پاکستان میں 7ستمبر 2024کو یوم ختم نبوت کی گولڈن جوبلی منائی گئی۔۔۔مینار پاکستان ختم نبوت زندہ کے نعروں سے گونج اٹھا۔۔۔۔۔وطن عزیز کی تاریخ میں 6ستمبر 1965 ناقابل فراموش ہے تو 7ستمبر 1974 بھی یادگار……….عساکر پاکستان نے "بھارتی ٹینکوں کے قبرستان” کہلانے والے "چونڈہ محاذ” پر خاص طور پر وطن کے دفاع کی بے مثال جنگ جیتی ……ادھر پارلیمنٹ کے فلور سے عقیدہ تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر 90 سال بعد بڑی کامیابی ملی……فوجی اور سیاسی فتح……..ایک طرف "جارح بھارت” کا "منہ کالا” ہوا….. دوسری جانب ختم نبوت کے منکرین "اوندھے منہ” گرے……پاک فوج عزت یاب ہوئی…..ارکان اسمبلی شرف یاب ٹھہرے ….. علمائے کرام بھی آخر سرخرو ہوئے….. بلا شبہ یوم دفاع اہم ہے مگر یوم تحفظ ختم نبوت اہم ترین ہے………عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا "کریڈٹ "وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے……عہد ساز اخبار نویس جناب عباس اطہر نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا:میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ "لبرل اور تھوڑی تھوڑی پی لیتا ہوں”کہنے والے بھٹو کے سینے کے اندر ایک پکا مسلمان بیٹھا جو ختم نبوت کے مسئلے پر کمپرومائز نہیں کرنا چاہتا تھا………علمائے کرام بھی بھٹو کی ختم نبوت کے لیے گراں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں "سلیوٹ "کرتے آئے ہیں…..مدینہ منورہ میں مقیم نامور اسلامی سکالر اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سیکرٹری جنرل جناب ڈاکٹر احمد علی سراج اس موضوع پر سب سے واضح موقف رکھتے ہیں…..اس سال اپنے ویڈیو بیان میں "قائد ایوان اور قائد عوام”کی 7ستمبر 1974کی تقریر کے اقتباسات پیش کرتے وہ آبدیدہ ہوگئے کہ انہوں نے اس راستے میں جان دیکر تاریخ رقم کر دی……….ڈاکٹر صاحب نے اس وقت کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ، اٹارنی جنرل یحیی بختیار ….. مولانا مفتی محمود،مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا غلام غوث ہزاروی،چودھری ظہور الہی ،مولانا کوثر نیازی اور پروفیسر غفور سمیت ارکان اسمبلی کو بھی خراج عقیدت پیش کیا……..
سیرت نگاروں ،خطیبوں،شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں عقیدہ ختم نبوت کی تفہیم فرمائی؟اپنے زمانے کے سب سے بڑے خطیب مولانا ضیا القاسمی نے کیا خوب تڑپا دینے والا جملہ کہا کہ "ہمیں تو مدینہ کی بچیاں مسئلہ ختم نبوت سمجھا گئیں”………وفاق المدارس پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب قاری حنیف جالندھری لکھتے ہیں کہ برسلز کے ختم نبوت سنٹر میں خطاب کرتے ہوئے خطیب ایشیا و یورپ نے ختم نبوت کے حوالے سے ایک نکتہ بیان کیا جو میرے ذہن میں نقش ہوگیا……مولانا قاسمی نے کہا:جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو وہاں کی بچیوں نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا مادعا للہ وداع
بچیوں نے اس موقع پر "طلع البدر”کہا…..”طلع الہلال”یا "طلع القمر”نہیں کہا…..حالانکہ تینوں کا معنی ایک ہے…جب لفظ "بدر”کے انتخاب پر غور کیا تو یہ راز کھلا کہ اگرچہ ان تینوں الفاظ کا معنی چاند ہے تاہم ان میں باہم فرق یہ ہے کہ پہلی رات کا چاند” ہلال "کہلاتا ہے….”قمر” دوسری سے تیرہویں اور” بدر” چودھویں رات کے چاند کو کہتے ہیں….”ہلال” بالکل چھوٹا ہوتا ہے،”قمر” اس سے بڑا ہوتا ہے لیکن اس کی روشنی کامل نہیں ہوتی بلکہ اس میں ابھی کمی ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی روشنی بڑھتی ہے مگر جب "بدر” آتا ہے تو چاند کی روشنی کامل ہو جاتی ہے ،اس کے درجے مکمل ہو جاتے ہیں…اس شعر میں لفظ "بدر” کا انتخاب کرکے مدینہ کی بچیوں نے ختم نبوت کا مسئلہ سمجھا دیا کہ ایک آسمان نبوت ہے…اس پر حضرت آدم علیہ السلام” ہلال "بن کر طلوع ہوئے پھر حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام انبیا کرام” قمر” بن کر چمکے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ” بدر "بن کر آئے تو جس طرح آسمان دنیا پر چاند کی روشنی کے سارے درجے "بدر” پر تام ہوجاتے ہیں اسی طرح نبوت کے سارے کمالات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پرمکمل ہو گئے ہیں…”بدر” کے بعد چاند کی روشنی کا کوئی درجہ نہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب نبوت کا کوئی درجہ نہیں…..اگر کسی کو ختم نبوت کا مسئلہ سمجھ نہیں آتا تو وہ اپنے دماغی خلل کا علاج کرائے …ہمیں تو یہ مسئلہ مدینہ منورہ کی بچیوں نے سمجھا دیا تھا…….
مولانا قاسمی نے ایک اور خطبے میں شاعر مشرق کے ختم نبوت پر دوٹوک بیانیے کو بیان کرتے ہوئے پنڈٹ جواہر لعل نہرو کے نام خط کا حوالہ دیا…..وہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے فرمایا:
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد
خدا نے ہم پر شریعت کو ختم کر دیا…..ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کو ختم کر دیا…..اس شعر میں علامہ نے کوئی ابہام نہیں چھوڑا جس سے مسئلہ غبار آلود ہوتا ہو…..
ایک اور مقام پر علامہ نے فرمایا:
لانبی بعدی ز احسان خدا ست
پردہ ناموس دین مصطفی ست
خدا کے بے شمار احسانات میں ایک احسان یہ بھی ہے کہ لانبی کا تاج ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سجا کر دین مصطفی کی ناموس کو تحفظ دے دیا…….
یہ ختم نبوت کا معجزہ ہے کہ عرب سے عجم "مسیلمہ سکول آف تھاٹ "راندہ درگاہ ٹھہرا……امت کے لیے اس "ارتدادی فکر "میں کبھی کوئی کشش نہیں رہی……سوا صدی کی آبیاری کے باوجود انگریز کا "خود کاشتہ پودا”بھی مرجھاتا جا رہا ہے…..
ڈاکٹر اقبال نے اسی "پودے” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
"وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام”
علمائے کرام اس مہینے شہر شہر یوم ختم نبوت کی گولڈن جوبلی تقریبات سجائیں گے۔۔۔۔ علمائے کرام سے گذارش ہے کہ مدینہ کی بچیوں کی طرح "عرب کے چاند” کے گن گائیں……بھلا "برگ حشیش” بھی اس قابل ہے کہ اس کا تذکرہ کیا جائے……ہرگز ہرگز نہیں!!!!