پاکستان میں جدید اردو صحافت کے امام جناب ضیا شاہد بھی چلے گئے…..ایک اور "روشنی” بجھ گئی…..!!!10اپریل کی شام ،نیک نام اخبار نویس برادرم میم سین بٹ لاہور پریس کلب کے صحن میں ملے تو میں نے خبریں کے بانی ایڈیٹر انچیف کی صحت بارے پوچھتے ہوئے استفسار کیا آپ نے ضیا صاحب کا کالم پڑھا؟؟لگتا ہے انہوں نے خبریں میڈیا گروپ کی ذمہ داریاں جناب امتنان شاہد کو سوپنتے ہوئے مستقبل کے لیے گائیڈ لائینز بھی دے دی ہیں…..اگلے دن میں نے وہی کالم سنئیر صحافی اور ایڈیٹر جناب سہیل اشرف کو واٹس ایپ کرتے ہوئے کہا کہ ضیا صاحب نے پرنٹ میڈیا کے لیے بڑی ہی کارآمد تجاویز دی ہیں……….انہوں نے بھی ان کی پروفیشنل ازم کو سراہا…….
ضیا شاہد کبھی سر شام خبریں کے تمام شعبوں کی” مشترکہ میٹنگ” لیا کرتے…….وہ تمام اخبارات کی ایک ایک خبر پڑھ کر اپنے اخبار اور سٹاف کا "محاسبہ” کرتے…..یہ میٹنگ کم "لیکچر” زیادہ ہوتا تھا……….مجھے ضیا صاحب کا آخری کالم” تحریری لیکچر” بھی لگا ،معذرت نامہ اور وصیت نامہ بھی……انہوں نے زندگی میں ہی اللہ اور بندوں سے تحریری معافی مانگ کر اپنی منزل آسان کرلی:77سال کی عمر میں بھی مجھے بالعموم استاد سمجھا جاتا ہے اور یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے بھرم رکھا ہوا ہے….حقوق العباد پورے کرنے کی کوشش کی….حقوق اللہ میں کچھ غلطیاں کوتاہیاں ہوئی ہیں لیکن امید ہے کہ شاید کچھ بھلے کام بھی ہوئے ہوں…اللہ سے زندگی بھر کے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں….پانچ وقت نماز اور ہر نماز کے ساتھ ایک قضا بھی پڑھتا ہوں…..زندگی میں جس کسی سے کوئی جھگڑا یا ناراضگی ہوئی، ان سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں…..اللہ سے دعا ہے کہ میری غلطیاں معاف فرمائے……
ضیا صاحب جاتے جاتے پرنٹ میڈیا کے بحران کی نشاندہی اور حل کا فارمولہ بھی دے گئے:اخباری صنعت کے بہت زیادہ مسائل ہیں…اس میں حکومت کے علاوہ ہم خود بھی قصور وار ہیں…پرنٹ میڈیا کے دو حصے ہیں….ایک پیشہ ور اخباری ادارے اور دوسرے پراپرٹی اور میڈیسن والے لوگ جو ٹیکس بچانے اور تعلقات بنانے کے لیے اخبار نکالتے ہیں….ان اداروں کی کوئی پالیسی ہوتی ہے نہ مقصد…..یہی وجہ ہے کہ صحافت کا معیار گرتا جا رہا ہے…..اخباروں میں چند ایک چیزوں کے سوا پڑھنے کو کچھ نہیں ہوتا….ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر پیشہ ور افراد کو آزادی صحافت کے نام پر اخبار یا رسالے کی اجازت نہ دی جائے…ادارے ہونے چاہئیں،ریڈر شپ ہونی چاہئیے…..
اپنے صاحبزادے کے لیے” نیک تمنائوں "کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:امتنان شاہد اچھا ایڈیٹر ثابت ہوا…..ابتدائی زندگی میں طبیعت میں کچھ تیزی تھی….اب عمر 42سال ہو چکی ہے….وہ اخبار کے ساتھ ایک چینل بھی چلا رہا ہے….انہیں اخبار کے ہر شعبے سے مکمل واقفیت ہے….جناب امتنان صاحب اور ان کی ٹیم کے لیے بہت دعائیں….اللہ ان کے وسائل میں اضافہ کرے….ایک انقلاب کی ضرورت ہے جو میری عمر کے لوگ تو لا نہیں سکتے…..امتنان آپ کے ذمے یہ چیلنج ہے…..اللہ آپ کو اس چیلنج میں کامیاب کرے….بڑے اداروں کی طرح اب صرف ضروری کام ہی دفترمیں ہونے چاہئیں…سٹاف کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے شناسائی لازمی ہونی چاہئیے…اخبار میں ہر صبح وہ لیڈ یا سپر لیڈ نہ چھاپی جائے جو گذشتہ رات ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چل رہی ہو……
ضیا شاہد کا آخری سبق آموز کالم پڑھ کر چودہ پندرہ سال پہلے خبریں میں گذرے پانچ چھ سال یاد آگئے……..2003میں خبریں جوائن کیے چند روز ہی ہوئے کہ ایک شام جوائنٹ ایڈیٹر جناب عظیم نذیر صاحب نے کہا کہ کراچی سے نیا اخبار شروع ہونے جا رہا ہے….وہاں کچھ لوگ” پیشہ وارانہ رقابت” کے باعث مسائل کھڑے کر رہے ہیں….آپ شام کا اخبار کرتے آئے ہیں….نیوز روم کے لیے آپ چلے جائیں…اسی رات بذریعہ ہوائی جہاز ایک دو بجے ادھر پہنچ کر شہر قائد کو پہلا سلام کیا……..بڑے ہی وضع دار ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب شبیر چودھری،جناب خالد چودھری اور جناب رزاق شاہین سے پہلی ملاقات روشنیوں کے شہر میں ہی ہوئی……. کراچی کے صحافی برادرم نعیم عباسی، میاں طارق جاوید، آصف رانا،تابان ظفر اور مدثر رانا بھی ادھر ہی دوست بنے…..خیر نیا اخبار نئے انداز میں نکلا اور تصویر کے بغیر ہی چھا گیا……..اتنا بکا کہ ایک بڑی دینی جماعت کے سربراہ کے قتل والے تین مرتبہ چھاپنا پڑا……اخبار کی اشاعت کے ایک ہفتے بعد ہماری واپسی ہو گئی……..کچھ ہی دن گذرے کہ پھر اسی طرح ایمرجنسی جانا پڑا…..اس روز میں اور جناب شمیم صدیقی صبح کی فلائٹ پر کراچی پہنچے….اب کی بار وزٹ ذرا طویل ہوگیا……خالد چودھری کی لاہور واپسی پر میں بھی اڑان کے چکر میں تھا……ایک دن صبح سویرے شبیر چودھری صاحب کا فون آیا اور کہا کہ ضیا صاحب سے بات کریں…..وہ بولے خالد چودھری صاحب بھی چلے گئے آپ بھی جانا چاہتے ہیں…..استعفی دے دو اور فون بند کر دیا……میں پہلے ہی تیار بیٹھا تھا…..جھٹ سے استعفی لکھا اور لاہور بھجوادیا…..جنرل مینجر کاشف نے بھی دیر نہ لگائی اور قبولیت کا "سندیسہ "بھیج دیا……میاں طارق کے ساتھ کمرے میں واپسی کی پلاننگ ہورہی تھی کہ جناب امتنان شاہد کا بلاوا آگیا……دفتر گیا تو فون پر پوچھا استعفی کیوں دیا؟؟؟؟میں نے کہا چیف صاحب کا حکم تھا…..کہنے لگے کوئی استعفی نہیں….آپ نے واپس آنا ہے تو آجائیں……اسی دوران اطہر عارف صاحب” افسر اعلی” بن کر آگئے….میں خوش ہوا کہ چلو اب کچھ ریلیف ملے گا مگر میری یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی……..ہوا یوں کہ ایک رات جناب اطہر عارف نے اپنے” اختیارات” استعمال کرتے ہوئے نیا اخبار کے "نیوز ایڈیٹر بھائی” کو رات کے پچھلے پہر ” معطل "کر دیا … وہ "نیم خوابی "کی حالت میں نیوز روم میں آگئے اور "زبانی احکامات” سے تھرتھلی مچادی…ان کے اس” ایکشن "پر رات کے آخری پہر دفتر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی….صبح ہوتے ہی چیف صاحب نے انہیں پہلی دستیاب فلائٹ پر لاہور بلا لیا…..کراچی ائیرپورٹ پر نا جانے انہیں کیا سوجھی کہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خالد چودھری صاحب نے آپ کو اسی ہوائی اڈے پر
—— you are my son—-
کہا تھا تو میں کہتا ہوں
———-you are my grandson ———
اور گلے ملتے ہوئے ڈیپارچر لائونج کی طرف چل دیے….
کراچی کے وہ نیوز ایڈیٹر بھائی بھی ناقابل فراموش ہیں……..پہلی تعارفی نشست میں کراچی سے اخبار کی کامیابی کا راز پوچھا تو” فی البدیہہ” من پسند خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا ادھر تو "بھائی "کی تصویر بکتی ہے…..لیڈ کے دائیں یا بائیں طرف فوٹو لگائو اور جتنا مرضی اخبار بیچ لو…….”نیوز ایڈیٹر بھائی”نے” حالات "دیکھ کر تصویر کی گردان تو کم کر دی مگر بات بات پر” یہ کراچی اسٹائل ہے "کی رٹ لگا کر اپنا بوجھ ہلکا کر لیتے….وہ” الف” کا ڈنڈا پکڑے رہتے اور جہاں کہیں اس کی خلاف ورزی ہوتی سب ایڈیٹرز کی ایسی تیسی پھیر دیتے کہ یہ پنجاب نہیں کراچی ہے……موصوف اپنی ہر غلطی "یہ کراچی اسٹائل ہے”کے "تکیہ کلام "کے” تکیے” نیچے چھپانے کے ماہر تھے……..میں نے عظیم نذیر کو لکھ بھیجا کہ ان حالات میں کیا کرنا ہے…..انہوں نے جواب دیا بس "دیکھتے "جائیں……جناب خالد چودھری اور اطہر عارف صاحب کے بعد کوئی اڑھائی دو مہینے بعد ہماری بھی واپسی ہوئی تو ہم نے "نیوز ایڈیٹر بھائی "سے” الوداعی معانقہ” کرتے ہوئے سرگوشی کی کہ حضور غلطی کوتاہی کی معافی….ہم نے آپ کے "بھائی” کی تصویر نہ بیچ کر آپ کے جذبات” مجروح” کیے لیکن سچی بات ہے کہ "بھائی” ہوں یا کوئی اور،کسی کی تصویر سدا تو نہیں بکتی……کراچی سے خبریں سکھر کی لانچنگ کے لیے پہنچے تو اطہر عارف صاحب وہاں بھی "رونق افروز "تھے…….امتیاز گھمن اور زمان باجوہ سے بھی ادھر ہی تعارف ہوا…..رمضان کا مہینہ تھا…. میاں مشتاق نے ایک دن "آلو مچھلی” پکا لی جس پر لالہ نور خیال کئی دن اس بیچارے کا مذاق اڑاتے رہے …..اطہرصاحب سحری کے بعد ناشتہ اور پھر شام کو بڑے اہتمام سے افطاری کرتے….سکھر سے لاہور واپسی ہوئی تو کراچی ڈیسک پر احسن ظہیر کی معاونت کا حکم ملا……اس زمانے میں کراچی سٹیشن اپنی ہنگامہ خیز خبروں کی وجہ سے بڑا حساس ہوا کرتاتھا………..ساتھ ہی سکھر ڈیسک پر اطہر عارف اور حنیف عاصم بیٹھا کرتے…….ان دنوں خبریں سکھر میں” شائستہ عالمانی لو میرج” ایشو چل رہا تھا……..ایک سٹوری پر طلبی ہو گئی…..ضیا صاحب نے مجھے دیکھا تو انہیں کراچی کا استعفی یاد آگیا…..کہنے لگے یہ خالد چودھری کا "شیکسپئیر "ہے….ان کو بہت ادبی خط لکھتا ہے…..صحافت کی الف ب بھی نہیں آتی….پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے اپنے آپ کو….میں نے جان کی امان پاتے ہوئے کہا سر جس خبر پر آپ میری گرفت کر رہے ہیں میرا اس سے تعلق ہی نہیں…..یہ ایشو اطہر صاحب دیکھ رہے ہیں……یہ سن کر کہنے لگے اطہر صاحب کی تو بات ہی نہ کریں….آپ مجھے بیٹوں کی طرح عزیز ہیں …..کوئی مسئلہ ہو تو مجھ سے ڈائریکٹ بات کر لیا کرو………..ایک اور یاد گار دلچسپ واقعہ….سندھ میں علی محمد مہر کی وزارت اعلی تھی…….انہوں نے سکھر جانا تھا…..احسن ظہیر صاحب نے ایک سب ایڈیٹر سے کہا کہ کراچی کے اخبار میں سکھر جائیں گے اور سکھر ایڈیشن میں سکھر آئینگے والی خبر لگا دینا…..اس "درویش” نے صفحہ تین پر دونوں ہی "ٹھوک” دیں….تب خبریں میں زبان کی صحت،مسنگ اور ڈبلنگ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا تھا……اگلی شام چیف صاحب نیچے نیوز روم میں کراچی ڈیسک پر ہی آگئے……..پوچھا یہ "آئینگے جائینگے "کونسی جرنلزم ہے؟؟؟میں ،احسن ظہیر اور اطہر عارف صاحب کلاس بھگت رہے تھے…..وہ بار بار پوچھ رہے تھے کہ یہ کس کی غلطی ہے…..ہم چھپانے کی کوشش کررہے تھے کہ کہیں متعلقہ سب ایڈیٹر کی نوکری نہ چلی جائے کہ اچانک موصوف نے انگلی لہرائی اورسکوت توڑتے ہوئے کہا
——-sir!its mine —-
ضیا صاحب بولے تو پھر تم ادھر کیا کر رہے ہو اور اٹھ کر چلے گئے…….یہ وہی صاحب جنہوں نے افغان وزیر خارجہ ” عبداللہ عبداللہ "کےنام پر شور مچادیا کہ عبداللہ دو مرتبہ کیوں لکھا گیا ہے؟؟؟؟ضیا شاہد کا کمال دیکھیے کہ ایسے لوگ بھی” صحافی "بنا دیے…..
کراچی پریس سیکشن میں نیا اخبار چھپ رہا تھا …ضیا صاحب نے قومی سلامتی سے متتعلق منفی رپورٹ دیکھی تو مشین رکوادی….خبر تبدیل کراکے نئے سرے سے اخبار پرنٹنگ کرایا……….اپنی بات کروں تو خبریں میں سخت ماحول کے باوجود بہت اچھا وقت گذرا…… اچھے رفقائے کار ملے….زندگی میں سب سے زیادہ قہقہے ادھر ہی بکھیرے……ضیا صاحب دل کے اچھے تھے تو امتنان صاحب اور عظیم نذیر صاحب کو ہمیشہ مہربان پایا …میں اور ڈاکٹر آصف شاہد اوصاف چلے گئے تو امتنان صاحب نے واپس بلا لیا…..2006میں عمرے پر گیا تو مبارکباد کے ساتھ ساتھ چھٹی بھی دی اور تنخواہ بھی…….پانچ سال میں جناب ضیا شاہد اور امتنان صاحب نے کبھی کوئی نازیبازلفظ نہیں بولا…زیادہ سے زیادہ سے کہا کہ استفعی دے دو…..خبریں سے ایک ایک تنخواہ ملی…..باقی کسی بھی ادارے میں کام کرتے کچھ تلخ و شیریں باتیں "پارٹ آف پروفیشن” ہیں…..ضیا صاحب سے زندگی میں کوئی گلہ تھا نہ اب کوئی شکوہ ہے…..جانے والوں کا اچھے الفاظ میں تذکرہ بھی ایصال ثواب ہے….ضیا صاحب کے جنازے پر بھی دعائے مغفرت کی ….اب بھی دل سے دعا ہے اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے……!!!!