سب سے پہلے طویل غیر حاضری پر معذرت ۔ گو کہ متعدد دوستوں نے بارہا اس بارے میں تقاضا بھی کیا مگر طبی وجوہات کی بناء پر لکھ نہیں پایا ۔ پوری دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں لکھنا شروع کیا تھا اور اس کی ابتدا امریکا میں متوقع سول وار سے کی تھی کہ سلسلہ منقطع ہوگیا ۔ اسی سلسلے کو دوبارہ بنگلا دیش سے شروع کرتے ہیں کہ یہ واقعہ حال کا ہی ہے اور احباب اس کے بارے میں جاننے کے مشتاق بھی ۔
گزشتہ پندرہ برس سے برسراقتدار حسینہ واجد کے5 اگست کو بھارت فرار کے ساتھ ہی بنگلا دیش میں ان کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا ۔ پاکستان سے 45 دن چھوٹی حسینہ واجدکی پیدائش 28 ستمبر 1947 کو مشرقی بنگا ل کے علاقے تنگی پاڑہ میں ہوئی تھی ۔ اِس وقت ان کی عمر 77 برس کے لگ بھگ ہے ۔ اِس طرح ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات کم ہی ہیں ۔ فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ اور گرفتاری کی دھمکی کے بعد حسینہ واجد نے 5 اگست کو ایوان وزیر اعظم انتہائی عجلت میں چھوڑا اور وہ فوج کی حفاظت میں ایک کار میں روانہ ہوگئیں ۔ پہلے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انہیں فضائیہ کے ہوائی اڈے پر پہنچایا گیا جہاں سے فضائیہ کے ہی C 130 طیارے میں انہیں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے قریب غازی آباد پہنچایا گیا ۔ جہاں پر مودی کے خاص ساتھی اور مشیر برائے قومی سلامتی اجیت ڈووال نے سینئر فوجی افسران کے ہمراہ ان کا استقبال کیا ۔ اس وقت حسینہ واجد نئی دہلی میں کسی خفیہ مقام پر ہاؤس اریسٹ ہیں ۔ ان سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ حسینہ واجد کی بیٹی جو اقوام متحدہ میں ملازم ہیں ، نئی دہلی میں موجود ہونے کے باوجود ان کو بھی حسینہ واجد سے ملنے کی بھارتی حکومت نے اب تک اجازت نہیں دی ہے ۔
کہا گیا کہ عوامی جدوجہد نے حسینہ واجد کو حکومت چھوڑنے کے ساتھ ساتھ ملک چھوڑنے پر بھی مجبور کردیا ۔ کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے ؟ اس کے ساتھ ہی اور بہت سارے سوالات ہیں جن کے جوابات کہیں کہیں بین السطور تو ملتے ہیں مگر واضح طور پر کہیں موجود نہیں ہیں ۔ مثال کے طور پر کیا سچ مچ بنگلا دیش میں طلبہ تحریک اچانک شروع ہوئی ، کیا یہ طلبہ تحریک کی شدت تھی جس سے حسینہ واجد کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا ، کیا یہ بھارت ، چین اور امریکا کی لڑائی تھی یا پھر یہ بنگلا دیش کا خالص اندرونی معاملہ تھا، کیا اس میں پاکستان کا بھی کوئی کردار تھا یا یہ محض بھارت کی الزام تراشی ہے اور سب سے اہم ترین سوال کہ اس تحریک کا مالی معاون کون تھا ۔ کیا بنگلا دیش کی طلبہ تحریک کے ہمسایہ ممالک بھارت ، سری لنکا اور پاکستان پر کوئی اثرات مرتب ہوں گے ۔ پاکستان اور بنگلا دیش کی صورتحال میں کیا مماثلت ہے اور کیا مماثلت نہیں ہے ۔ یہ اور ان جیسے کئی سوالات ہیں جو ذہن میں تو کلبلا رہے ہیں مگر ان کے جوابات کہیں پر موجود نہیں ہیں ۔ہر طرف سےمحض وہ کچھ سامنے آرہا ہے جو اسٹیج پر پرفارم کیا جارہا ہے ۔ اس کا اسکر پٹ کیا ہے ، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کون ہیں اور کلائمیکس کیا ہے ، یہ کوئی نہیں بتا رہا ۔ آئیے پہلے ان سوالات کے جوابات ایک ایک کرکے بوجھتے ہیں اور پھر ان نقاط کو جوڑ کر دیکھتے ہیں کہ کیا تصویر سامنے آتی ہے ۔
موجودہ بنگلادیش یا سابقہ مغربی بنگال میں طلبہ تحریک کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ بنگلا دیش کو وجود میں لانے میں یونیورسٹیوں کے طلبہ نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا جن کی برین واشنگ ان کے ہندو اساتذہ کے ذریعے کروائی گئی تھی ۔جب سے بنگلا دیش کا قیام عمل میں آیا ہے ، اس وقت سے لے کر اب تک طلبہ تحاریک کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے ۔ بنگلا دیش کی اگر حالیہ تاریخ کو ہی دیکھا جائے تو 2018 میں طلبہ نے Road Safety Movement شروع کی تھی ۔ ا س کا آغاز بھی کچھ کراچی کے بشریٰ زیدی کیس کی طرح کا تھا کہ مسافروں کو بھرنے کے لیے تین بسوں میں ریس ہورہی تھی کہ ایک بس غیر لائسنس یافتہ ڈرائیور سے بے قابو ہو کر فٹ پاتھ پر کھڑے مسافروں پر چڑھ دوڑی جس کے نتیجے میں دو طالب علم جاں بحق ہوگئے ۔ ڈھاکہ کا یہ واقعہ ہو یا کراچی کی بشریٰ زیدی کا حادثہ ، اس میں کچھ نیا نہیں تھا ۔پاکستان ، بنگلا دیش ، بھارت میں اس جیسے واقعات معمولات میں شامل ہیں جہاں پر پولیس رشوت لے کر آنکھیں بند رکھتی ہے اور اس طرح کے حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو اس طرح کے حادثات ignition کا کام دیتے ہیں ۔2018 میں شروع ہونے والی تحریک بھی اتفاق سے جولائی میں ہی شروع ہوئی تھی ۔ یہ دو جولائی کی حبس زدہ صبح تھی ، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بارش بند ہوئی تھی ۔ سب لوگ اپنے اپنے کام کاج کی طرف رواں دواں تھے ۔ ڈھاکا میں ائرپورٹ روڈ پر تین بسیں ریس لگارہی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو سمیٹ سکیں ۔ ان میں سے ایک تیز رفتار بس ڈرائیور سے بے قابو ہو کر بس اسٹاپ پر کھڑے مسافروں سے جاٹکرائی جس کے نتیجے میں شہید رمیز الدین کنٹونمنٹ کالج کے دو طالب علم جاں بحق ہوگئے جبکہ بارہ دیگر افراد زخمی ہوئے ۔ جس کے بعد سیکڑوں طلبہ روڈ پر آگئے اور انصاف کا مطالبہ کرنے لگے ۔ سب کچھ پرامن تھا کہ بنگلہ دیشی وزیر ٹرانسپورٹ شاہ جہاں خان کا ایک انٹرویو ٹی وی پر نشر ہوا جس میں وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ حال میں ہی بھارتی مہاراشٹر میں سڑک حادثہ میں 33 افراد جان سے گئے ، کیا وہاں پر بھی کسی نے اس طرح کا احتجاج کیا ۔ شاہ جہاں کے اس احمقانہ بیان اور مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اب مطالبہ حادثے کے ذمہ داروں کو کڑی سزا دینے ، پبلک ٹرانسپورٹ کو ریگولیٹ کرنے سے بڑھ کر شاہ جہاں کے استعفیٰ تک جا پہنچا ۔ شاہ جہاں کے احمقانہ طرز عمل کے نتیجے میں احتجاج کا دائرہ یونیورسٹیوں کے طلبہ تک پھیل گیا اور یوں پورا ڈھاکا مفلوج ہوکر رہ گیا ۔دو اگست تک یہ مظاہرے پرامن تھے کہ پھر سرکار نے دوسرا احمقانہ کام کیا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور ربڑ کی گولیاں چلائ گئیں ۔ اس سے احتجاج کی لہر پورے ملک میں پھیل گئی ۔ اب سرکار میں بیٹھی دوسری ٹیم نے اپنا کام شروع کردیا ۔ یعنی انٹرنیٹ بند ، سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن وغیرہ وغیرہ ۔ دوسرا عوامی لیگ نے اپنا آزمودہ نسخہ آزمایا کہ پولیس کی چھتری میں عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم کے کارکنان لاٹھیوں سے مسلح ہو کر مظاہرین پر ٹوٹ پڑے جس سے عوامی ردعمل میں مزید اضافہ ہوا ۔ عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم کے مسلح غنڈوں نے صرف مظاہرین کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ وہ اس کی کوریج کرنے والے اور غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دینے والے صحافیوں کو بھی تاک تاک کر نشانہ بنا رہے تھے، خواتین میڈیا کارکنان کو جنسی طور پر ہراساں کیا جارہا تھا ۔ دوسری طرف ملک دشمن سرگرمیوں کے نام پر اِن صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کرکے پولیس کی حراست میں انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا ۔اس سب کے باوجود کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر یہ تحریک دس اگست کو ختم ہوگئی کہ یہ خالص عوامی تحریک تھی اور اس کے پس پشت اور کوئی قوت نہیں تھی ۔ بنگلا دیش کی حالیہ تحریک اور اس کی پس پشت قوتوں کے بارے میں گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔