یوں تو ہمارے مسائل ان گنت ہیں، مگر بنیادی مسئلہ جہالت ہے.ہمارے ہاں جہالت کا مطلب علم کا فقدان سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقی معنوں میں جہالت ایک ہٹ دھرمی کا نام ہے۔ جو کہ خو دغرضی،مفاد پرستی،ناانصافی اور انانیت جیسے رویوں کو جنم دیتی ہے۔یہ رویے عدل و انصاف کی ضد ہیں چونکہ طاقتور افراد میں پائے جاتے ہیں، انھی سے معاشرے میں آگے پھیلتے ہیں اور جہالت عام ہو جاتی ہے۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عدل و انصاف کا مطلب انصاف ہی لیا جاتا ہے، جبکہ انصاف کچھ اور چیز ہے، عدل کچھ اور۔انصاف کا مطلب: برابر تقسیم کرنا اورغیر جانبداری سے فیصلہ کرنا، جبکہ عدل درحقیقت اعتدال و استقامت کو کہتے ہیں یعنی حق کی طرف مائل ہونا اور حق کا تسلیم کیا جانا یعنی کسی بھی شے کو اس کے اصل مقام پر رکھنا جو کہ گھر اور ریاستی سربرراہ اور عدالت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔گویا جہاں عدل ہوگا وہاں جہالت نہیں ہوگی۔ چونکہ عدل کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے جو خاندان کے افراد سے ہوتا ہوا تعلیم و تدریس، انتظامیہ، مقننہ، حکومت اور حکمرانوں کے بعد آخر میں عدلیہ تک اس وقت پہنچتا ہے، جب اس کا اطلاق راستے میں کسی ایک یا تمام جگہوں پر نہ ہو سکے۔ پھر عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ کس شے کا درست مقام کیا ہے، جہاں اس کو ہونا چاہیے اور اگر وہ مقام نہیں ملا یا چھین لیا گیا ہے تو چھیننے والے یا زیادتی کرنے والے کو کیا سزا ملنی چاہیے کہ دوسرے سبق حاصل کریں اور اس فعل سے اجتناب کریں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں کئی سال سے عدل و انصاف دینے والے بھی مختلف پارٹیوں اور گروپوں میں شامل ہو چکے ہیں اور جو لوگ صحیح فیصلے کرنے کے خواہش مند ہیں یا تھے، ان کو طاقت سے محروم کر دیا جاتا ہے جس سے ثابت ہوچکا ہے کہ طاقتوروں کو کمزوروں کے حقوق سے کوئی مطلب نہیں بس اپنے حقوق یاد رہتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے وہ عدل و انصاف کی دھجیاں سر عام اڑاتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے بلکہ سوال کرنے والوں کو الٹا ڈراتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بہت سی خرابیوں میں اس بری طرح جکڑا ہواہے کہ اب اس کو ٹھیک کرنے کے لئے بے رحم اور سخت عدل و انصاف کے رائج ہونے کی ضرورت ہے وہ بنیادی حقوق کی یادگاریں دیکھ لیں جن پر کروڑوں بہا دیے گئے بس ایسا ہی مقبرہ عدل و انصاف کا بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی تعلیمات اور باتوں کو بھلا دیا اور سمجھا ہم نئے زمانے میں داخل ہوگئے ہیں اور سب کچھ بدل گیا ہے جبکہ ستر دہائیوں کے بعد ثابت کر دیا گیا کہ کچھ نہیں بدلا بس طاقتوروں کی شکلیں بدل گئیں کیونکہ ہم نے اپنی آزادی چند طاقتور خاندانوں کو سونپ دی۔یہ چھبیس کروڑ کی کاہلی ہے کہ سیاسی و آئینی ہر موقع پر ہارس ٹریڈنگ بلکہ ایک دوسرے کا اغوا تک ہوتا ہے اور سب کچھ سر عام اور ڈھٹائی سے ہوتا ہے لیکن کوئی آواز بھی نہیں اٹھاتا کیونکہ مفاد پرستوں کی آوازیں اس قدر اونچی اور ظالمانہ ہیں جن کی گونج میں حق بولنے والوں کی آواز دب جاتی ہے ویسے بھی مٹھی بھر افراد ایسے افراد سے کیا لڑیں گے جنھیں خوف آخرت نہیں رہا یقینا ان کا انجام بھی جلد ہوگا لیکن عوام کو بھی جاگنا ہوگا کیونکہ اب حال اس باز سے برا ہوچکا جس کی چونچ،پر اور ناخن سب کٹ گئے تھے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک بادشاہ نے نہایت خوبصورت باز پال رکھا تھا جس سے وہ شکار کا کام لیتا تھا۔چونکہ ہر وقت زنجیروں میں جکڑ کر رکھتا تھا اس آزاد اڑان سے ناواقف تھا لیکن آزاد اڑنے والوں کو حسرت سے دیکھتااور سوچتا مجھے کسی کے اشاروں پر چلنا پڑتا ہے جبکہ میرے دوست آزاد اڑتے ہیں پھر ایک دن وہ گم ہوگیا۔ تلاش کے باوجود بھی نہ ملا۔ بادشاہ نے ملک بھر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا۔ باز کی تلاش شروع ہوگئی۔اُدھر باز اڑ کر ایک بُڑھیا کی جھونپڑی میں چلا گیا۔ بُڑھیا ناسمجھ اور جاہل تھی۔ اس نے باز کو پنجرے میں بند کر لیا اور کہا، تو کِن ناسمجھ لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے؟ جنھوں نے تیرے پروں کی تراش خراش کی، نہ تیرے ناخن کاٹے اور نہ تیری ٹیڑھی چونچ کو سیدھا کیا۔ سو اس نے باز کی چونچ، پروں اور ناخن کو کاٹ دیا اور اسے بالکل بے کار کردیا۔ بادشاہ کے کارندے باز کو ڈھونڈتے ہوئے بُڑھیا کی جھونپڑی تک پہنچے اور باز کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرکے سارا ماجرا بیان کیا۔بادشاہ باز سے کہنے لگا تیرا یہی علاج تھا جو بُڑھیا نے کردیا۔ تو نے اتنی اچھی زندگی کی قدر نہ کی اور مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔تو باز نے کہا: بادشا ہ سلامت! میں نے واقعی قدر نہیں کی، اس عقل و فہم اور طاقت کی، جو میرے رب نے مجھے عطا کی تھی،میں نے اپنی طاقت اور عقل گروی رکھ کر غلامی خرید لی اور سمجھا ہی نہیں کہ مجھے دوسروں کے اشاروں پر نہیں چلنا بلکہ ایسا راستہ تلاش کرنا ہے جو تابناک منزلوں کا پتہ دے ۔۔یہی پیغام علامہ اقبال نے سوئی قوم کو دیا تھا کہ:”وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں،اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم و شاہبازی“۔۔افسوس! ہم نے امداد و قرضوں ک عوض سمجھ بوجھ گروی رکھ دی اور آزادی چند خاندانوں کی اطاعت میں گنوا دی۔ہم بھارتی فوج کے غیر آئینی تسلط کے خلاف کشمیریوں کی جدو جہد آزادی میں ان کا ساتھ کیسے دیں گے۔ ہم فلسطینیوں کی غم و اندوہ میں ڈوبی سسکیوں اور چیخوں اور کٹی پھٹی لاشوں کا درد کیسے محسوس کریں گے،ہم امت مسلمہ کا نوحہ کیسے سنیں گے۔۔لیکن سیاہ تاریخی ابواب چیختے رہیں گے اور آئینہ دکھاتے رہیں گے جیسے جسٹس منصور شاہ کا خط آئینہ بن چکا ہے۔
مجھے کہنے دیجیے کہ گذشتہ چار برس میں جو کچھ ہوا ہے اس کے نتائج صدیوں تک بھگتنا ہونگے۔ اب عدل و انصاف کے داعیوں کو سیاسی بازیگروں کے اشاروں پر چلنا ہوگا جو خود ہر تین سال بعد کٹہروں میں کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ ملکی و قومی سلامتی کے اداروں کے مطابق وہ بھلا دیتے ہیں کہ ہمیں بھی جوابدہ ہونا پڑے گا۔ یعنی حکام بالا نے خود کو محفوظ کر لیا اور عوام غیر محفوظ ہوگئے کیونکہ اگر کوئی طاقتور دولت اور طاقت کے نشے میں عام آدمی کو کچل دے گا تو مٹی ڈالنے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے۔۔اس کے علاوہبر سر اقتدا اور ان کے ہمنوا جس طرح عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں انھوں نے نظام عدل کو ہی مشکوک بنا ڈالا ہے تو ا س کے بعد قومی و ملکی سلامتی کے اداروں کا وقار بھی داؤ پر لگ چکا ہے۔یقینا یہ لوگ تو ہر قسم کے قانون سے مبرا ہے لیکن ان کی دیکھا دیکھی عام آدمی یہ رویہ اپنائے تومعاشرتی منظر نامہ کیا ہوگا اور قصور وار عام آدمی کیوں ٹھہرے گا؟اس لیے کرتا دھرتا کو چاہیے کہ وہ تمام ہٹ دھرمیاں اور نادانیاں جن کی وجہ سے ملک و قوم کا وقار داؤ پر لگ چکا ہے انھیں درست کریں ورنہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔