جس وقت بنگلا دیش میں طلبہ تحریک عروج پر تھی اس زمانے میں بھارتی حکام سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے ماضی کی پالیسیوں کے برعکس اسے بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا ۔ کیا سچ مچ یہ بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ تھا یا پھر اس میں بیرونی عناصر بھی ملوث تھے ۔ یہ اہم ترین سوال ہے ۔ بیرونی عناصر کے بارے میں گفتگو سے قبل اندرونی عناصر پر گفتگو کرتے ہیں ۔دیکھنے میں صف بندی دو پارٹیوں کے درمیان تھی ۔حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور اس کی اتحادی جماعتیں اور خالدہ ضیاء کی نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت اس کی اتحادی جماعتیں ۔ یہ تو سیاسی صف بندی تھی ۔ پاکستان کی طرح بنگلا دیش میں بھی فوج کا اہم ترین کردار ہے اور جب بھی موقع ملا ، فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ حسین محمد ارشاد کے مارشل لاء کے بعد بنگلادیش کی فوج براہ راست اقتدار میں نہیں آ سکی ہے یا یوں کہیے کہ احساس محرومی کا شکار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی موقع ملا بنگلا دیشی فوج کے سپہ سالار وقار الزماں نے حسینہ واجد سے قرابت داری اور ساتھ دینے کے قول و قرار کے باوجود اپنا سارا وزن خالدہ ضیاء کے پلڑے میں ڈال دیا کہ اس طرح اقتدار سے ترسی ہوئی فوج کو عبوری حکومت سے ہی کچھ حصہ مل جائے ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اگر فوج حزب اختلاف کا ساتھ نہ دیتی اور حسینہ واجد کو ضیا ء الرحمٰن کے مارشل لاء کی یاد نہ دلاتی تو حسینہ واجد یوں جان بچا کر فرار نہ ہوتیں کہ جان ہے تو جہاں ہے ۔ فوج نے pull n push دونوں کیا ۔ ایک طرف تو ضیاء کے مارشل لاء کی تصویر کشی کرتے ہوئے بتایا کہ فوج میں اضطراب ہے اور اگر حسینہ واجد نے اقتدار نہ چھوڑا تو جونیئر افسران حملہ آور ہو کر ان کی تکہ بوٹی کر سکتے ہیں ۔ اس طرح سپہ سالار صاحب کے ہاتھ سے معاملہ نکل جائے گا ۔ دوسری جانب حسینہ واجد کو محفوظ راستہ دینے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا گیا کہ فیصلہ کرنے کا وقت کم ہے ۔ انہیں دباؤ میں لانے کے لیے مظاہرین کو ایوان وزیرا عظم کی جانب مارچ کرنے کے لیے فری ہینڈ دیا گیا ۔ اس طرح سے مرضی کے مطابق انتقال اقتدار بھی ہوگیا اور بدنامی بھی نہ ہوئی بلکہ مفت میں قوم کے ہیرو بھی بن گئے ۔اب آتے ہیں بیرونی عناصر کی طرف ۔ ممکنہ طور پر یہ بھارت ہوسکتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے بنگلا دیش، نیپال اور بھوٹان وغیرہ کو سیٹلائٹ ریاستیں تصور کرتا ہے ۔ مگر حسینہ واجد تو مودی جی کی کٹھ پتلی تھیں تو ان کے خلاف بھارت کوئی تحریک کیوں چلائے گا ۔ اس طرح بھارت تو نہیں ہوا ۔ تو پھر کیا یہ چین ہے ۔ مگر چین کے ساتھ بھی حسینہ واجد اچھی equation میں تھیں ۔ اس طرح سے بھارت کی طرح چین بھی اس معاملے میں نہیں ہے ۔ بھارت نے اس ضمن میں پاکستان کا پرزور انداز میں نام لیا ہے اور کہا ہے کہ آئی ایس آئی اس پورے معاملے میں instrumental رہی۔ اپنے الزامات کو درست ثابت کرنے کے لیے انہوں نے سعودی عرب اور برطانیہ میں آئی ایس آئی کے افسران کی خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمٰن سے ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ پاکستان اس وقت خود اپنے اندرونی مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔ اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران سے اس کے تعلقات کشیدہ ہیں ، چین سے بھی معاملات سردمہری کی جانب جارہے ہیں ۔ بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں یہ دہشت گردی کا شکار ہے ۔ ایسے میں یہ کسی اور ملک میں کارروائی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ رہی بات طارق رحمٰن سے ملاقاتوں کی تو ، اس بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے ۔ اس طرح پاکستان بھی بیرونی عناصر کی فہرست سے کٹ گیا ۔ اب آخری نام امریکا کا بچتا ہے جس پر حسینہ واجد نے خود بھی الزام لگایا ہے ۔کیا یہ واقعی امریکا ہی ہے جس نےحسینہ واجد کا تخت الٹا ہے ۔ اسے دیکھتے ہیں ۔
یہ امریکا تو نہیں ہے مگر امریکا اور برطانیہ سے آپریٹ کی جانے والی تنظیمیں ضرور ہیں ۔ جنہیں بین الاقوامی سازش کار استعمال کرتے ہیں ۔ یہ بات تو طے ہے کہ اس طرح کی تبدیلی حکومت میں اب بیرونی عناصر براہ راست مداخلت نہیں کرتے بلکہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے صورتحال کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ اب دنیا میں مرضی کی حکومت کی تبدیلی لانے کے لیے باقاعدہ مینوئل ہے جسے colour revolution یا رنگین انقلاب کہا جاتا ہے ۔ فروری 2018 میں رنگین انقلابات کے عنوان سے پانچ آرٹیکلز پر مبنی ایک سیریز میں نے لکھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ تبدیلی اقتدار کے لیے کس طرح بیرونی عناصر کام کرتے ہیں ۔ (یہ کالم ویب سائٹ کی فروری 2018 کی آرکائیو میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ) ۔ اس سیریز میں بہار عرب سمیت دیگر ممالک میں تبدیلی حکمراں کا تجزیہ کیا گیا تھا کیا شرق ہو کیا غرب ، ہر جگہ حکمراں کی تبدیلی کے لیے نوجوانوں کو ہی استعمال کیا گیا ۔ رنگین انقلابات میں ایک اور قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ اس میں بالکل ایک نئی قیادت سامنے لائی گئی ۔ تو اس طرح ہمیں بنگلا دیش میں بھی براہ راست بیرونی عناصر نظر نہیں آتے تاہم اگر وہ موجود ہیں تو ہم ان کی شناخت ضرور کرسکتے ہیں ۔ رنگین انقلابات میں ایک بات اور اہم ہے کہ اس مینوئل کے ذریعے یا تو روس کے زیر اثر ممالک میں regime change یا حکومت کی تبدیلی لائی گئی یا پھر مسلم ممالک میں ۔ یہ تبدیلیِ حکومت ایک طرح کا انقلاب ہی ہوتی ہے کہ تبدیلی کے ذریعے آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کے بالکل برعکس ہوتی ہے ۔ اس کی خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی ہو یا معاشی پالیسی ، وہ گزشتہ حکومت کے مقابلے میں 180 درجے کے زاویے پر ہوتی ہے ۔اب اس زاویے سے ہم طلبہ تحریک کا جائزہ لینا شروع کرتے ہیں کہ کیا یہ بھی رنگین انقلاب تھا ۔ بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کا بغور جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ رنگین انقلاب کے مینول کے عین مطابق ہے ۔ بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ اس میں کوئی مخصوص رنگ استعمال نہیں کیا گیا البتہ انقلابیوں نے شناخت کے لیے ماتھے پر بنگلہ دیشی پرچم ضرور باندھا۔ اس میں بھی ایک انقلابی نعرہ "میں کون ، توکون ۔ رضاکار رضاکار ” coin کیا گیا ۔ اس میں بھی پرانے سیاسی کارکنان کی جگہ طلبہ کو استعمال کیا گیا ۔ چوبیس پچیس سالہ نئی لیڈر شپ بنائی گئی جس کا پہلے کہیں تذکرہ بھی نہیں تھا ۔ پرانے سیاست دانوں یا پارٹیوں کی جگہ نئے tools استعمال کیے گئے جس میں این جی اوز المعروف سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا سرفہرست ہیں ۔ دیگر رنگین انقلابات کی طرح انقلابیوں میں دائیں اور بائیں کی کوئی تخصیص نہیں تھی اور وہ باہم شیر و شکر تھے ۔یہ جاننے کے بعد کہ بنگلادیش بھی رنگین انقلاب کی سازش کا شکار ہوا ہے ، ہمارے لیے معاملات کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے ۔ ہم جان سکتے ہیں کہ تحریک کے فنانسر کون ہیں ، اور سب سے بڑھ کر وہ چاہتے کیا ہیں ۔میں یہ بات بارہا لکھ چکا ہوں کہ نیو ورلڈ آرڈر کے سازش کاروں نے اپنے سارے کام تقسیم کر رکھے ہیں اور کوئی کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتا ۔ جیسا کہ دنیا بھر میں نئی بیماریوں کا پھیلاؤ ، انہیں وبائی صورت دینا اور دنیا بھر میں زبردستی ویکسین لگا کر طویل مدتی اہداف کا حصول (کل ہی اقوام متحدہ نے غزہ میں سات روزہ جنگ بندی کی اپیل کی ہے کہ وہاں پر پولیو ویکسین لگائی جاسکے ۔ غور کیجیے ، اقوام متحدہ کو معصوم بچوں کے مارے جانے کی کوئی فکر نہیں ہے مگر پولیو ویکسین کی فکر ضرور ہے ) ، یہ سب ملنڈا ینڈ بل گیٹس فاؤنڈیشن کا کام ہے ۔ بل گیٹس اور ملنڈا میں طلاق ہوگئی مگر فاؤنڈیشن اسی طرح intact ہے اور وہ دونوں بھی اس میں اتنے ہی دلچسپی سے کام کررہے ہیں کہ اوپر سے حکم یہی ہے ۔ باقی سارے ادارے اور افراد ان کی ہر طرح سے ضرورت کے مطابق مدد ضرور کرتے ہیں مگر اس کام میں مداخلت کے مجاز نہیں ہیں ۔ اسی طرح دنیا بھر میں colour revolution لانے کی ذمہ داری جارج سوروز کی این جی او Open Society Foundation یا OSF کے سپر د ہے ۔اب دیکھتے ہیں کہ OSF نے کس طرح سے بنگلا دیش میں کام کیا ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔