میں میرگل خان نصیر لائبریری میں موجود تھاکہ موبائل پرکال آئی۔ دوسری جانب سے ایک لڑکی کی آواز آئی دستگیرصاحب آپ اس وقت کہاں ہیں..؟؟میں نے کہا: جی!! میں گل خان نصیر لائبریری میں ہوں۔ اس نے فوراً کہا اوکے سرمیں لائبریری آرہی ہوں۔۔
اتفاق سے کامریڈ حمید، نذیربلوچ اور کچھ دوسرے دوست بھی لائبریری میں موجود تھے۔۔تھوڑی دیر بعد روایتی پردے کے ساتھ ایک لڑکی آئی اس کے ساتھ اسکا چھوٹا بھانجا بھی تھا۔۔سلام دعا اور بلوچی احوال کے بعد اس نے کہا پروفیسرصاحب میری کہانی سنیں۔۔ہم سب متوجہ ہوگئے۔۔اُس نے دھیمی آواز میں کہنا شروع کیا میرا نام فرح یوسف ہے۔ میں 1999 میں کلی غریب آباد نوشکی میں پیدا ہوئی۔ والدصاحب بازار میں ٹیلر ماسٹر تھے۔ میں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول غریب آبادسے حاصل کی اور ہمیشہ فرسٹ آئی۔۔ بی ایس سی تک گرلز کالج نوشکی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ویمن یونیورسٹی سے انگریزی میں بی-ایس کرنے کے بعد ایم فل انگلش لینگویج میں لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈمیرین سائنس اوتھل سے کی۔ ابھی پی ایچ ڈی کی تیاری کررہی ہوں۔ میں نے انگریزی میں دوکتابیں بھی لکھی ہیں۔ابھی عارضی طور پر ایس-بی-کے نوشکی میں انگلش پڑھاتی ہوں۔۔میں اسکول میں پڑھ رہی تھی کہ میرے پیارے بھائی جمعہ خان ایک حادثے میں شہید ہوگئے۔
فرح کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ کچھ دیر چپ رہی۔۔
پھرکہنے لگی یہ ایک عظیم سانحہ تھا مگر میں نے چھوٹی عمرم یں والد کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اسکا بیٹا دنیا میں نہیں۔میں نے آٹھ سال کی عمر میں اپنے بابا کی ٹیلرنگ کی دوکان میں کام کرنا شروع کیا۔ بارہ سال کی عمرمیں نے گھرمیں دوکان کھولی اور والد کے کندھوں کا بوجھ ہلکا کیا۔۔مجھے بچپن سے ہی تعلیم کے ساتھ کھیلوں کا جنون حدتک شوق تھا۔ میری کوشش تھی کہ کھیل میں بھی اپنے شہر اور وطن کا نام روشن کروں اور دنیا کو دکھاؤں کہ ہم بلوچ اور بلوچستانی کسی میدان میں پیچھے نہیں۔ مارشل آرٹس ، کرکٹ ، فٹ بال ، ہائی جمپ ، باسکٹ بال ، بیڈمنٹن سبھی میں خوب محنت کی۔۔
2010 میں آل بلوچستان جوڈو کراٹے میں گولڈ میڈل حاصل کی۔ 2016 میں بلوچستان اسپورٹس فیسٹیول میں دوبارہ گولڈمیڈل حاصل کی۔ 2016 ہی میں آل بلوچستان وومن بیڈمنٹن میں بھی گولڈمیڈل اپنے نام کیا۔ 2023 میں، میں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے کوچنگ کی تربیت لی۔ 2023 میں فٹبال کی بین الاقوامی تنظیم FIFA کے زیر اہتمام لاہور میں ریفری کورس کے لئے سلیکٹ ہوگئی۔مجھے یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ میں بلوچستان کی پہلی لڑکی ہوں جسے فیفا نے 2024 میں ریفری کے لئے منتخب کیا۔ میں بلوچستان کی واحد لڑکی ہوں، جو پاکستان سپورٹس بورڈ میں کراٹے ، ٹیبل ٹینس اور بیڈمنٹن کی کوچنگ کی۔۔سر!! آپ سمیت کسی کو یقین شاید ہی آئے کہ میں نے اب تک مختلف صوبائی اور قومی کھیلوں میں پچانوّے گولڈ اور دیگر میڈلز اور سینتالیس ٹرافیاں اور بیشمار سرٹیفکیٹس حاصل کی ہیں۔ اور یہ اعزاز شاید پورے ملک میں ایک مجھے ملا ہے۔مگر۔۔۔
وہ تھوڑی دیر چُپ ہوگئی۔۔لائبریری میں بیٹھے ہم سب حیرت سے اسکی بے مثال کامیابی کی باتیں سن رہے تھے۔
ایک غریب لڑکی..؟؟
ایم فل انگریزی کی ڈگری..؟؟
انگریزی میں دوکتابوں کی مصنفہ..؟؟
فیفا انٹرنیشنل کے لئے بلوچستان کی واحد ریفری لڑکی..؟؟
گولڈمیڈلز سمیت سینکڑوں ایوارڈز..؟؟
یقین جانیں میں دل میں بڑا شرمندہ ہو رہا تھا کہ فرح کے گھرا ور میرے گھر کا فاصلہ صرف دومنٹ کاہ ے اور مجھے اسکی حیرت انگیز اور تاریخی کارناموں کا علم ہی نہیں۔ ہم سب سوچوں میں گم تھے کہ فرح کہنے لگی۔۔بلوچستان کی تاریخ میں اتنی کامیابیوں کے باوجود کسی نے میرے بارے میں ایک لفظ تک نہیں لکھا۔کسی اخبار اور ٹی وی چینل نے میرا ایک انٹرویو بھی نہیں لیا۔کسی بھی سرکاری آفیسر اور ادارے نے میری حوصلہ افزائی تک نہیں کی۔ مجھے کچھ بھی نہیں چاہئیے بس میری خواہش تھی کہ میرے لوگ میرے سرپر ہاتھ رکھ کر کہیں !! بیٹی شاباش۔۔مگرکسی نے مجھے شاباشی تک نہیں دی۔ میں آج آپ کے پاس اس لئے آئی ہوں کہ میں شدید مایوس ہوں۔ آپ لکھیں کہ آج کے بعد کسی بھی کھیل میں حصہ نہیں لونگی۔۔
فرح کا لہجہ نہایت تلخ اور مایوس کُن تھا۔۔میں نے پوچھا۔کیوں..؟؟
اتنی کامیابیوں کے بعدآپ اتنا مایوس کیوں ہیں..؟؟اس نے فوراً جواب دیا۔۔پروفیسرصاحب میرا خیال تھا کہ میں اپنے شہر اور وطن کا نام روشن کرونگی، میں پندرہ سالوں سے مسلسل کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن جب میں بلوچستان سے باہر جاتی ہوں سب مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ فرح تم اپنا وقت ضائع کررہی ہو۔کاش تم بلوچ اوربلوچستانی نہ ہوتی تواس وقت سارا میڈیا چیخ چیخ کر تمہیں بریکنگ نیوز بناتا۔ فرح تم نے سینکڑوں میڈلزکے ساتھ فیفا کی بلوچستان سے واحد ریفری سلیکٹ ہوئی۔کئی کھیلوں میں گولڈ میڈلز کے ساتھ کوچنگ بھی کی تم بلوچ اوربلوچستانی نہ ہوتی تو عوامی اور سرکاری عہدیدار تمہارے گھر کا طواف کرتے۔فرح آج تک کسی اخبار میں تمہارا ایک انٹرویو بھی نہیں چھپا۔ فرح اب گھر میں بیٹھو، تمہاری ٹیلنٹ کی قدرکوئی نہیں کریگا۔ تم انگریزی میں ایم فل کرچکی ہو اور انگریزی میں دوکتابیں بھی لکھ چکی ہومگران سب کے باوجود ایس-بی-کے میں عارضی لیکچرار ہو۔۔تمہارے صوبے یا ملک کی بجائے تمہارے شہرکے لوگ بھی تمہیں نہیں جانتے وہ دوبارہ چند لمحے خاموش ہوئی، پھر کہنے لگی: بلوچستان سے باہر کے کھلاڑی مجھے طعنے دیتے ہیں۔ مجھ پرہنستے ہیں۔ اب یہ طعنے مجھ سے مزید برداشت نہیں ہوتے۔فرح نہایت مایوسی کی حالت میں نہایت تلخ لہجے میں نہ جانے کتنی دردناک باتیں کرتی رہی اور ہم شرم اور حیرت سے سنتے رہے کہ اتنی عظیم بیٹی کے ساتھ ہم نے کتناظلم کیا ہے۔۔
اپنی بات ختم کرکے وہ اٹھی اورکہا اچھا سر!! خدا حافظ۔۔
اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔۔
وہ اتناکہہ کر نکل گئی کہ
بلوچ اوربلوچستانی ۔۔۔۔۔!!؟؟!!فرح کے جانے کے بعد ہم سب شرمندہ اور گم سُم رہے۔۔
ایک ٹیلر ماسٹر کی بیٹی نے تاریخ رقم کی مگر ہم اور ہمارے حکمران کتنے بے حس ہیں۔کتنی محنت سے اس نے وطن کانام روشن کیا..؟؟بلوچ اور بلوچستان کی عظیم بیٹی !!ہاتھ جوڑکر آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مایوس مت ہوں۔۔
ہے کوئی جو ایم-پی-اے حاجی غلام دستگیر بادینی اورایم-این-اے حاجی محمد عثمان بادینی اور ڈپٹی کمشنر نوشکی کو یہ پیغام دینے والا کہ تمہارے شہر کی ایک عظیم بیٹی تم سے کچھ نہیں چاہتی، صرف اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسکی حوصلہ افزائی کریں۔۔؟؟؟ہے کوئی جو وزیراعلی بلوچستان اور حکومتی عہدیداروں اور اربوں روپے ہڑپ کرنے والےمحکمہ کھیل کویہ پیغام دے کہ اس عظیم بیٹی کو بیشک ارشد ندیم کی طرح کروڑوں روپے نہ دے مگر اسکی حوصلہ افزائی کے لئے دو لفظ اپنے منہ سے نکالے۔۔؟؟؟ہے کوئی ایسا صحافی جو فرح کی کامیابیوں کی کہانی لوگوں تک پہنچائے۔۔؟؟ہے کوئی ایسا چینل جو فرح کا انٹرویو کرکے دنیا کو دکھائے کہ اس بیٹی نے کتنے اعزازات حاصل کیے ہیں۔۔؟؟؟ہے کوئی ایسا ادارہ جو فرح کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب منعقد کرکے اس عظیم بیٹی کی حوصلہ افزائی کرے اور کہے شاباش فرح شاباش۔۔؟؟؟
یاد رکھیں !!
اگربلوچستان کی اس عظیم بیٹی کی ہم سب نے قدر نہیں کی۔ اسکی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ اسکی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو صاف نہیں کیا تو آئندہ کوئی بھی بیٹی ایسی کامیابی اورمحنت کا سوچ بھی نہیں سکے گی۔ اور ہم سب اس عظیم بیٹی فرح کے مجرم ہونگے۔۔