بلاشبہ مملکتِ خدا داد پاکستان کی بنیاد عقیدہ توحید پہ رکھی گئ یعنی یہ ملک اسی لیے معرضِ وجود میں آیا کہ مسلمانانِ ہند وہاں آزادانہ طور پہ اپنے عقیدے ،اسلامی اصولوں اور اپنی تہذیب و ثقافت یعنی اسلامی اقدار کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔ یہی سوچ نظریہ پاکستان کی بنیاد بنی ۔ اس نیک مقصد کو حاصل کرنے کے لیے برصغیر کے مسلم رہنماوں نے انتھک محنت و مشقت کی بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ انہوں نے اپنے آپ کو اس مقصد کے حصول کےلیے وقف کر دیا ۔ ان بے شمار مسلم رہنماوں میں حکیم الامت علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے مسلمانانِ ہند کو یکجہتی و اتحاد کا درس دیا ۔ انہوں نے ایسے سیاسی نظام اور جمہوریت کی شدید لفظوں میں مخالفت کی جس کی بنیاد اسلامی ضابطہ اخلاق پہ نہ ہو ۔۔۔
بالکل اسی طرح قائدِاعظم محمد علی جناح نے بھی امت رسولؐ کے لیے ایک ایسی ریاست کی عملی کوششیں کی جس میں مسلمانانِ ہند قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں ۔۔ انہوں نے اپنی جدوجہد تب تک جاری رکھی جب تک کہ پاکستان معرضِ وجود میں نہیں آگیا یہاں تک کہ
مرتے وقت بھی انہوں نے کہا کہ” میرا ایمان ہے کہ پاکستان ہرگز وجود میں نہیں آتا جب تک کہ اس میں فیضانِ نبویؐ شامل نہ ہوتا، اور اب آنے والی نسلوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کی خلافتِ راشدہ کی بنیاد پر تعمیر کریں تاکہ اللہ نے جو وعدے ان سے کئے ہیں اللہ ان وعدوں کو پورا کرے ۔۔۔
١۴ فروری ١٩۴٧ کو شاہی دربار سبی میں خطاب کرتے ہوئے قائدِاعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ ” میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوہءحسنہ پہ چلنے میں ہے یعنی جو اسلامی قانون ،اصول و ضوابط ہمارے پیغمبر حضرت محمدؐ نے ہمیں عطا کئے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اس پہ عمل پیرا ہوں اور اپنی سیاست کی بنیاد صحیح معنوں پہ اسلامی تصورات اور اصولوں پہ رکھیں ۔۔۔
لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کو بنے سالہاسال بیت چلے لیکن ہم اب تلک عقیدہءتوحید کے مطابق اپنے ملک کی تعمیر نہیں کر سکے اور نہ ہی وہ خواب جو ہمارے قوم کے رہنماوں نے دیکھا تھا اسے صحیح طور پہ شرمندءتعبیر نہیں کر پائے ۔۔۔
ہم ایک مسلم ریاست اور امتِ رسولؐ کے سپہ سالار ہونے کے باوجود اب تک اپنی ریاست کو معاشی اور دینی اعتبار سے مستحکم ریاست نہیں بنا سکے ، یقیناً اس کی وجہ ہمارے کمزور عقائد، قرآن و سنت پہ عمل پیرا نہ ہونا ،اتحاد کا فقدان ، حکمرانوں کی کمزور حکمتِ عملی اور ان کا مفاد پرست ہونا ہے ۔ جب تک ہم اپنی کمزویوں پہ قابو پانا نہیں سیکھیں گے ہم ایک مستحکم آزاد اور خودمختار ریاست بن ہی نہیں سکتے ۔۔۔
یہ سچ ہے کہ ہماری قوم مسلسل خارجی عناصر کی سازشوں کا شکار رہی ہے لیکن ہمارے سیاسی و انتظامی ڈھانچوں میں موجود کمزویاں ہماری ترقی نہ کرنے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ ہیں ۔ پارلیمانی نظامِ حکومت جب سے لاگو ہوا ہے ہم مسلسل تنزلی کی طرف جا رہے ہیں اور اب یہ شکستگی کا سفر خطرناک حد کو پہنچ گیا ہے ۔۔۔ عرصہ دراز سے عناد ، عداوت اور اختلاف کے خوگر لوگ ہماری مملکتِ خداداد کے حکمران بن کر ہمارے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بنتے رہے ہیں یہ گزرے ماہ و سال اس کا واضح ثبوت ہیں اور اب اس کا واحد حل اسلامی صدارتی نظامِ حکومت میں نظر آ رہا ہے ہم سب محبِ وطن پاکستانیوں کو اب چاہیے کہ سب مل کر ملک میں اسلامی صدارتی نظامِ حکومت لانے کی کوششیں کریں تاکہ ہر پاکستانی نیلے آسمان تلے بیٹھ کر امن و آشتی کے گیت گا سکے ، ہرطرف روشنی ظلمت پہ غالب ہو جائے اور نفرت و تعصب کی چیخ و پکار محبت و بھائ چارے کے گیتوں میں ڈھل جائے اور وہ خارجی عناصر ایکبار پھر اپنے مقصد میں ہمیشہ کی طرح ناکام ہو جائیں جو ہماری مملکتِ خداد کو غیر مستحکم اور پتھروں کے زمانے تک پہنچانے خواب دیکھ رہے ہیں ۔اللہ ہمارے حکمرانوں کو عقل و شعور اور مثبت سوچ عطا فرمائے اور انہیں نظریہ پاکستان پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔
آمین ثم آمین یارب العالمین