کسی بھی ملک کی ترقی کو دیکھنے کے لیے جو پیمانہ ہے وہ جی ڈی پی گروتھ یا شرح نمو کی بہتری اور کمی سے اندازہ لگایا جاتا ہے۔ شرح نمو کو اگر معیشت کی بہتری کو جاننے کے لیے پیمانہ بنایا جائے گا پھر شرح نمو کی صرف شرح کو دیکھتے ہوئے ہم حتمی طور پر یہ کہنے کے قابل نہیں ہوتے کہ معیشت بہتر ہو گئی ہے اگر شرح نمو میں بہتری نظر آئے ۔
ہمارے ملک میں شرح نمو کا پیمانہ صحیح ہے ہی نہیں پھر کس طرح ہم شرح نمو پر معیشت کافیصلہ حقیقی معنوں میں اندازہ نہیں ہو سکتا ۔ شرح نمو تین اقسام ہیں ۔
۔ آبادی کے بڑھنے کی تعداد اور اسکے حوالے سے شرح نمو کی شرح
۔ روپے کی قدر کے اتار چڑھائو کے بعد روپے کی قدر کی کمی بیشی کے بعد شرح نمو کی شرح
۔ حقیقی معنوں میں شرح نمو
چونکہ شرح کو دیکھتے ہوئے ہی ترقی کی شرح کو دیکھا جاتا ہے اگر ہماری معیشت میں شرح نمو کی شرح یا بہتری کا تناسب اگر آبادی کی شرح کے اضافہ کے برابر ہوتی ہے پھر شرح نمو کی شرح میں اضافہ صفر ہی رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں ترقی کی شرح کو جب بھی دیکھا جاتا ہے وہ یکطرفہ ہی ہوتا ہے اگر ہمارے معاشی ماہرین آبادی کے تناسب کے حوالے سے شرح نمو کا تعین کریںگے پھر ان کو شرح کی ترقی ظاہر کرنے میں مایوسی ہی ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ اگرگزشتہ دس سالوں کا تناسب دیکھا جائے پھر ہمارے ملک کی آبادی میں اضافہ تقریباً 2 فیصدی بنتا ہے اگر ہماری شرح نمو دو فیصد پر رہتی ہے پھر شرح نمو میں حقیقی اضافہ صفر ہی رہتا ہے ۔ ہماری ملک میں شرح نمو میں آبادی کا شرح اضافہ ہمیشہ ہی شامل ہوتا ہے۔اسطرح ہم کبھی بھی حقیقی شرح نمو بتانے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں روپیہ کی قدر تنزلی کا ہی شکار رہتی ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں کو دیکھا جائے پھر کبھی بھی روپیہ کی قدر میں اضافہ نہیں دیکھا گیا اگر ہم 1972 میں روپے کے مقابلے ڈالر کی شرح دیکھتے ہیں پھر اسوقت 9.90 روپے ایک ڈالر ہوتا تھا اور آج دیکھتے ہیں پھر 168 روپے میں ایک ڈالر ملتا تھا۔
ہمارے ملک میں روپے کی قدر میں کمی کو بھی جمع کر دیا جاتا ہے اسطرح شرح نمو میں روپیہ کی قدر کا تناسب ایک اندازے کے مطابق نصف سے ایک فیصد شرح نمو میں شامل ہوتا ہے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں حقیقی شرح نمو کو ظاہر نہیں کیا جاتا۔
اب آخری شرح نمو کی قسم کی بات کرتے ہیں آخری شرح نمو جو کہ حقیقی شرح نموہوتی ہے اس میں نہ ہی آبادکی کے اضافی تناسب کو شامل کیا جاتا ہے اور ن ہی روپیہ کی قدر کی کمی کو شامل کیا جاتا ہے اور یہی حقیقی شرح نمو مانی جاتی ہے اور دنیا میں شرح نمو کو اسی طرح جانچا جاتا ہے ہمارے ملک میں یہ فارمولا نہیں اپنا یا جاتا اور اس طرح ہمیں حقیقی شرح نمو کا اندازہ ہوتا ہی نہیں ہے۔
شرح نمو کو معلوم کرنے کے لیے بہت سے عناصر کو شامل کر کے اس کے تناسب سے شرح نمو حاصل کی جاتی ہے۔
چونکہ شرح نمو سے ہی محاصل آمدنی کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اسلئے شرح نمو میں ان غیرپیداواری عناصر جو کہ درامد ہوتے ہیں اسکی شرح نمو میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے گزشتہ حکومت میں انہی عناصر کو شامل کیا گیا تھا جسکی وجہ سے گزشتہ حکومت میں شرح نمو زیادہ نظر آرہی ہے حالانکہ حقیقی معنوں میں ہماری شرح نمو اتنی تھی ہی نہیں
گزشتہ حکومت چونکہ نواز شریف PLM(N) کی تھی انہوں نے زیاد ہ تر درامدات غیر پیداواری سامان درامد کیا تھا جسکا استمعال غیر پیدواری عمل میں ہوتا تھا اور وہ اپنی جگہ ہی موجود رہنی تھی نہ اس سے کوئی Value Addition ہونا تھی نہ ہی پیداواری عمل کو کوئی خام مال تھا چونکہ درامدی بل میں شامل تھی جسکی وجہ سےCalculation GDP میں آگئی تھی اور GDP Growth بڑھ گئی تھی ۔ ان تمام درامدات کا مجموعہ GDP کا تقریباً 4 فیصدی تھا اسطرح مجموع GDP Growth میں سے 4 فیصدی نفی کی جائے پھر ایک اندازے کے مطابق GDP Growth دو فیصدی رہ جاتی ہے۔
گزشتہ حکومت نے اپنی کارگردگی کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے لیے غیر پیداواری درامدات کر کے GDP کو بڑھا ہے اسطرح اپنی حکومتی کارگردگی کو بہتر دکھایا ہے حالانکہ حقیقتا ایسا نہیں ہے۔
اگر شرح نمو 2 فیصدی بڑھتی ہے اسکا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہماری شرح نمو صفر ہی ہے اور اگرشرح نمو صفر رہتی ہے پھر ہماری شرح نمو حقیقی بنیادوں پر منفی 2 فیصدی گنی جائے گی۔
حقیقی شرح نمو کا تعین تمام عوامل کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے ہماری معاشی ماہرین حکومت چاہے کسی کو بھی وہ حقیقی شرح نمو کا تعین ہی نہیں کرتے چونکہ معاشی ماہرین حقیقی صورتحال واضح کریں گے پھر انکی کارگردگی نظر آجائے گی اسلیے ہمیشہ وہ ان امور سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ ان پر سوالات نہ اٹھیں۔
افراط زر کی شرح کا تعین کرنے کے لیے Consumer Price Index (CPI) اور Sensatine Price Index (SPI) کا سہارا لیا جاتا ہے جو کہ نا مناسب ہے ان اعشاریوں کا تعلق قوت خرید سے ہے افراط زر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
افراط زر کی شرح کا اعلان گزشتہ 10 سے 15 سال پہلے سے اسٹیٹ بینک جاری نہیں کر رہا ہے اس لیے CPI اور SPI کی بنیاد افراط زر کی شرح سے نہیں ہیں۔
حقیقی شرح نمو بڑھنے سے محاصل آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے بیروزگاری کم کرنے میں مدد ملتی ہے اور صنعتی پہیہ کی روانی میں بہتری آتی ہے۔
موجودہ حکومت نے تجارتی خسارہ کم کرنے کے چکر میں شرح نمو کو منفی اعشاریہ تک لے گئی جبکہ ہماری ملک میں حقیقی شرح نمو کا تعین ہی نہیں کیا جاتا صرف ٹرن اوور کے اضافہ کو شرح نمو کے تعین کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے ہر حکومت کو چاہیے کہ صحیح شرح نمو کا تعین کریں۔
موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ مالی سال 2019-20 کی حقیقی شرح نمو کا تعین کریں موجودہ حکومت کے پاس معاشی ماہرین کی بہترین ٹیم ہے جسکا دعویٰ موجودہ حکومت اپنے دوسالہ اقتدار میں بار بار دہراتی رہی ہے۔ ان معاشی ماہری کی پالیسی ہی کہ گزشتہ مالی سال کی شرح نمو 0.4 فیصدی ظاہر کر رہی ہے حالانکہ حقیقی شرح نمو کا تعین صحیح معنوں میں تمام اعشاریوں کی مدد سے تعین کریں جب ایک اندازے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں شرح نمو منفی 5 فیصدی نظر آرہی ہے یاد رہنا چاہیے کہ شرح نمو بڑھنے سے ہی محاصل آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے اور اسی کی مدد سے بیروزگاری میں کمی ممکن ہے اور ملک ترقی کی طرف رواں دواں نظر آئے گا۔
شرح نمو اگر صحیح ہوگی پھر بجٹ خسارہ کو کم کرنے میں مدد ملے گی آپ نے تجارتی خسارہ کو کم کرنے کے لیے جو اقدامات کئے اسی سے تجارتی خسارہ کم ضرور ہوگیا لیکن بجٹ خسارہ اسی تناسب سے بڑھ گیا۔
بجٹ خسارہ کو پورا کرنے کے لیے بینکوں سے طویل مدتی قرضے لیے گے اس کا براہ راست اثر روپے کی قدر پر آتا ہے کساددبازاری کی وجہ سے بھی اتنا اثر روپے کی قدر پر نہیں آیا چونکہ Covid-19 کی وجہ سے پوری دنیا کساد بازری کا شکار ہے اسلیئے آئندہ سال جو کہ موجودہ سال ہے اسمیں معاشی پالیسان اسطرح ترتیب دیں جس سے بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے ۔
اگر معاشی پالیسیاں صحیح ترتیب نہیں دی گئی جسکا خدشہ صاف نظر آرہا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان اور بیروزگاری کا سیلاب ہوگا اور عام آدمی کی زندگی مشکل ہو جائے گی۔
موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ اپنی معاشی ماہرین کی ٹیم کے صرف شرح نمو کو صحیح اعداد شمار حاصل کریں پھر وزیر اعظم کو صاف پتہ چل جائے گا کہ ان کی معاشی ماہرین کی ٹیم انہیں صحیح صورتحال سے آگاہ نہیں رکھ رہی ہے۔
صحیح معاشی پالیسیاں ہی کرنٹ اکائونٹ خسارہ (تجارتی خسارہ) اور بجٹ خسارہ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
ہماری ملک میں ان معاشی مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تمام عوامل موجود ہیں صرف اسے صحیح معنوں میں اس پر عملدرامد کی ضرورت ہے۔