دہلی اور اسلام آباد دونوں متفکر ہیں کہ کیا ڈھاکا میں آنے والا رنگین انقلاب ان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے ۔ یہ دونوں حکومتیں نہ صرف متفکر ہیں بلکہ انہوں نے پیش بندی کے لیے اقدامات بھی شروع کردیے ہیں ۔ رنگین انقلابات کی toolkit سے واقف دونوں حکومتیں اس وقت صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہیں ۔ مثال کے طور پر انہیں معلوم ہے کہ رنگین انقلاب کے لیے ہمیشہ سے نوجوان قیادت سامنے لائی جاتی ہے جس کا پہلے سے کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا ۔ مذکورہ ملک کے عوام اور دنیا کو بتانے کے لیے عوامی مسائل کا سہارا لیا جاتا ہے۔کسی بھی اچانک حادثے سے احتجاج شروع ہوتا ہے اور پھر معاملہ حکومت کی تبدیلی پر منتج ہوتا ہے ۔ اس پورے معاملے میں سول سوسائٹی ، دایاں بازو، بایاں بازو، حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں ، اسٹیبلشمنٹ سب ایک پیج پر ہوتے ہیں ۔ جھوٹی سچی کہانیوں کے پھیلاؤ اور عوامی جذبات کو ابھارنے کے لیے سوشل میڈیا اہم ترین کردار ادا کرتا ہے جس کے لیے انٹرنیٹ اہم ترین ہے ۔پاکستان اور بھارت کے شدید خوف کا اندازہ ہم حال میں کیے جانے والے سرکاری اقدامات سے کرسکتےہیں ۔ مثال کے طور پر پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست ترین رفتار بلکہ بعض اوقات بند ہی ہونا اور سوشل میڈیا ایپس کا ڈاؤن لوڈ نہ ہونا ۔ 10 اگست 2024 کو پاکستان کی وزارت داخلہ نے ایک پریس ریلیز جاری کیا جس میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے تمام شرپسند عناصر جو نوجوان طلبہ کو احتجاج کے لیے ابھارنے کی کوشش کریں گے ، کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیے جائیں گے۔ اسی پریس ریلیز میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ فورتھ شیڈول میں نام ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بلا اجازت شہر چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ان کے قومی شناختی کارڈ وپاسپورٹ منسوخ کردیے جائیں گے اور انہیں کیریکٹر سرٹیفکٹ جاری نہیں کیے جائیں گے ۔ اس پریس ریلیز پر غور فرمائیے کہ حکومت پاکستان کو اچانک ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پڑی اور اس میں عوام کو احتجاج پر ابھارنے کے بجائے نوجوان طلبہ کو احتجاج پر ابھارنے کی اصطلاح کیوں استعمال کی گئی ۔جیسا کہ میں نے کہا کہ رنگین انقلاب کی toolkit میں یہ شامل ہے کہ کسی بھی حادثے سے احتجاج شروع ہوتا ہے اور پھر اس میں سرکار میں شامل بین الاقوامی سازش کاروں کے ایجنٹ (دیکھنے میں حماقت آمیز) اقدامات کے ذریعے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں ۔ یوں احتجاج کا دائرہ بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ بتدریج اس میں تشدد کاعنصر بھی شامل کیا جاتا ہے اور پھر آخری مطالبہ حکومت کی تبدیلی ہوتا ہے۔ بھارت میں کلکتہ میں ایک خاتون ڈاکٹر کو جنسی زیادتی کے بعد شدید تشدد کے بعد قتل کے نتیجے میں ہونے والے احتجاج پر اس زاویے سے نگاہ تو ڈالیے کہ صورتحال کس تیزی سے اس جانب بڑھتی نظر آرہی ہے ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بھارت میں رنگین انقلاب کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ بنگلا دیش میں بھی 2018 میں Road Safety Movement شروع کی گئی تھی جو ملک گیر احتجاج میں تبدیل ہونے کے باوجود ختم ہوگئی تھی ۔ مگر ڈھاکا میں رنگین انقلاب کے بعد دہلی لرزہ براندام ہے کہ کہیں نوجوان ڈاکٹروں کا احتجاج رنگین انقلاب میں تبدیل نہ ہوجائے ۔ ویسے بھی مودی اور حسینہ واجد میں بہت مماثلت ہے ۔ دونوں کو اقتدار میں آئے طویل عرصہ ہوگیا ۔ دونوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ۔ دونوں نے حزب اختلاف کو دیوار سےلگایا اور کچل کر رکھ دیا ، دونوں حکمرانی کے نشے میں کسی کو خاطر میں نہیں لائے ۔ اگلا ایک ہفتہ بتانے کے لیے کافی ہوگا کہ بھارت کس راستے پر ہے ۔رہا پاکستان تو یہاں پر رنگین انقلاب کا خطرہ اس لیے نہیں ہے کہ یہاں پر عوام ناامید ہوچکے ہیں ۔ انہیں نہ تو کسی سیاستداں پر اب اعتماد رہا ہے اور نہ ہی عدلیہ پر ۔ بنگلا دیش میں فوج ایک ایسی قوت تھی جو ایک بڑے عرصے سے اقتدار میں نہیں تھی اس لیے اس کے سارے پاپ بھول کے اشنان میں دھل چکے تھے ۔ پاکستان میں تو شکایت ہی عوام کو فوج سے ہے ۔ تو اب حکومت تبدیل ہوگی تو اس کی جگہ کس کو لایا جائے گا ۔ دور دور تک کوئی نہیں ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ اس کے لیے تیکنیکی ماہرین پر مشتمل ٹیم لائی جائے گی مگر اس کے تجربے بھی پاکستان کئی مرتبہ دیکھ چکا ہے اور اس کے نتائج بھی ۔ یوں پاکستان اب رنگین انقلاب سے بہت آگے بڑھ چکا ہے اور تقسیم در تقسیم کے راستے پر تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے ۔بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں حکومت کی رٹ مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ کوئی بھی وردی والا چاہے جس ادارے سے تعلق رکھتا ہو ، چاہے جس محکمے سے تعلق رکھتا ہو، ان دونوں صوبوں میں خود اپنے تحفظ کے خوف میں مبتلا ہے ۔ پہلے رات کی تاریکی میں شرپسند عناصر کا راج ہوتا تھا تو اب دن کی روشنی میں بھی ان کی حکومت ہے ۔ ان دونوں صوبوں میں ہم سانحہ 1971 سے ذرا پہلے کی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں کہ عوام میں شرپسندوں کے لیے ہمدردی کے جذبات موجود ہیں اور روز بہ روز اس میں اضافہ ہو رہا ہے ۔گلگت بلتستان پر پہلے ہی چین نظریں گاڑے بیٹھا ہے اور وہ وہاں پر مختلف علاقائی اور مذہبی منافرت کو کامیابی سے ہوا دے رہا ہے ۔ سی پیک پر کام کرنے والے چینیوں کی حفاظت کے نام پر چینی محافظ پہلے ہی اس علاقے میں وارد ہوچکے ہیں ۔ گو کہ اس وقت یہ قلیل تعداد میں ہیں مگر ہیں تو صحیح اور مزید کسی چینی انجینئر پر مشتبہ حملے اور مارے جانے کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ میں کتنی دیر لگتی ہے ۔اسے حکومت میں بیٹھے عالمی سازش کاروں کے ایجنٹوں کی کمال فنکاری کہیں کہ سرکاری حماقتیں ، آزاد کشمیر میں پہلی مرتبہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور ان کے قافلوں کو روک کر واپس جانے پر مجبور کیا گیا ۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ حالات جاری رہے تو خاکم بدہن ایسا نہیں لگتا کہ آئندہ چار پانچ برس بعد پاکستان کا جغرافیہ یہی رہے گا ۔مگر بھارت اور پاکستان میں سرکار شدید خوف میں مبتلا ہے ۔ نادیدہ دشمن کے سائے سے بھی ڈرنا ، جسے بھی دشمن سمجھا جائے اسے کچل دینے کی پالیسی پر عمل ایسے عوامل ہیں جو ان کی بوکھلاہٹ کو بھی ظاہر کررہے ہیں اور اس عمل کو انگیز بھی کر رہے ہیں ۔ اگر رنگین انقلاب کو یا تقسیم کے عمل کو روکنا ہے تو عوام دوست بننا ہوگا ۔ مگر راج کے سنگھاسن پر بیٹھے افراد کے لیے یہ سب سے مشکل کام ہے ۔ وہ اس کا مصنوعی مظاہرہ تو چند لمحوں کے لیے کرسکتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرسکتے ۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔