فیض حمید کی گرفتاری پر ہر قانون پسند شہری کو چاہیے کہ اس فیصلے کو خوش آمدید کہے کیونکہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئی ہے۔۔لیکن اس گرفتاری اور اس سے جڑے واقعات واضع اشارہ دیتے ہیں کہ ادارے کے اندر ایک شدید بے چینی ہے اور شمکش کی فضا ہے۔ اس کارروائی سے چیف صاحب نے ادارے کے اندر موجود اعتراض کرنیوالوں یا عمومی انداز میں کہیں تو پی ٹی آئی کے حامیوں کو پیغام دیدیا ہے کہ جنگ اب آخری مرحلے میں ہے ۔۔یہ چیف صاحب کا آخری حملہ ہے۔۔
ورنہ کرپشن اور ادارے کے ایکٹ کی خلاف ورزی کے معاملات میں تو کئی بڑے ریٹائرڈز کے نام آتے رہے ہیں۔ اس گرفتاری سے مستقبل میں موجودہ قیادت کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے ہی الزامات کے ساتھ عدالتیں بھگتنا پڑ سکتی ہیں ۔۔یہ گرفتاریاں لگتا ہے ایکس ٹینشن کی طرف ایک قدم ہے تاکہ کوئی اور افسر اپنےلیئے لابی نا کرے اور سب سر تسلیم خم کرکے ایکس ٹینشن قبول کریں ۔۔
لیکن کیا چیف صاحب مکمل طور پر کامیاب ہوں گے؟ اس مہم کا انجام کیا ہوگا؟جب اقتدار کی کشمکش محل کے اندر شدت اختیار کرجائے اور آپس میں لڑائی شروع ہوجائے تو اس کا انجام ضیا کے انجام سے مختلیف نہیں ہوتا۔۔فی الحال پاپ کارن لیکر فلم دیکھنے کا وقت ہے۔۔ ایسا لگتا ہے اگلے تین ماہ فلم میں بڑے اتار چڑھاو آئیں گے۔۔صاف نظر آرہا ہے کہ ابھی عدلیہ سے ادارے اورپی ڈی ایم کی لڑائی بڑھے گی۔
صاف نظر آرہا ہے کہ اگر اس صورتحال میں میڈیا کی کمپنیاں نیوٹرل راستہ لینے کے بجائے موجودہ سیٹ اپ کی کھل کر حمایت کریں گے۔۔ ان کا مستقبل دردناک ہوگا کیونکہ عمومی عوامی رائے میں وہ قابل نفرت قرار پائیں گی۔۔یہ رولر کوسٹر سفر بہت گل کھلائے گاطبقاتی تجزیہ بھی ضروری ہے۔ موجودہ ریاستی اور حکومتی ڈھانچہ اب اس ملک اور عوام کی بہتری کے لیئے کچھ بھی کرنے سے معذور ہوچکا ہے۔ ڈھائی سال سے موجود یہ سیٹ اپ روز بروز لوگوں پر معاشی جبر بڑھاتا جارہا ہے۔
یہ سیٹ اپ عوام سے دور ہے ایک بیگانگی alienation کا شکار ہے۔
اس کا ثبوت وزیراعظم کا بیان ہے کہ بجلی سے لوگ پریشان ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ چیف صاحب مذہب کی کانفرنس کرکے لوگوں کو دھمکیاں لگاتے ہیں لیکن لوگوں کے مسائل کا حل نہیں بتاتے۔۔ کیونکہ کسی کے پاس حل نہیں یہ سب اس نظام کو ایسے ہی چلا کر اپنا اقتدار اور ضروریات پورا کرنا چاہتے ہیں۔حکمران سیاسی جماعتیں تھری اور فور اسٹارز افسران گریڈ بیس اکیس کے سول افسران اور ججز یہ سب مل کر ایک ایسا طبقہ ہے جس کے پاس کھانے پینے اور عیاشی کے وسائل موجود ہیں یہ وسائل انہوں نے ملک کے بائیس کروڑ عوام سے جبریہ ٹیکس وصول کرکے مہنگائی کرکے حاصل کیئے ہیں اور انجوائے کررہے ہیں ۔۔ آج ہر شخص کو پتہ ہے کہ بجلی کا مہنگا بل یا ٹیکس ان سب سے یہ طبقہ اپنا پروٹوکول اپنا گھر چلاتا ہے۔۔ بچوں کو باہر پڑھاتا ہے بیرون ملک کے دورے کرتا ہے گالف کورس اور جیم خانہ انجوائے کرتا ہے۔۔
چونکہ اس طبقے کے پاس سوائےلوٹ مار کے کوئی اور راستہ نہیں ہے عوام سے دور ہیں تو یہ اب اکثر ایک دوسرے کو ملک کی بری صورت حال کا الزام دیتے ہیں ۔۔ ہر ایک دوسرے پر کرپشن توکبھی سازش کبھی رکاوٹ کا الزام دھر کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ کروڑوں لوگوں کی پریشانی کا سبب وہ نہیں کوئی اور ہے۔۔ جبکہ اسی وقت الزام لگانے والا یہ سارے کام خود بھی کررہا ہوتا ہے۔۔
لیکن کیا کریں عوام اب کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں۔۔اور یہی حکومت میں موجود گروہوں کے درمیان لڑائی کو مزید بڑھا رہا ہے۔۔ابھی لگتا ہے آپس کی لڑائی اور بڑھے گیویسے بھی ابھی راہو کا اثر ہے اور جیوپٹر کا واپسی کا سفر ہے مارس پر گرہن ہے اور نیپچون سوچ رہا ہے میں کدھر ہوں