آج کل بلوچستان پھر سے شہ سرخیوں میں ہے ۔ لگتا یہ ہے کہ اسے عام پاکستانیوں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے ۔ نو گو ایریا کا مطلب کراچی میں رہنے والوں سے زیادہ کون بہتر جانتا ہوگا ۔ المیہ یہ ہے کہ کراچی ہو یا بلوچستان یہ سب غیروں سے زیادہ اپنوں کی ستم ظریقی ہے ۔ اس ستم ظریفی پر گفتگو پھر کبھی ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اکتوبر 2012 میں ، میں نے بلوچستان کا مسئلہ کے نام سے پانچ کالموں کی ایک سیریز سپرد قلم کی تھی ۔ یہ آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی اکتوبر 2012 میں ۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر یہ دوبارہ پیش خدمت ہے ۔ میں نے اس آرٹیکل میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے ۔ اس لیے پڑھتے وقت یہ ذہن میں رہے کہ یہ بارہ برس پرانے لکھے ہوئے ہیں ۔ آرٹیکل پیش خدمت ہے ۔
اس وقت پاکستان کے اخبارات میں بلوچستان کا مسئلہ چھایا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سپریم کورٹ کا اس پر متحرک ہونا ہے ۔ اس کے بارے میں روزانہ سپریم کورٹ میں سماعت ہوتی ہے اور اس حوالے سے یہ مسئلہ اخبارات کی شہ سرخیوں میں مسلسل جگہ پارہا ہے۔ حال میں اس میں مزید اچھال اس وقت پیدا ہوا جب بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل سپریم کورٹ میں پیشی کے لیے اسلام آباد آئے اور اس موقع پر انہوں نے نہ صرف میڈیا پر بھرپور وقت گزارا بلکہ انہوں نے سید منور حسن، عمران خان، نواز شریف سمیت متعدد سیاسی رہنماوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ وہ اتوار کو دوبارہ اپنے مسکن دبئی کی طرف لوٹ گئے۔
اپنے اس دورہ بلوچستان کے موقع پر اختر مینگل نے مطالبات پر مشتمل چھ نکات بھی پیش کیے اور اس پر اصرار بھی کیا کہ ان نکات کو شیخ مجیب کے چھ نکات کے طرز پر ایک الٹی میٹم ہی تصور کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا تھا کہ یا تو ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں ورنہ دوسری صورت میں وہ غیر ملکی قوتوں کی مدد سے بنگال کی طرح بلوچستان کو ایک آزاد اکائی کی صورت دلوائیں گے۔ اس وقت بلوچستان لہو لہو ہے۔ وہاں کی صورتحال کا ادراک کراچی میں رہنے والے بہتر طور پر کرسکتے ہیں کیوں کہ بلوچستان اور کراچی کے حالات میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں ہے۔ وہاں بھی مجرم آزاد گھوم رہے ہیں، ان کی طرف سے یا تو مقامی انتظامیہ نے صرف نظر کرلیا ہے یا پھر یہ انتظامیہ ان ہی مجرموں کی مدد سے اپنی نشستوں پر براجمان ہے۔ حکومت کی رٹ نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔ چن چن کر انسانی اہداف کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہر سمت خوف و دہشت کا راج ہے۔ اس سب کو دیکھ کر ایک عام آدمی کے ذہن میں جو سوال سر ابھارتے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ سب کیا ہے ، کیسے ہوا اور اس کے پس پشت مقاصد کیا ہیں۔بلوچستان کا مسئلہ سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے ، یہ انتہائی پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی سمتوں میں پھیلا ہوا ہے کہ اس موضوع پر کئی دن تک مسلسل نشستیں ہوسکتی ہیں۔ کراچی و کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں بات کرنے سے پہلے دہشت گردی کے ایک بین الاقوامی مینوئل پر بات کرتے ہیں۔ اس مینوئل کو سمجھنے کے بعد کم از کم دہشت گردی کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کیوں کہ پوری دنیا میں دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ ایک ہی ہیں۔ یہ مینوئل انٹرنیٹ پر موجود ہے ۔ یہ مینوئل چھوٹے سے لاطینی امریکا کے ملک نکاراگو امیں 1983 میں پمفلٹ کی صورت میں پھیلائے گئے تھے اور اس کا مقصد وہاں کی مارکسی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔اس پمفلٹ کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو مارکسی حکومت سے نجات چاہتا ہے وہ اس میں دیے گئے طریقوں پر عمل کرے۔ پہلے قدم کے طور پر سول نافرمانی کے معصوم طریقے بتائے گئے ہیں۔ یعنی دفتر دیر سے جائیے ۔ وہاں پر پہنچ کر بھی کام نہ کیجیے اور ادھر ادھر گپیں ماریں یا سوتے رہیں۔ فائلوںکا انبار اپنی میز پر جمع کرلیں۔ طبعیت کی خرابی کا بہانہ بنا کر اکثر عین وقت پر چھٹی کرلیں۔ اگر کوئی ٹیکنیکل کام کررہے ہیں تو ٹولزکو ادھر ادھر پھینک دیں یا چھپا دیں جیسا کی گاڑی صحیح کرتے وقت کسی مین ہول میں اوزار کو پھینک دینا۔ اس کے اگلے مرحلے میں کہا گیا ہے کہ دفاتر کی لائٹیں اور برقی آلات کو کھلا چھوڑدینا، باتھ روم میں نلکوں کو کھلا چھوڑ دینا، غذائی اشیاءکی چوری اور ان کو ذخیرہ کرنا اہم ترین کام ہے۔ (واضح رہے کہ نکاراگوا ایک کمیونسٹ ملک ہے اور وہاں پر ہر چیز ریاست کی ملکیت ہے اور راشن فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے)۔
زیادہ سے زیادہ افواہیں پھیلائی جائیں اورجانوروں کے ریاستی باڑوں کے دروازے موقع ملتے ہی کھول دیے جائیں تاکہ جانور ادھر ادھر ہوسکیں۔ ٹیلیفون کے ذریعے ہوٹل میں جعلی ریزرویشن کروائی جائیں، اپنے باس کونامعلوم ذریعوں اور گمنام کالز کے ذریعے دھمکیاں دی جائیں، دفاتر کے سامان کو نقصان پہنچایا جائے اور آگ لگنے کی فائر بریگیڈ کو جھوٹی اطلاعات دی جائیں۔ دفتر کے اہم کاغذات یا تو چوری کر لیے جائیں یا پھر ان کو تلف کردیا جائے۔ سرکاری عمارات اور دفاتر کے بلبوں کے ہولڈر میں سکہ پھنسا کر بجلی معطل کردی جائے۔ پولیس پر مسلسل حملے کیے جائیں، اسٹریٹ لائٹ کو توڑدیا جائے اور جگہ جگہ دیواروں پر حکومت مخالف اشتعال انگیز نعرے لکھ دیے جائیں۔ پولیس کی گاڑیوں کے راستے میں کیلیں بکھیر دی جائیں، پولیس کی گاڑیوں کے ٹائر تباہ کرنے کے لئے اس کے ٹائروں کے نیچے نوکیلے دھاتی ٹکڑے رکھے جائیں اورٹیلیفون و بجلی کے تار جگہ جگہ سے کاٹ دیے جائیں وغیروغیرہ۔ یہ اس پمفلٹ کی تلخیص ہے جو سی آئی اے نے نکاراگوا میں سول نافرمانی کے لئے تقسیم کیے تھے۔ حال میں ہی حسنی مبارک کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی کچھ ایسے ہی پمفلٹ تقسیم کیے گئے تھے۔یہ تو تھی نکاراگوا سے ایک شہادت جس کے بارے میں سی آئی اے خود بھی یہ تسلیم کرچکی ہے کہ یہ سب کچھ اس نے کیا تھا۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ اگلے کالم میں پہلے دیکھیں گے کہ بلوچستان نیشنل موومنٹ کی پیدائش کب اور کہاں کیسے ہوئی اور پھر حالات کا تجزیہ کریں گے کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا کررہے ہیں۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش۔