انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
کردار، تاریخ میں نام کا فیصلہ مسلسل جدوجہد ، جذبے کی لگن اور مشکلات سے چٹان کی طرح ٹکرانا ہی طے کرتا ہے…… 29ستمبر 1929کو جموں کشمیر ( موجودہ مقبوضہ کشمیر ) کے ضلع بارمولہ کے قصبۓ سوپور کے گاوں ڈور کے آسودہ حال گھرانے میں آنکھیں کھولنے والے سید علی گیلانی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ مالک کائنات نے ان کا نام تاریخ میں امر رکھنے کے فیصلے کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے ۔۔۔۔۔۔
ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کرنے کے بعد سید علی اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج ( پنجاب یونیورسٹی ) لاہور چلے آے، یہاں وہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات اور علامہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر ہوے ۔۔۔۔۔
بھارتی جیلوں میں دور اسیری کے دنوں کے انہوں نے اپنی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام "روداد قفس” ہے۔۔۔۔۔
گیلانی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن رہے ہیں جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت "تحریک حریت” بھی بنائی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی معروف عالمی مسلم فورم "رابطہ عالم اسلامی” کے بھی رکن تھے۔ حریت رہنما یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے "رابطہ عالم اسلامی” فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے ۔ آزادی کشمیر کی جدوجہد کیلئے انہوں نے ایسا کردار ادا کیا جو شاید ہی اب کسی اور حریت رہنما کے حصے میں آے ۔۔۔۔۔۔
ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصںف سید علی گیلانی نے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس کشمیر جا کر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی ، شاعری سے لگاو اور جوش خطابت کی وجہ سے وہ جلد ہی ایک اہنم رہنما کے طور پر مشہور ہوگئے۔1977،1972اور1987میں جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا۔ مقامی اسمبلی میں وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے، تاہم 87 رُکنی ایوان میں جماعت کو چند سیٹیں ہی ملتی تھیں لہذا اُن کی سیاست اسمبلی کے اندرکوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی ، 1987 میں علی نے مسلم متحدہ محاذ کی حمایت میں الیکشن لڑ کر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو تاریخی چیلنج پیش کیا، تاہم انتخابات میں ‘بدترین دھاندلیوں’ اور کانگریس کی حمایت سے فاروق عبداللہ اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور سید علی گیلانی سمیت محاذ کے بھی اُمیدواروں نے الیکشن جیت لیا۔۔۔۔۔۔۔
روز اول سے مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دینے والے سید علی گیلانی 90 کی دہائی میں کشمیریوں کی ایک توانا آواز کے طور پر ابھرے ، پوری زندگی اپنے مضبوط موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے سید علی گیلانی کی مقبولیت میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا کیونکہ انہوں نے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے بھارت نواز کٹھ پتلی حکمرانوں کی طرح اہلیان کشمیر کے مفادات کا کبھی سودا نہیں کیا ،انہوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔ حریت رہنما نے متعدد بار دعویٰ کیا کہ دہلی کے مصالحت کاروں نے متعدد بار ان سے رابطہ کر کے موقف میں نرمی لانے کا کہا ہے مگر ہر بار انہیں منہ کی کھانی پڑی وہ اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹے رہے ، جب انہیں آخر بار نظر بند کیا گیا تو اس وقت ان کی طرف سے بولے جانے والے تاریخی جملوں میں بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور یہ قبضہ عارضی ہے کیونکہ تسلط اور جبر سے جدوجہد اور آواز کو دبایا نہیں جاسکتا ، انہیں جب بھی موقع ملا تو انہوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کیخلاف پوری دنیا میں آواز اٹھائی اور ہر بار یہ ہی کہا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کئے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں ، 2014 میں جب نریندرا مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی کشمیر کے بارے میں رویہ سخت کیا تو اس وقت حریت کے تمام حلقوں کا لہجہ گیلانی کے ساتھ مل گیا۔ زندگی بھر قید و بند کی صعبوتیں برداشت کرنے اور جدوجہد کا علم تھامے رکھنے والے سید علی گیلانی کو مقبوضہ کشمیر سمیت پاکستان میں بھی یکساں مقبولیت حاصل رہی ، برصفیر سمیت دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھنے والے سید علی گیلانی نے زندگی بھراپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ، سخت سے سخت حالات بھی انہیں جھکا نہیں سکے ، طویل نظر بندی بھی ان کے عزم مصم میں نرمی نہیں لاسکی ، ان کی یہ عظیم جدوجہد یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ دنیا میں بھیجے ہی جدوجہد کیلئے گئے تھے ، وطن عزیز نے پاکستان کے 73یوم آزادی کے موقع پر بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان کے اعزاز سے نوازا یہ اعزا صدر پاکستان عارف علوی سے ایک خصوصی تقریب کے دوران حریت رہنماوں نے وصول کیا ۔ میرے کانوں میں اب ان کے یہ الفاظ گھونج رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
” “ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے”’
نوجوانوں کا لہو گرمانے والی ایک معتبر آواز کے چلے جانے سے مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی تحریک کو ایک دھچکا ضرور لگا ہے مگر میرا پختہ یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر آزاد ہوگا اور مسلسل جبر کا سامنا کرنے والے اہلیان مقبوضہ کشمیر آزاد فضاوں میں سانس لے رہے ہوں گے ،
قدرت کو ان کا ستمبر سے ستمبر تک کا ہی سفر منظور تھا ، اناللہ واناالیہ راجعون ، یکم ستمبر بھارتی جبر تلے دبے کشمیریوں کیلئے ستمگر بنا ہے کیونکہ وہ اپنے مضبوط مقدمہ لڑنے والی متعبر آواز سے محروم ہوگئے ہیں جن کو موت کے بعد بھی بھارتی جبر کا سامنا کرنا پڑا بھارت کی حکومت اور قابض فوج ان کے جسد خاکی سے اتنا خوف زدہ تھی کہ رات کے اندھیرے میں زبردستی حیدرپورہ کے قبرستان میں تدفین کرا دی لیکن 91 سالہ سید علی گیلانی وفات کے بعد اب بھارت سرکار کے لیئے اور بھی زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں
ان کو اس شعر کے ساتھ خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گی ۔۔۔۔۔۔
بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے۔۔۔۔
اس قوم میں مدت سے ہے وہ درویشن ہے۔۔۔۔ نایاب اے وادی لولاب
یاران وطن کہتے ہیں کہ کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی !!!
۔۔۔۔
(شہید سید علی گیلانی کی رحلت پر لکھا گیا تھا )