اس وقت بلوچستان میں جس تنظیم کی دہشت ہر ایک پر طاری ہے اس کا نام ہے بلوچستان لبریشن آرمی۔ عرف عام میں اور بین الاقوامی میڈیا میں اس کو بی ایل اے کے مختصر نام سے جانا جاتا ہے۔ بی ایل اے کیا ہے اور کس طرح اور کب یہ تنظیم وجود میں آئی۔ اس پر ایک زبردست تحقیقی رپورٹ ترکمانستان سے مارچ 2005 میں فائل کی گئی۔ بنیادی طور پر یہ رپورٹ ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد سے طارق سعیدی نے فائل کی تھی جبکہ اس کی تیاری میں طارق سعیدی کا ساتھ ماسکو سے سرگی پیاتاکوف Sergi Pyatakov نے، زاہدان سے علی نسیم زادے نے، قندھار سے قاسم جان نے، کوئٹہ سے ایس ایم کاسی نے، نئی دہلی سے روپا کیول نے اور واشنگٹن سے مارک ڈیوڈسن نے دیا تھا۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں طارق سعیدی بتاتا ہے کہ یہ ایک طرح سے طلسماتی سی کہانی ہے۔ وہ ایک زبردست حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تک امریکا اور روس کے مفادات میں براہ راست ٹکراؤ نہ ہو، کریملن اور پنٹاگون نہ صرف بلوچستان میں ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی بھرپور معاونت بھی کرتے ہیں۔ وہ بلوچستان پر اسٹوری کرنے کے سلسلے میں ماسکو میں کے جی بی کے دو افسران سے ملتا ہے جو افغانستان پر روسی قبضے کے زمانے میں پاکستان کے اندر اور پاکستانی سرحد کے ساتھ افغانستان میں سرگرم عمل رہے تھے۔ یہ دونوں افسران بتاتے ہیں کہ روسی حملے کے بعد اس علاقے میں ہونے والی مزاحمت سے روسی حیرت زدہ رہ گئے تھے اور انہوں نے اس کے جواب میں پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ بی ایل اے اسی زمانے کی پیداوار ہے اور اس کی پیدائش ، پرورش و پرداخت میں کے جی بی کا ہاتھ تھا۔اس تنظیم میں شامل لوگوں کا تعلق بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے تھا جو کوئٹہ اور دیگر شہروں میں رہائش پذیر تھے۔ کے جی بی کے یہ دونوں افسران اس بی ایل اے کو قائم کرنے والوں میں شامل تھے۔
یہ بی ایل اے روس کے افغانستان میں موجودگی کے دوران پوری طرح سرگرم عمل رہی تاہم روس کے افغانستان سے پسپائی کے بعد یہ منظر سے اچانک غائب ہوگئی۔ نائن الیون کے فوری بعد جب سی آئی اے نے اس علاقے میں ایک نئی تنظیم کی ضرورت محسوس کی تو انہوں نے اپنے روسی دوستوں سے رابطہ کیا جو امریکیوں کے مقابلے میں اس علاقے سے کہیں زیادہ واقف تھے۔ اس طرح پاکستانی علاقے میں تمام روسی رابطے اب پنٹاگون کے رابطوں میں تبدیل ہوگئے ۔ (اب سمجھ میں آتا ہے کہ صوبہ سرحد میں اے این پی کیوں اچانک سام راج کے خلاف نعرے لگاتے لگاتے انکل سام کی حمایت میں آگئی)۔
طارق سعیدی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتاتا ہے کہ جنوری 2002 میں پہلی مرتبہ امریکی انسٹرکٹروں کے گروپ نے افغانستان کی سرحد پار کرکے بلوچستان میں قدم رکھا اور بی ایل اے کے نئے بھرتی شدہ افراد کو گوریلا جنگ کی تربیت فراہم کی۔ یہیں سے بلوچستان میں بغاوت کی ابتدا ہوئی۔
ان انسٹرکٹروں کی کہانی تفصیل سے بتاتے ہوئے طارق سعیدی لکھتا ہے کہ یہ 17 جنوری 2002 کی تاریخ تھی جب مٹیالے سے براؤن رنگ کی ٹویوٹا ہائی لکس ڈبل کیبن میں دو امریکیوں اور دو بھارتیوں نے اپنے گائیڈ نما افغانی ڈرائیور کے ہمراہ افغانستان سے رشید قلعہ کے علاقے سے پاکستانی سرحد پار کرکے پاکستان میں مسلم باغ کے علاقے میں قدم رکھا۔ اس راستے کے لیے انہوں نے زیادہ تر غیر روایتی راستوں کا انتخاب کیا۔ مسلم باغ سے وہ کوہلو پہنچے۔ یہاں آنے کے لیے بھی انہوں نے اسی راستے کو ترجیح دی جو عام طور پر لوگ استعمال نہیں کرتے۔
کوہلو میں ان کی ملاقات پہلے سے رابطے میں آئے چند بلوچ نوجوانوں سے ہوئی۔ ان میں سے ایک امریکی کوہلو میں ہی رک گیا جبکہ باقی ایک امریکی اور دونوں بھارتی ڈیرہ بگٹی چلے گئے جہاں سے وہ چند دن کے بعد واپس آئے۔ آئندہ دو ہفتے اس ٹیم نے بلوچ نوجوانوں اور ان کے سرپرستوں سے گفتگو میں گزارے اور پھر یہاں پر تربیتی کیمپ کی تیاری کے کام کا آغاز ہوگیا۔
کے جی بی کے افسران طارق سعیدی کو بتاتے ہیں کہ بالاچ شروع سے ہی ہمارے بہترین بچوں میں سے ایک رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوہلو بالاچ کی وجہ سے بہترین اور محفوظ آغاز سفر تھا۔ بالاچ مری نواب خیر بخش مری کا بیٹا ہے اور اس نے ماسکو سے الیکٹرونک انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اُس دور کے رواج کے عین مطابق ، روس میں جو بھی بلوچ طالب علم ہوتا تھا وہ کے جی بی کے رابطے اور سرپرستی میں ہوتا تھا۔ بالاچ مری بھی اُنہی کامیاب داستانوں میں سے ایک ہے۔ یہ کے جی بی افسران کہتے ہیں کہ روس اور بھارت کے رابطوں میں رہنے کی بناءپر اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ بالاچ مری کو بی ایل اے کی تجدید کے بعد اس کے نئے سربراہ کے طور پر چن لیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کوہلو اور کاہان کے درمیان کے تمام پہاڑ مریوں کی ملکیت میں تھے جن کا سردار بالاچ مری تھا۔
یہ افسران بتاتے ہیں کہ پہلے کیمپ میں تیس نوجوانوں نے شرکت کی اور اس کیمپ میں تربیت صرف لیکچروں تک محدود رہی۔ یہ لیکچر پانچ بنیادی نکات پر محیط تھے۔بلوچوں کا حق آزادی، عظیم بلوچستان کا تصور، سبوتاژ کو سیاسی جدوجہد میں ایک آلہ کے طور پر استعمال کرنا، پنجاب کا ظلم اور دیگر اقوام پر ان کے ظلم کی داستان اورعوامی مظاہرے جو میڈیا فرینڈلی ہوں۔
بی ایل اے کے قیام کی ہوش ربا داستان جاری ہے۔ اس کے بارے میں تفصیلات انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کالم میں اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش