اردو شاعری میں احمد فراز کو جو مقام حاصل ہے وہ کم کم شعرا کو نصیب ہوتا ہے۔ ادب میں "مقام” محض ایک لفظ نہیں ہے بلکہ یہ وہ اہمیت، حیثیت یا مرتبہ ہے جو ایک شاعر اپنی تخلیقی صلاحیتوں، اپنے شعری اسلوب، موضوعات کی گہرائی اور اپنے دائرہء اثر کی بدولت حاصل کرتا ہے۔ یہ مقام شاعر کی زندگی یا بعد میں ادبی نقادوں، قارئین اور ماہرین کی جانب سے تسلیم کیا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر ادب میں شاعر کا مرتبہ طے ہوتا ہے۔ احمد فراز کو ان کی زندگی میں ہی ناقدین، قارئین اور ماہرین کی جانب سے اپنے عہد کا بے حد مقبول اور محبوب شاعر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ احمد فراز کا یہ سفر احمد شاہ کوہاٹی سے احمد فراز تک کا سفر ہے، ان کا یہ سفر
فراز اپنے سوا ہے کون تیرا
تجھے، تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے
سے لے کر
اور فراز چاہیئں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر، بچوں کے نام رکھ دیا
تک کا سفر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سفر احمد فراز جیسا غیر معمولی شاعر ہی طے کر سکتا تھا۔
ہمارے نزدیک کسی شاعر کے مضبوط اور بلند مقام ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے کن ہم عصروں کے درمیان اپنا قد نکالا۔ کیوں کہ اندھوں میں کانا راجہ تو کوئی کم زور بھی ہو سکتا ہے لیکن دیدہ وروں کے درمیان اپنے سر تاج سجانا بڑا کمال ہے، جو ہنر کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس حوالے سے احمد فراز ثابت کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا مختلف، منفرد اور دلکش طرزِ احساس اور طرزِ اظہار رکھتے ہیں جو انھیں فیض احمد فیض، زہرا نگاہ، ن م راشد، اور منیر نیازی جیسے جید شعرا کے درمیان بھی پورے قد سے کھڑا رکھتا ہے۔ ورنہ بدقسمتی سے کسی بڑے شاعر کے عہد میں پیدا ہونے والے اچھے شعرا تو محض دیگر میں شمار کیے جاتے ہیں۔
یہاں تو فراز صاحب کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ فیض صاحب اور ان کے موضوعات یہاں تک کہ لفظیات اور پڑھنے کا انداز تک بعض لوگوں کو مماثل محسوس ہوتے تھے۔ ساقی فاروقی نے تو اپنے مخصوص انداز میں اسے لکھا بھی ہے اور اسے ادبی خودکشی قرار دیا ہے کہ ایک بڑے شاعر کی زندگی میں فراز صاحب ان کی نقل کر رہے ہیں۔ لیکن فراز صاحب کا آج تک زندہ رہنا ہی ساقی فاروقی کی اس بات کی تردید کے لیے کافی ہے۔ فراز صاحب کی ابتدائی شاعری میں جو لفظیات کی مماثلت یا کہیں کہیں فیض صاحب کے اثرات نظر آ جاتے ہیں وہ بھی فیض صاحب کے بڑے شاعر ہونے کی دلیل ہیں کہ بڑا شاعر اپنے عہد پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن یہ بات فراز صاحب کے کم زور شاعر ہونے کا ثبوت ہرگز نہیں بنتی۔ اصل میں ہمارے ہاں موضوعات کی مماثلت کو ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے اور ان کی گہرائی میں اترنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ اسی لیے نسائی جذبات کا اظہار کرنے والی ہر شاعرہ کو دوسری پروین شاکر اور ہر تانیثیت کے اظہار کو دوسری فہمیدہ ریاض کہہ کر اپنی تساہل پسندی کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے جاتے ہیں۔ جب کہ موضوعات دائمی ہو سکتے ہیں مگر ان کی نوعیت، شاعر کی فکری اپچ اور اس کا ٹریٹمنٹ انھیں بالکل مختلف بنا دیتے ہیں۔ مثلاً اسی کو دیکھ لیجیے کہ احتجاج اور مزاحمت فیض صاحب اور فراز صاحب دونوں کے ہاں موجود ہے لیکن ان دونوں کے زمانے مختلف ہیں اور اظہار بھی۔
جی ہاں، ان دو شعراء کے درمیان ایک بنیادی فرق ان کے زمانے اور سیاسی حالات کے تناظر میں پایا جاتا ہے۔ فیض صاحب کا دور استعماریت یعنی Colonialism کے خلاف جدوجہد کا دور تھا۔ استعماریت میں براہ راست قبضہ، نوآبادیاتی حکومت اور وسائل کا استحصال شامل ہے۔ جب کہ فراز صاحب کا دور جدید سامراجی بالادستی یعنی modern Imperial Hegemony کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا دور تھا. جدید سامراجی بالادستی میں بالواسطہ کنٹرول، بین الاقوامی اداروں، اور ثقافتی و اقتصادی اثر و رسوخ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان دونوں صورتوں میں نفسیات، مزاج اور اجتجاج میں بھی فرق ملتا ہے۔
استعماریت اور جدید سماجی بالا دستی دونوں طاقت کے ناجائز استعمال کی ہی صورتیں ہیں لیکن استعماریت اور جدید سماجی بالادستی کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کے درمیان بنیادی فرق ان دونوں کے تاریخی، سیاسی، اور سماجی سیاق و سباق میں پوشیدہ ہے۔
استعماریت (Colonialism) ایک نظام ہے جس میں ایک طاقت ور قوم براہِ راست دوسری قوموں پر قبضہ کر کے انہیں معاشی، سیاسی، اور ثقافتی استحصال کا نشانہ بناتی ہے۔ اس لیے استعماریت کے خلاف مزاحمت زیادہ تر قومی آزادی، خودمختاری، اور ثقافتی تحفظ پر مرکوز ہوتی ہے۔ استعماریت کے خلاف مزاحمت میں دشمن (یعنی استعماری طاقت) واضح ہوتا ہے۔ استعماریت کے خلاف مزاحمت کا مقصد قوموں کو آزادی دلانا ہوتا ہے۔
اس لیے فیض احمد فیض کی شاعری میں نو آبادیاتی طاقتوں کے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج اور مزاحمت ملتی ہے، طبقاتی جدوجہد، مزدوروں اور کسانوں کی حمایت اور آزادی کے حصول کا واضح تذکرہ ملتا ہے۔ ان کی نظمیں ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، یہ سب استعماریت کے خلاف احتجاج ہے۔ ان کی مزاحمت اور احتجاج میں استعماریت کے خلاف جد و جہد کی گہری بازگشت ملتی ہے۔ ان کے کلام میں امید، یقین اور روشن مستقبل کا تصور نمایاں ہے۔
جب کہ جدید سماجی بالادستی modern Imperial Hegemony کے خلاف مزاحمت سماجی انصاف، برابری، اور معاشرتی و اقتصادی ناانصافیوں کے خلاف ہوتی ہے۔ جدید سماجی بالادستی کے خلاف مزاحمت میں دشمن زیادہ پیچیدہ اور غیر واضح ہوتا ہے، جیسے کہ غیر مرئی طاقت کے ڈھانچے، عالمی مالیاتی ادارے، اور بڑی کارپوریشنز۔ جدید سماجی بالادستی کے خلاف مزاحمت کا مقصد عالمی اور مقامی سطح پر سماجی انصاف اور برابری کا حصول ہوتا ہے۔
اس لیے احمد فراز کی شاعری میں جدید دور میں آزادی سلب کرنے اور عالمی طاقتوں کی بالواسطہ مداخلت کے خلاف غم اور احتجاج ملتا ہے۔ یعنی فیض صاحب کی بغاوت کا محور استعماریت تھی لیکن فراز صاحب کی بغاوت کا محور جدید سامراجی اور سیاسی بالادستی تھی۔ فراز صاحب کی شاعری میں گہری ناراضی اور احتجاج کا رنگ ہے، جیسے کالی دیوار، مت آوازوں کو قتل کرو، بانو کے نام وغیرہ میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ وہ جدید دور کی سیاسی اور سماجی بے اعتدالیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور ان کے خلاف ان کی شاعری میں غم و غصہ نمایاں ہے، جدید جبر اور سیاسی منافقت کا پردہ فاش کرنے کا رویہ موجود ہے۔ یہ بنیادی فرق ان دونوں کے مزاحمتی کلام کو ایک دوسرے سے مختلف اور منفرد کر دیتا ہے۔
اس فرق کو سمجھ لینے کے بعد فراز صاحب کی مزاحمتی شاعری کی انفرادیت سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے اور ہم ان کے معاشرتی اور سیاسی شعور کی بالیدگی کو سمجھ سکتے ہیں۔