سنئیر اخبار نویس جناب مظہر عباس نے اپنے ایک کالم میں پاکستان کے صحافیوں کے "رہبر” جناب نثار عثمانی کے ایک "رول ماڈل جملے” کا حوالہ دے کر جناب نثار عثمانی سے "فیض یاب "راجہ اورنگزیب یاد دلا دیے۔۔۔۔انہوں نے میاں چنوں سے عالمی افق پر ابھرے قومی ہیرو ارشد ندیم کو خراج تحسین پیش کرتے اسی پس ماندہ علاقے سے جنم لیے پنجاب کے سابق درویش وزیر اعلی جناب غلام حیدر وائیں کا بھی تذکرہ کیا اور لکھا کہ میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے غلام حیدر وائیں کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا تو ان کو دل سے قبول نہیں کیا گیا اور پھر وہ نا معلوم افرادکے ہاتھوں مارے گئے۔۔۔۔ کوئی اور نہیں تو کم ازکم لاہور پریس کلب تو اُن کو یاد کیا کرے کہ پریس کلب بنانے میں سارا کریڈیٹ انہی کا ہے۔۔۔۔۔ وہ پریس کلب کی عمارت بنانے کے لیے رقم دینا چاہتے تھے مگر نثار عثمانی صاحب نے کہا”وائیں صاحب پیسے نہ دیں عمارت بنا دیں”۔۔۔۔کراچی سفر کے دوران میں نے مظہر عباس کے اس اقتباس کو لاہور پریس کلب کے صدر جناب ارشد انصاری کے ساتھ شئیر کیا تو انہوں نے کہا کہ مظہر عباس صاحب قابل صد احترام ہیں مگر لاہور پریس کلب غلام حیدر وائیں صاحب کو بھولا ہے نہ کبھی بھولے گا۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ لاہور پریس کلب میں قائد اعظم کے بعد صرف کسی ایک سیاسی لیڈر کی تصویر آویزاں ہے تو وہ جناب غلام حیدر وائیں صاحب ہیں۔۔۔۔یہی نہیں پریس کلب کے استقبالیہ پر سنگ بنیاد کی تختی پر بھی ان کانام جلی حروف میں جگمگا رہا ہے۔۔۔۔جناب ارشد انصاری نے بتایا کہ 1992میں جب اس وقت کے وزیر اعلی جناب غلام حیدر وائیں کے سامنے لاہور پریس کلب کا مقدمہ رکھا گیا تو انہوں نے کہا میرے پاس آپ کو دینے کے لیے بہت کچھ نہیں۔۔۔جب ان کے سامنے شملہ پہاڑی پر پریس کلب کے قیام کی تجویز رکھی گئی تو انہوں نے کہا جلدی کریں۔۔۔اگر آپ نے وہاں پریس کلب نہ بنایا تو لاہور کے دو ایم پی اے اس جگہ پر "پنجے” گاڑ لیں گے۔۔۔۔انہوں نے ڈی جی ایل ڈی اے کو فوری یہ جگہ پریس کلب کو دینے کا حکم دیا اور ساتھ پریس کلب کی تعمیر کے لیے اسی لاکھ دیے۔۔۔۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہور پریس کلب کے سیکرٹری روم میں سجی میز اور الماریاں بھی بتیس سال پرانی اور وائیں صاحب کی عنایت کردہ ہیں۔۔۔۔ارشد انصاری نے درست کہا کہ لاہور پریس کلب وائیں صاحب کو بھولا ہے نہ نثار عثمانی صاحب کو۔۔۔لاہور پریس کلب کا کانفرنس ہال بھی جناب نثار عثمانی سے منسوب ہے۔۔۔۔جناب نثار عثمانی کے جملے کہ وائیں صاحب ہمیں پیسے نہ دیں عمارت بنادیں نے مجھے راجہ اورنگزیب صاحب کی یاد اس لیے دلادی کہ انہوں نے مجھے یہی مشورہ صحافی کالونی کی چار کنال پر محیط عالی شان مسجد کی تعمیر کے پر موقع پر دیا۔۔۔۔میں نثار عثمانی صاحب کو نہیں ملا۔۔۔۔وہ 4ستمبر 1994کو دنیا چھوڑ گئے تب میں ایف ایس سی پارٹ ون کا طالب علم تھا لیکن میں نے پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر راجہ اورنگزیب میں نثار عثمانی کا عکس دیکھا۔۔۔۔وہ عثمانی صاحب کے ذکر پر گردن جھکا لیتے اور بعض اوقات تو ان کی یاد میں پرنم بھی ہو جاتے۔۔۔۔خیر راجہ صاحب نے مجھے سختی سے حکم دیا کہ پیسوں کے معاملے میں نہیں آنا۔۔۔۔نثار عثمانی صاحب کے جملے نے یہ عقدہ کھول دیا کہ راجہ صاحب نے مجھے یہ نصیحت کیوں کی؟اور یہ بھی کہ ایسی نصیحت صرف نثار عثمانی سے فیض یاب رہنما ہی کر سکتا ہے۔۔۔۔پھر میں نے بھی” پیسے نہیں مسجد کی چابی دیں” کا نعرہ مستانہ لگادیا!!!یادش بخیر۔۔۔2011 میں مدینہ منورہ میں مقیم نامور اسلامی سکالر جناب ڈاکٹر احمد علی سراج سے صحافی کالونی کی مسجد حمیدہ کے حوالے سے باہمی یادداشت پر دستخط ہوئے تو جناب سرمد بشیر لاہور پریس کلب کے صدر تھے۔۔۔۔مسجد کی تعمیر کا ابتدائی تخمینہ ساٹھ پینسٹھ لاکھ لگایا گیا۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب کہنے لگے آپ پیسوں کی ذمہ داری لیں۔۔۔۔میں نے معذرت کرلی تو کہنے لگے پھر کلب کے اکائونٹ رکھ لیں۔۔میں نے عرض کی کہ ان دنوں کلب کے مالی حالات اچھے نہیں۔۔۔۔خدانخواستہ یہ پیسے کہیں خرچ ہوگے تو سبکی ہوگی۔۔۔میں نے تجویز دی کہ بہتر ہے کہ آپ کے فنانسر دوست جناب حاجی رمضان کی فیملی کا کوئی بندہ یہ ذمہ داری لے تو بہتر رہے گا۔۔۔۔پھر حاجی صاحب کے بہنوئی جناب انجنیئر ارشد ناز نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور خوب سنبھالی۔۔۔۔انہوں نے اتنی عقیدت سے یہ مسجد تعمیر کرائی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔۔۔۔مسجد اڑھائی سال میں مکمل ہوئی اور اخراجات دو کروڑ تک پہنچ گئے۔۔۔۔یہ انکشاف حاجی رمضان صاحب نے مسجد کی تعمیر کے بعد کیا۔۔۔۔انہوں نے اپنی والدہ محترمہ سے منسوب مسجد دیکھی تو” اظہار تشکر "میں اشکبار ہوگئے اور بتایا کہ یہ محض اللہ کریم کا کرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کا منہ کھول دیا۔۔۔پیسے آتے گئے اور میں انجنیئر صاحب کی جھولی میں ڈالتا گیا۔۔۔۔ 2013میں مسجد کی تکمیل پر جناب ارشد انصاری لاہور پریس کلب کے صدر تھے۔۔۔۔میں نے مسجد کی چٹائیوں پر سجی افتتاحی تقریب پر جناب ارشد انصاری کو مخاطب کرکے کہا کہ اقتدار کے مالک اللہ کی تقسیم دیکھیے کہ جب مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تو جناب سرمد بشیر صدر تھے۔۔۔افتتاح ہورہا تو آپ پاکستان کے بڑے صحافتی ادارے کے سربراہ ہیں۔۔۔آپ کو لاہور پریس کلب کی مسجد کی چابی مبارک ہو۔۔۔۔۔!!مسجد کی "چابی” سے یاد آیا کہ اعتدال پسند عالم دین جناب ڈاکٹر احمد علی سراج نے صحافی کالونی کی مسجد کے نظام کو آئیڈیل بنانے کے لیے وہ "متوازن قفل”لگایا کہ تمام رنگ برنگی چابیاں ناکارہ ہو گئیں۔۔۔انہوں نے مسجد کے اساسی منشور کے لیے عرب ممالک سے حاصل چالیس سال کے تجربے کے ساتھ ساتھ علمائے حرمین شریفین سے بھی استفادہ کیا۔۔۔۔شاید یہی وہ نظم ہے جس کے سامنے ہمیں بھی گردن جھکائی پڑی۔۔۔ایک جمعہ پر مجھے ایک صاحب ملے۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ مسجد کے منشور میں ہے کہ یہ کسی فرقے کی مسجد نہیں۔۔۔۔پھر ادھر یہ تبلیغی جماعت کیوں آئی؟میں جماعت کے امیر کو سوسائٹی دفتر لے گیا اور دست بوسی کے بعد دست بستہ عرض کی کہ حضرت میں سکول کے زمانے سے جماعت کے بستر اٹھانے والا بندہ ہوں۔۔۔۔ اس مسجد میں ہم نے ایک اصول طے کردیا ہے کہ یہاں کسی مکتب فکر کی چھاپ نہیں لگے گی۔۔۔۔ آپ ادھر ٹھہرے تو کل دوسرے برانڈ والے آجائیں گے اور ہمارا نظم خراب ہو جائے گا۔۔۔۔امیر صاحب” صاحب بصیرت” آدمی تھے۔۔۔۔میرے استدلال پر بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیتے چلے گئے۔۔۔۔۔۔کوورونا کے زمانے کی بات ہے مجھے ایک شب مدینہ منورہ سے جناب ڈاکٹر احمد علی سراج کافون آیا کہ مبارک ہو۔۔۔۔مسجد کے اسلامک سنٹر کے لیے فنڈز کا بندوبست ہوگیا ہے ۔۔۔لاہور کے ایک تاجر میرے پاس بیٹھے ہیں۔۔۔۔ان کی دختر نیک اختر ساٹھ لاکھ دونیشن دینا چاہتی ہیں۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب لاہور آئے تو تاجر نے اپنے گھر بلایا۔۔۔پرتکلف عشائیے کے بعد کہنے لگے ہم چاہتے ہیں کہ تبلیغی مرکز بنائیں۔۔۔۔میں نے گذارش کی کہ ہمارے نظام میں صرف اسلامک سنٹر بنانے اور لکھنے کی گنجائش ہے اور یوں ہم نے وہ پیشکش ٹھکرادی۔۔۔اللہ کا کرم ہوا کہ دو تین سال پہلے اللہ کے ایک نیک بندے نے اتنے ہی فنڈز دے دیے اور ادھر خوب صورت قرآن سنٹر بن گیا۔۔۔یہی نہیں کچھ سال پہلے ایک عرب این جی او کا نمائندہ ایک دوست کے توسط سے مسجد آیا۔۔۔۔نمائندے نے منشور پڑھا اور پوچھا کہ کیا اس پر عملدرآمد ہو رہا؟میں نے کہا ایک ایک نکتے پر سو فیصد ۔۔۔وہ کہنے لگے کہ اس منشور کو رجسٹرڈ کرالیں اور پورے پنجاب میں مساجد کی تعمیر کا پراجیکٹ لے لیں۔۔۔۔میں نے کہا کہ ہمارا نظام اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور شکریے کے ساتھ یہ پیشکش بھی مسترد کردی۔۔۔۔کہنے کا مطلب کہ نظام باتوں سے نہیں عملدرآمد سے بنتے ہیں۔۔۔۔بات کہاں سے نکل گئی۔۔۔۔اپنے محسن کو کوئی کم ظرف ہی بھول سکتا ہے۔۔۔۔ہم جناب غلام حیدر وائیں کو بھولیں گے نہ نثار عثمانی صاحب کو۔۔۔۔اسی طرح جناب پرویز الٰہی اور جناب ڈاکٹر احمد علی سراج بھی ہمیشہ یاد رہیں گے۔۔۔۔۔۔!!!