برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے پھانسی کا پھندہ چوم لینے والے شہید بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی زباں پر نعرہ بن کر گونجنے والی نظم ” سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ” بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ارادوں کی طرح آج بھی زبان زد عام ہے لیکن اس نظم کو تحریر کرنے والے شاعر کے متعلق تحقیق دانوں میں مختلف آرا چلی آرہی ہیں تاہم تحقیق کرنے والوں کی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ بسمل عظیم آبادی تخلص کرنے والے ایک شاعر نے یہ نظم تحریر کی تھی تاہم امجد سلیم علوی نے بسمل عظیم آبادی کے متعلق جب معلومات اکٹھا کرنا شروع کیں تو حیرت انگیز واقعات پہلی دفعہ منظر عام پر آئے ۔یہ نظم پڑھنے والے بھگت سنگھ تو 23 مارچ 1931ء کو لاہور میں اپنے ساتھیوں سمیت پھانسیوں پر چڑھا دیئے گئے جبکہ اس نظم کے خالق جن کا اصل نام تو رام پرشاد بسمل شاہ جہان پوری تھا جو کے ایک انقلابی تھے اور یہی نظم انہیں بھگت سنگھ سے چار سال پہلے ہی تختہ دار پر پہنچا چکی تھی رام پرشاد بسمل 1897ء میں پیدا ہوئے اور 19 دسمبر1927ء کو پھانسی پر لٹکائے گئے اسی دن ان کے ساتھی اشفاق اللہ خاں اور دیگر انقلابیوں کو بھی پھانسی دی گئی ۔ممتا ز ناول نگار اور افسانہ نگار انتظار حسین کے نام تحریر کردہ اپنے ایک مکتوب میں امجد سلیم علوی نے بتایا ہے کہ رام پرشاد بسمل کی دیگر دو سو نظمیں اور نصری تحریریں موجود ہیں انہوں نے بھگت سنگھ کی پسندیدہ نظم کے وہ تمام اشعار بھی تحریر کر دیئے ہیں جو انہیں دستیاب ہوسکے دنیا اور پاکستان کے انقلابیوں کی دلچسپی کے لیے یہ نظم یہاں تحریر کی جارہی ہے ۔
سرفروشی کی تمنااب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ایک سے کرتا نہیں کیوں دوسرا کچھ بات چیت
دیکھتا ہوں جسے وہ چپ تیری محفل میں ہے
اے شہید ملک وملت میں تیرے اوپر نثار
اب تری اہمیت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
کھینچ کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی امید
عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچہ ،قاتل میں ہے
سرجو اٹھ جاتے ہیں وہ جھکتے نہیں للکار سے
اور بھڑکے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے
جاں ہتھیلی پر لیے لو بڑھ چلے ہیں یہ قدم
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
شاعر پرشاد بسمل