پیر 26 جولائی 2024ء کو نامور لیکھک، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار اور کئی اردو اور سرائیکی کتابوں کے مصنف مرشد نذیر لغاری دماغ کی ایک شریان متاثر ہونے سے بسترِ علالت پر آ گئے تو اُن سے محبت اور عقیدت رکھنے والے احباب میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ سرائیکی وسیب، ملک اور بیرون ملک سے ان کے چاہنے والوں کی ٹیلی فون کالوں کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا اور سوشل میڈیا پر بھی استفسارات کا تانتا بندھ گیا، ہر شخص ان کی صحت سے متعلق فکر مند تھا۔ نذیر لغاری بلا شبہ محبوب نما شخصیت ہیں، اس لیے ان کے یاروں اور دل داروں کا اُن کی زندگی سے متعلق متذبذب ہونا جائز بنتا ہے۔ پہلے ہی روز ’’انڈس اسپتال‘‘، ’’قومی ادارہ برائے امراضِ قلب‘‘ اور پھر ’’آغا خان اسپتال‘‘ تک بروقت رسائی اور احباب کی بے پناہ دعائوں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مرشد نذیر لغاری کے لیے جلد صحت یابی کے در وا کر دیے۔ وہ دس روز ’’آغا خان اسپتال‘‘ میں زیر علاج رہنے کے بعد ’’فالکن کمپلیکس‘‘ ملیر کینٹ میں اپنی رہائش گاہ منتقل کر دیے گئے جہاں ان کے اہل خانہ نے انہیں اسپتال جیسی مناسب اور موزوں سہولتیں بہم پہنچا کر ہمیں کسی بھی غیر طبی صورت حال کے خدشے سے بے نیاز کر دیا ہے۔ بھابھی عابدہ بتول، صاحب زادہ سرفراز لغاری اور صاحب زادیاں شب و روز ان کی خدمت اور دیکھ بھال پر مامور ہیں۔ ایک میل نرس صبح سے شام تک ان کی فزیو تھراپی اور ادویہ کی بروقت فراہمی کے لیے موجود رہتا ہے اور الحمدللہ! وہ تیزی سے رُو بہ صحت ہو رہے ہیں۔ ملیر کینٹ میں ان تک رسائی خاصا دشوار کن مرحلہ ہے لیکن اس کے باوجود احباب انہیں مل کر دعائیں دینے بھی پہنچ رہے ہیں۔
پیر 26 جولائی 2024ء سے بدھ 7 اگست 2024ء تک ان کے ’’آغا خان اسپتال‘‘ کے ’’پرنسز زہرا پیویلین‘‘ میں علاج معالجے کے تمام مرحلوں میں شاہد جتوئی، رشید خان جرانی، اسلم شیخ، ملک ریاض، حمید علی، رزاق شاہد، سید محمد احمد شاہ، ڈاکٹر ایوب شیخ، مظہر عباس، ڈاکٹر طارق محمود، سلطان خان لاشاری، عبدالخالق اِچھا اور میرے علاوہ مختلف کئی وسیبی اور کراچی کی سنگت کے لوگ تواتر سے ان کی مزاج پرسی کرتے اور ان کی زندگی اور صحت سے متعلق حقیقی تصویر سوشل میڈیا پر بھی پیش کرتے رہے۔ اس خبر گیری سے ملک اور بیرون ملک مقیم ان کے احباب پُر امید تھے کہ ایک روز نذیر لغاری اسپتال سے گھر اور گھر سے اُٹھ کر آئیں گے اور ہمارے درمیان بیٹھ کر وہی روایتی انداز میں قہقہے بکھیر رہے ہوں گے۔ اسی دوران اتوار 11 اگست 2024ء کی علی الصباح اچانک سوشل میڈیا پر ایک اندوہ ناک افواہ ’’نذیر لغاری زندگی کی بازی ہار گئے‘‘ نے ہمیں ورطہ حیرت و غم میں مبتلا کر دیا۔ 10 اگست 2024ء کی رات تک ہم یہ اطمنیان لے کر بستروں میں دبکے تھے کہ ’’الحمدللہ! اب سب ٹھیک ہے‘‘، اس ایک افواہ نے تشویش کی لہر دوڑا دی، کسی نے اپنی خواہش کو افواہ کا روپ دے دِیا تھا، پھر وہی سوشل میڈیا کی بے ڈھنگی بھیڑ چال، کسی نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی اور سارا سوشل میڈیا نذیر لغاری کی ’’موت‘‘ کی ’’بریکنگ نیوز‘‘ سے اٹ گیا۔ شاہد جتوائی اور مین نے ایک بار پھر میدان میں آ کر مرشد نذیر لغاری کی اللہ کے فضل و کرم سے ’’بہ قید حیات‘‘ ہونے کا مژدہ سنا کر افواہوں کی اس بہتات کو روکنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کی لیکن سوشل میڈیا کے بد قماش اداکاروں اور بروقت خبر رسانی کے دعوے دار بزعم خود بڑے صحافیوں کی عاقبت نا اندیشی کا سلسلہ پھر بھی نہ رُک سکا۔ اس افواہ کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے نذیر لغاری کی زندگی میں خیر و برکت عطا کر دی ہے اور وہ بڑی تیزی سے زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ الحمدللہ! اب وہ جب بھی کسی دوست کو اپنے قریب پاتے ہیں تو کھلکھلا اٹھتے ہیں اور مکمل وابستگی اور والہانہ پن کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔
اتوار 25 اگست 2024ء کو شاہد جتوئی اور رشید خان جرانی جبکہ راقم اسلم شیخ، ملک ریاض اور حمید علی دو الگ مختصر قافلوں کے ساتھ، مشتاق فریدی سئیں کی شفقتوں کی وجہ سے ملیر کینٹ کے مرکزی داخلی دروازے کی چھلنی میں چھن کر مرشد نذیر لغاری کے ’’آستانے‘‘ پر پہنچے اور ان کے ساتھ کئی گھنٹے گزارے۔ اتنے سارے دوستوں کو ایک ساتھ اپنے قریب پا کر وہ واقعی کھلکھلا اُٹھے اور فرط جذبات سے ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس لمحے ان کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، وہ خود کو کہیں آسمانوں میں اُڑتا ہوا محسوس کر رہے ہوں گے کہ ان کے سارے چُلبُلے دوست ایک ساتھ اُن کے ارد گرد موجود تھے۔ کئی گھنٹوں تک مجلس جمی، دنیا جہان کی باتیں، ہوئیں، لطیف چلے، دوستوں نے کھانے کے دستر خوان پر لذیز سندھی بریانی سے انصاف کیا، چائے کا دور بھی چلا۔ کھانے کے بعد پھر ایک بار قومی صحافت، پاکستانی و عالمی سیاست، سرائیکی وسیب کے مستقبل اور غیر حاضر دوستوں کے تذکروں سے محفل جگمگا اٹھی۔ جب تک انہوں نے نہیں چاہا، ہم ان کے ارد گرد جمے رہے۔ مشتاق فریدی ان دنوں امریکا میں ہیں، ان کی کمی شدت سے محسوس کی گئی لیکن ان کا شکریہ کہ وہ دیار غیر میں بیٹھ کر بھی ملیر کینٹ میں داخلے کا وسیلہ بن رہے ہیں۔ نذیر لغاری ’’بیڈ‘‘ کے سہارے اٹھ کر بیٹھ گئے، وہ بولنا چاہتے ہیں لیکن ابھی قوت گویائی کا مکمل یارا نہیں لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ ’’تاریخ لب کشائی کے لیے مضطرب ہے‘‘۔ میں نے اُن تک احسن واگھا، صفدر بلوچ، اخلاق احمد، پروفیسر عبدالغفور بلوچ، چاچا مظہر محسن، میاں طارق، سجاد عباسی، گل محمد فیضی، تنویر آفریدی، قیسر مسعود جعفری اور اُن سیکڑوں دوستوں کے جذبات اور دعائیں اُن تک پہنچائیں جنہوں نے فون کر کے اور بالمشافہ ان کی خیریت دریافت کی تھی اور دعاائیں پہنچانے کا حکم دیا تھا۔ ان شااللہ وہ دن دور نہیں کہ جب ہم آپ کو ان سے تبادلہ خیال کی خوش خبریاں آپ تک پہنچائیں گے بلکہ وہ دن بھی دور نہیں کہ جب نذیر لغاری مکمل صحت یابی کے بعد ایک بار پھر ہمارے درمیان موجود ہوں گے اور فضا میں ان کے وہی روایتی نقرئی قہقہے بکھر رہے ہوں گے۔