں اثر و رسوخ بھی رکھتا ہے اور اسے غیر ملکی امداد و تعاون بھی حاصل ہے ۔ ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کو اگر کمزور اور اپاہج بنانا ہے تو اس کی تعلیم کا رشتہ اس کی زبان سے کاٹ دیا جائے ،وہ قوم پھر جلد دم توڑ دے گی ” ۔ ملک دشمن بیرونی طاقتیں ان کالی بھیڑوں کو جو ہماری قوم میں موجود ہیں اسی مقصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں ۔ہمارا کمزور تعلیمی نظام ان خارجی طاقتوں کا نشانہ ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ دشمن جنگ کے لیے ایسا محاذ منتخب کرتا ہے جہاں اسے کم سے کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے ۔کیونکہ ہمارا نظامِ تعلیم ایک کمزور نظام ہے لہذا ان ملک دشمن عناصر نے اسے اب ہتھیار بنایا ہے ۔
ملک دشمن صیہونی طاقتوں نے نجی اسکولوں کا ایک جال بنا کر پھیلا دیا ہے ۔جس کو بنانے کے لیے انہوں نے ہمارے ہی ملک کے چند افراد کو استعمال کیا ہے ،ان افراد کی یہ ملک دشمن عناصر ناصرف سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ ان کو بھرپور مالی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے ۔افسوس کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمارے ملک کے مستقبل کے معماروں کو ذہنی طور پر کمزور ،مفلوج اور کند ذیہن بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ،ان کچے ذیہنوں میں اسلام مخالف ، پاکستان مخالف اور اسلامی تہذیب و تمدن مخالف منفی سوچ پیدا کی جا رہی ہے ۔ اس سلسلے میں ان بے ضمیر افراد نے بہت سی درسی کتابوں کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ان نجی پرائیویٹ اسکولوں میں اردو کے بجائے انگریزی زبان کو اہمیت دی جا رہی ہے اور طالب علموں کو سختی سے کہا جاتا ہے کہ وہ صرف انگریزی بولیں ۔ ان تعلیمی اداروں میں پڑھائ جآنے والی درسی کتابوں میں سوچی سمجھی سکیم کے تحت غلط نقشے دئیے جا رہے ہیں جن میں ایسے علاقے جو پاکستان کا حصہ ہیں ان کو انڈیا کا حصہ دیکھایا گیا ہے ۔ بعض پرائیویٹ اسکولوں میں تو دینیات جیسا اہم مضمون بھی غیر مسلم کا تصنف کردہ پڑھایا جا رہا ہے ۔ مذہب سے متعلق انتہائ غلط معلومات طلباء کو دی جا رہی ہیں اور طالبات کو حجاب اور دوپٹے پہنے سے منع کیا جا رہا ہے ،ان اسکولوں میں جنسی تعلیم کا نام لے کے جنسی بےراروی کو فروغ دیا جا رہا ہے ، یونیفارم کا نام دے کر پینٹ شرٹ پہننے کی ترغیب دی جا رہی ہے ۔ ان نجی اسکولوں میں ٹیوشنز کو فروغ دیا جا رہا ہے اور بھاری فیسیں لینے کے باوجود طلباء کو ٹیوشن سینٹرز میں داخلہ لینے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ طلباء سے زیادہ سے زیادہ فیسیں وصول کی جا سکیں ۔ یوں درس و تدریس جیسے قابلِ احترام شعبے کو بزنس بنا کر رکھ دیا ہے ۔ حکومت وقت کو فوری طور پراس اہم معاملے کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہیے اور ایسے تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دینا چاہیے جو ملکی مستقبل کو داوء میں لگانے کا باعث بن رہے ہیں اور مکمل تحقیقات کے بعد ذمہ دار افراد کو جو چاہے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں سخت سزا دینی چاہیے ۔
موجودہ حکومت اس معاملے میں دلچسپی لے رہی ہے جو کہ ایک اچھا شگون ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے پہلا مثبت قدم ان نجی تعلیمی اداروں کو فیس کم کرنے کا حکم جاری کر کے کیا ہے جو عوام کے لئے انتہائ باعثِ مسرت ہے ۔ اس کے علاوہ سب سے اہم اور متاثر کن خبر یہ ہے کہ وفاقی وزیر تعلیم نے کہا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ تمام صوبوں میں یکساں نصاب تعلیم لا کر ملک اور معاشرے سے ناانصافیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
قومی نصاب کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ حکومت نے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے غریب اور متوسط طبقے سے تعلیمی ناانصافیاں ختم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے ۔ بہترین، باعثِ خوشی اور اہم بات یہ کہ تعلیمی نصاب پر پہلے اجلاس کے شرکاء نے حکومت کو تعلیمی انقلاب کیلئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ پاکستانی عوام حکومتِ وقت کے اس اہم فیصلے کو انتہائ قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے پہ حکومت کتنی جلدی عملدرآمد کرواتی ہے ۔ نیا تعلیمی نصاب رائج کرنے کے لیے حکومت کو مندرجہ ذیل چند اہم اقدامات کرنے پڑیں گے تاکہ ایک ایسا تعلیمی نصاب بنایا جا سکے جو ہر طرح سے بہترین اور معیاری ہو ۔
1.. پاکستان اسلام کے نام پہ وجود میں آیا ،ایک نیا نصابِ تعلیم بلکہ نظامِ تعلیم بناتے ہوئے اس بات کو ذیہن میں رکھنا اشد ضروری ہے کہ تعلیمی نصاب قوم کی مذہبی ،ذہنی ،معاشرتی ، اور تہذیب و تمدن کے مطابق ہو ۔
2_اس نظام نصاب کو لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم سے آزاد کر کے مکمل طور پر قومی زبان اردو میں ڈھالا جائے تاکہ وہ دیہی طبقہ جو انگریزی زبان سے ناواقف ہونے کے باعث احساس کمتری کا شکار ہو کر بہت پیچھے رہ گیا تھا وہ آگے بڑھ سکے اور تعلیم یافتہ ہو کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ پورے پاکستان میں ایسا یکساں تعلیمی نصاب رائج کیا جائے جو کم از کم انٹر تک ہو ۔
3_نصاب سازی کے لیے ملک بھر سے ماہرین تعلیم اور ماہر اردو دان دانشور اکھٹے کئے جائیں جو سر جوڑ کر تعلیمی ڈھانچہ انتہائ باریک بینی اور ذمہ داری کے ساتھ مرتب کریں ۔ اس ضمن میں چھوٹی سے چھوٹی باریکی کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے ۔
4_تعلیمی نصاب کی زبان آسان اور عام فہم بنائ جائے اور اس ضمن میں جماعت اور طالب علم کی عمر کا خیال رکھا جائے ۔ قومی زبان واحد زبان ہے جو کہ ملک میں 98% افراد بول اور سمجھ سکتے ہیں لہزا نصاب اردو زبان میں ہی بنایا جائے ۔
5_انگریزی اور دیگر زبانوں کو اختیاری زبان کے مضمون کے طور پر رکھا جائے ۔ اور نصابی نظام صرف اردو زبان میں ہو ۔
6_ تعلیمی اداروں کو منشیات ، مذہبی ،لسانی اور صوبائ تعصب سے پاک کیا جائے ۔
7_نئے تعلیمی نظام میں تعلیمی اداروں سے ٹیوشن کلچر کا مکمل خاتمہ کیا جائے ۔
8_تعلیمی اداروں میں قرآنی تعلیم لازمی قرار دی جائے ۔
ان چند اہم نقاط کو اگر تعلیمی ڈھانچہ بناتے وقت ذیہن میں رکھا جائے گا تو یقیناً ایک بہترین تعلیمی نظام بنایا جا سکتا ہے