انور مقصود علم و ادب سے قربت رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیشہ سے لکھ رہے ہیں، کچھ کچھ پڑھ بھی لیتے ہیں۔ ایک اچھے ڈرامہ نویس ہیں، پی ٹی وی کے دور میں صرف ففٹی ففٹی ہی نہیں، بلکہ مختلف سینٹرز سے ان کے سیرئیل اور وَن آف نشر ہوتے رہے ہیں۔ کراچی سے “ستارہ اور مہرالنساء” اور لاہور سے “مرزا اینڈ سنز “ جیسے کھیل بھلا کس کو یاد نہیں ہوں گے۔ سࣿکرپٹ ان کا صحیح اکھاڑہ تھا، اس میں کافی حد تک کامیاب رہے۔
انگریزی کی طرح اردو زبان میں بھی pun شاید کلاسیکی دور سے ہی استعمال ہوتا آرہا ہے۔ انور مقصود اس فن میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ لیکن عام طور پر punsters کی طرح یہ بھی کہیں کہیں اپنی اس مہارت کا “زبردستی” مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے تھے، لہذا بات بن نہیں پاتی تھی۔ ویسےان کا مزاح اکثرو بیشتر مزیدار ہوتا ہے، ان کے جملے اور فقرے بھی دہرائے جاتے رہے ہیں۔
انورمقصود کی طرز ظرافت کچھ انوکھی سی ہے، اس میں مذاق اُڑانے کا عنصر حاوی سا رہتاہے۔ ہنسی بھی بہت آتی ہے، اور کچھ عجیب سا بھی لگتا ہے۔ ایک بار ارد شیر کاوس جی نے میرے سامنے ان کو انگریزی میں برا بھلا کہا، تو انہوں نے جواب میں اردو زبان میں ایک گالی دے دی: پھر سوچ لیجئے کیا ہوا ہوگا۔ میرے علاوہ وہاں پرانے دوست اور ساتھی ذوالفقار نقوی بھی موجود تھے؛ ہم سے ہنسی نہیں روکی جارہی تھی، لیکن انور مقصود کا جواب بھی عجیب سا محسوس ہوا! بہرحال معاملہ کسی طرح وہیں رفع دفع ہوگیا۔اس کی تفصیل پھر کبھی تحریر کروں گا۔
اسی طرح ایک بار معروف ہندوستانی مصور اور فلمساز ایم ایف حسین کے ساتھ ایک شوٹنگ چل رہی تھی۔ ایم ایف حسین قالین پر بیٹھے کینوس پر کچھ پینٹ کررہے تھے، سارے کیمرے رولنگ پر تھے کہ میں نے حسین صاحب سے جگہ بدلنے کی درخواست کی، اس پر وہ خلاف توقع اٹھ کر چلنے کے بجائے، اچانک بکری کی طرح چاروں ہاتھ پیر پر چلتے ہوئے دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔ یہ منظر دور سے انور مقصود نے دیکھ لیا، وہ ہنستے ہوئے قریب آئے اور مجھ سے سرگوشی میں کہنے لگے، “یہ منظر کیمرے پر ریکارڈ ہوا ہے تو مجھے فورا اس کی ایک کاپی چاہئے۔”ان کے شیطانی ارادے دیکھ کر میں نے کہہ دیا کہ ریکارڈ نہیں ہوا! اس پر انہوں نے میری طرف اشارہ کرکے ایم ایف حسین سے کہا کہ یہ دوبارہ جگہ بدلنے کا کہہ رہے ہیں۔اس پر یہ بے چارے معصوم ہندوستانی آرٹسٹ دوبارہ اسی طرح چاروں ہاتھ پیر پر چلتے ہوئے، پہلے اپنی پرانی جگہ واپس آئے، اور پھر اسی طرح وہ چلتے ہوئے دوبارہ مجوزہ جگہ پر پہنچ گئے۔ ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا؛ انور مقصود کے ہوتے ہوئے وہاں سنجیدگی کے ساتھ مزید کام کرنا مشکل تھا۔ لہذا ان کو ایک بریک کے بعد زبردستی پروگرام میں شامل کرلیا گیا، پھر کچھ سکون ہوا۔ پروگرام کے دوران بھی انہوں نے نہ صرف حسین صاحب بلکہ پکاسو (Picasso) کا بھی مذاق اُڑانے کی کوشش کی، پھر انہیں خود ہی اپنی اس غلطی کا احساس ہوگیا، اور بعد میں ان ہی کے کہنے پر ہم نے وہ حصہ پروگرام سے نکال دیا۔
سو یہ سچ ہے کہ انور مقصود کے انوکھے مزاح میں مذاق اڑانے کا تواتر اتنا حاوی رہتاہے کہ وہ ان کی گفتگو اور تحریر کے بہاؤ میں کہیں کہیں رکاوٹ بنتا محسوس ہوتا ہے۔ شاید یہ میرا ذاتی احساس ہو، لیکن اس کوشش میں وہ بڑے خطرناک قسم کے تجربے کرچکے ہیں۔ کچھ کو حیرت ہے کہ ان کو اب تک اُٹھایا کیوں نہیں گیا، جب کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ (اللہ انہیں لمبی زندگی دے، آمین) وہ بار بار اُٹھتے رہے ہیں۔ شاید اُٹھانے والے تنگ آکر واپس چھوڑ دیتے ہوں گے۔
مستقل مذاق اُڑانے کی approach کے سبب وہ ایک لحاظ سے لاہور اور کراچی اسٹیج کے جگت بازوں کی فہرست میں بھی شمار کئے جاسکتے ہیں۔ شاید اسی لئے ان پر “فقرے باز” ہونے کا لیبل بھی لگ چکا ہے؛ شاید یہ غلط بھی نہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ صرف فقرے باز بھی نہیں۔
اگر کچھ لوگ انہیں اردو ادب کا بڑا لکھاری سمجھتے ہیں، تو مجھے کوئی خاص اعتراض نہیں؛ شاید مجھے ابھی اندازہ نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں ان کا نام اکبر الہ آبادی کی طرح لیا جانے لگے۔
چند دوستوں نے ان کے معین اختر سے تعلق پر چند اہم باتیں درج کی ہیں؛ وہ بھی یقیناً درست ہیں، جہاں تک میری یاد داشت کام کرتی ہے، معین کی تربیت ضیا محی الدین کی زیر نگرانی ہوئی ہے۔ معین پر ضیا کا اثر بھی بہت تھا، پہننے اوڑھنے سے لگتا تھا کہ وہ ضیا محی الدین کی پیروی کرتے ہیں۔ گفتگو کرتے ہوئے معین پر دلیپ کمار کا بھوت چڑھ جایا کرتا تھا۔ انور مقصود اور معین اختر کا ساتھ طویل اور گہرا ضرور ہے، لیکن بہت پرانا نہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر مقبولیت حاصل کرچکے تھے؛ یہ ایک دوسرے کا کبھی کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
انور مقصود واقعہ گوئی میں یقیناً کمال رکھتے ہیں، البتہ ایک واقعہ دوسری بار سناتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ پہلے کیا کیا کہا تھا۔ اس لئے واقعات کی credibility پر سوال بنتا ہے، شاید ان کے شعبے میں یہ سب کچھ چلتا ہے۔
ان کا تازہ ترین شکار پاکستان نیوی ہے۔ “ڈوب کر مر جاتے ہیں” والا مذاق سننے میں تو یقیناً اچھا نہیں، لیکن اب انور مقصود کا کیا کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے ضیا الحق اور مشرف سمیت کس کو چھوڑا تھا، جو اب انہیں پکڑا جائے۔ سرکاری چینل پر سرکاری افواج پر نشانہ تان چکے ہیں، پنجابیوں کو سرعام چو پایا کہلوا چکے ہیں؛ پنجابیوں نے تو کچھ نہیں کہا؛ ویسے پنجابی کم ازکم قوم پرستی کے معاملے میں ایک بے نیاز اور اعلی ظرف قومیت ہے، شاید وہ اسی لئے بچ گئے۔ معین اختر کے ذریعے پٹھانوں کی بار بار گد بنائی، پٹھانوں نے کچھ نہیں کہا، اُن کو معلوم تھا کہ یہ سب کچھ “انوار مقصودی” کی ذات کا حصہ ہے، سو خاموش رہے۔ ان میں بہت سے تو اُلٹا انجوائے کرتے تھے۔
پھر لُوز ٹاک شروع ہوا؛ اس پروگرام میں کم از کم دس بار انیس سو سینتالیس میں ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کا بُری طرح مذاق اڑایا گیا، انہوں نے ہنسی مذاق میں مہاجرین پر کراچی میں گھروں اور دوکانوں پر قبضہ کرنے کا اجتماعی الزام لگایا (ویسے کسی حد تک ٹھیک ہی لگایا، لیکن سارے مہاجرین تو ایسے نہ تھے)، پھر بلوچوں اور سندھیوں کو نشانہ بنایا، دونوں جانب سے انتہائی شائستگی کے ساتھ ردعمل کا اظہار کیا گیا، اور اب پاکستان نیوی پر کچھ بول دیا تو ردعمل ہے کہ آج تک جاری ہے۔
اب سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ انور مقصود کا کیا ہوسکتا ہے؟ اس آدمی کو پاکستان نے پیدا کیا ہے، اور درست یا غلط، عوام نے انہیں ہمیشہ اہمیت دی ہے، عزت دی ہے، اور ان کے فن کو سراہا ہے، انجوائے کیا ہے۔ اگر انور مقصود مذاق اُڑانا چھوڑ دیں، تو ملک میں اینٹر ٹینمنٹ کا منظر نامہ پھیکا پڑسکتا ہے۔ اب کہیں کہیں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، تو عوام کا فرض ہے برداشت کرنا، نظر انداز کرنا!
انور مقصود کو اُٹھانے یا بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، بلاوجہ کی زحمت ہے، مجھے یقین ہے کہ اُن کو اُٹھانے کا کام صرف وہی آدمی دیانت داری سے کرسکتا ہے، جس میں مذاق سمجھنے کی ایک فی صد بھی صلاحیت نہ ہو؛ اور میں نے پنجابیوں کو ان کے مزاح پر کرسی اور قالینوں پر لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا ہے۔ تو پھر نیوی کہیں اور سے تھوڑی آئی ہے۔