شیخ حسینہ واجد کہیں سے بھی اسلامی فکر و ذہن کی حامل نہیں تھیں بلکہ انہیں اسلام اور اسلام کے ماننے والوں سے شدید بغض تھا بلکہ یہ کہا جائے کہ اسلام کے خلاف ان کی جو خدمات ہیں وہ کسی بھی غیر مسلم سے کہیں زیادہ ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا ، وہ کرنے کا تو غیر مسلم بھی نہیں سوچ سکتے تھے ۔ خود بنگلا دیش کے مسلمان شہریوں کو جس طرح سے انہوں نے محض اس پاداش میں سولی پر چڑھایا یا پھر جیلوں میں بند کیا کہ وہ اسلام کے نام لیوا تھے ، اس کی مثال بھارت اور اسرائیل کے علاوہ کہیں اور سے ملنا مشکل ہی ہے ۔ اس لیے یہ سوچنا کہ حسینہ واجد کو اس لیے ہٹایا گیا کہ وہ ایک مسلم ملک کی حکمراں تھیں یا اسلام کا پھیلاؤ چاہتی تھیں ، احمقانہ بات ہے ۔تو پھر شیخ حسینہ واجد کو ہٹانے کی کیا وجہ تھی ؟ کیا اس کی وجہ وہی تھی جو حسینہ واجد بیان کرتی رہی ہیں کہ امریکا بنگلا دیش کے عیسائی اکثریتی قبائلی علاقے کو الگ کرکے ایک علیحدہ ریاست بنانے کا خواہاں ہے اور بنگلا دیش کے ایک جزیرے پر اپنا فوجی مستقر بنانا چاہتا ہے کہ علاقے پر سے چینی اثر و نفوذ کو زائل کرسکے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کو بنگلا دیش میں ایک امریکی اڈے کی ضرورت کیوں ہے ۔ بنگلا دیش کے عین مقابل بحر ہند میں دنیا میں امریکا کا سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ڈیگو گارشیا موجود ہے ۔ امریکا کو بحر ہند کے بحری ٹریفک کو کنٹرول کرنا ہے تو اس کے لیے ڈیگو گارشیا ہر لحاظ سے بہترین ہے ۔ اس کے لیے خلیج بنگال کے دور افتادہ کونے میں سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کر کے چین سے مزید مخاصمت کیوں مول لی جائے ۔ اگر خطہ میں چینی اثر و نفوذ کا خاتمہ ہی مقصود ہے تو زیادہ بہترین بھارت کے منی پور، میزورام اور ناگا لینڈ کے علاقے ہیں جہاں پہلے سے ہی علیحدگی کی تحاریک زوروں پر ہیں اور یہ علاقے چین کے بھی زیادہ نزدیک ہیں اور خلیج بنگال کے کونے پر نہیں بلکہ درمیان میں ہیں جہاں سے بحر ہند زیادہ نزدیک ہے ۔ اگر بھارت کے ان سرحدی علاقوں میں امریکی چوکیاں یا اڈے قائم ہوجائیں تو یہ چین ، بھارت ، بنگلا دیش ، سری لنکا سب کے سر پر بیٹھا ہوگا ۔ اس طرح یہ بات محل نظر ہے کہ امریکا بنگلادیش کے سرحدی علاقے کو الگ کرکے وہاں پر اپنا فوجی مستقر بنانا چاہتا ہے ۔تو پھر حسینہ واجد کا ایسا کیا قصورتھا کہ انہیں ہٹانے کے لیے باقاعدہ ایک تحریک برپا کی گئی اور وہاں پر رنگین انقلاب لایا گیا ۔ ہر چیز کی ایک شیلف لائف ہوتی ہے ۔ حسینہ واجد سب کچھ بہترین کررہی تھیں مگر ان کی شیلف لائف پوری ہوچکی تھی ۔ ان کے اقدامات کے خلاف عوام میں غم اور غصہ اپنی انتہا پر پہنچ چکا تھا ۔ ایسے میں کوئی بھی چنگاری انہیں جلا کر خاکستر کرسکتی تھی ۔ اس لیے بجائے اس کے کہ انہیں کوئی اور طاقت ہٹا کر اپنا مہرہ لائے ، بہتر ہے کہ خود ہی تبدیل کرکے روبوٹ کا نیا ماڈل لایا جائے ۔ حسینہ واجد کو ہٹانا ایسا ہی ہے جیسے کھیل کے دوران اچانک کسی ٹیم کا کوچ سات نمبر کھلاڑی کو میدان سے باہر بلا کر پندرہ نمبر کھلاڑی کو میدان میں اتار دے ۔ جس طریقے سے حسینہ واجد کو ہٹایا گیا ، اگر یہ طریق کار اختیار نہ کیا جاتا اور پرامن انتقال اقتدار ہو جاتا تو عوام کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا ۔ اب بنگلادیشی عوام اگلے سات آٹھ برس تک کچھ نہیں بولیں گے اور عالمی استعمار کے ایجنٹ ان کے ساتھ وہ ہاتھ کرجائیں گے جو مطلوب ہے ۔میں نے گزشتہ قسط میں اپنے ایک دوست سہیل صدیقی کا تذکرہ کیا تھا ۔ جب شوکت عزیز پاکستان لائے گئے تھے ، اس وقت سہیل صدیقی نے کہا تھا کہ جب کسی ادارے کی liquidation مقصود ہوتی ہے تو اس ادارے کی سربراہی بینکار کے سپرد کردی جاتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ا ب پاکستان ایک بینکار شوکت عزیز کے سپرد کردیا گیا ہے ، اس کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ شوکت عزیز کہیں سے بھی مشرف کی ٹیم میں شامل نہیں تھے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ فوجیوں کے علاوہ اور کوئی بھی مشرف کی ٹیم میں شامل نہیں تھا ۔ شوکت عزیز کی طرح کے افراد بین الاقوامی بینکاروں نے چھاتے کے ذریعے پاکستان میں اتارے تھے اور وہ اپنا مشن بخوبی مکمل کرکے چلے گئے ۔ اسی طرح ایک بینکار کا بنگلادیش میں تقرر اس امر کی طرف نشاندہی کررہا ہے کہ پاکستان کی طرح اب بنگلادیش کی بھی liquidation کا عمل شروع کردیا گیا ہے ۔اب عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایات کے عین مطابق آئندہ چند برسوں میں بنگلا دیش کی معیشت کا وہی حال ہونے والا ہے جو پاکستان کا کردیا گیا ہے ۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے ، ہم ایک عالمی حکومت کے قیام کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ ایک عالمی حکومت کے قیام کے بلیو پرنٹ کے مطابق اس کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اور پھر انہیں دس نئے انتظامی یونٹوں کے زیر انتظام لانا شامل ہے ۔ بنگلا دیش میں ابھی نیا نیا انقلاب آیا ہے ۔ لوگ فتح کی خوشی میں رقص و بیخودی کے عالم میں ہیں ۔ جتنے بھی اہم فیصلے کرنے ہیں ، یہ عبوری حکومت تیزی سے وہ تمام اقدامات کر گزرے گی ۔ بعد میں ان پر عملدرآمد ہوتا رہے گا ۔اب آخری اور اہم سوال بچتا ہے کہ کیا ڈھاکا میں آنے والا رنگین انقلاب دہلی اور اسلام آباد کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے ۔ اس سوال پر گفتگو اگلے آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔