: یہ 24 جولائی 1937ء کا دن تھا جب ایبٹ آباد کے پُربہار شہر میں ایچ ایل گوسوامی کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ہری کرشن گوسوامی رکھا گیا۔ کسے معلوم تھا کہ ایبٹ آباد میں پیدا ہونے والا یہ بچہ ایک دن منوج کمار بن کر اداکاری‘ ہدایت کاری اور پروڈکشن کے شعبوں میں اپنے خاندان کا نام روشن کرے گا۔ ایبٹ آباد اس کا ننھیالی گاؤں تھا جہاں اس کی ماں اس کی پیدائش سے پہلے آئی تھی لیکن اس کے ددھیال کا گاؤں جنڈیالہ شیر خان تھا جو ضلع شیخوپورہ میں واقع ہے۔ پنجابی زبان کے معروف صوفی شاعر اور ”ہیر‘‘ کے خالق وارث شاہ کا تعلق اسی گاؤں سے تھا۔ منوج کمار کے والد اردو کے شاعر تھے۔ یوں اردو سے محبت اس کے خون میں رَچ بس گئی تھی۔
منوج کمار کی لاہور‘ جنڈیالہ شیر خان اور ایبٹ آباد سے بہت سی یادیں وابستہ تھیں جو ہمیشہ اس کے ساتھ چلتی رہیں۔ زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی کہ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی مختلف شہروں سے فسادات کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ منوج کمار کے گھر والوں کا یہ خیال تھا کہ یہ ہنگامے عارضی ہیں اور زندگی جلد معمول پر آ جائے گی۔ لیکن ہر آنے والے دن کے ساتھ ماحول میں کشیدگی کم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی۔ آخر منوج کمار کے والد نے یہ مشکل فیصلہ کیا کہ انہیں اپنا آبائی گھر چھوڑ کر سرحد پار جانا ہو گا۔ جنڈیالہ شیر خان سے ہجرت کے بعد ان کا اگلا ٹھکانہ دہلی میں ہڈسن لائن کے قریب ریفیوجی کیمپ تھا۔ ایک لمحے میں زندگی کیا سے کیا ہو گئی تھی۔ پھرآہستہ آہستہ زندگی کا نیا سفر شروع ہوا۔ منوج کمار کے والد نے نئے سرے سے کام شروع کیا۔ منوج کمار کی پڑھائی کا بھی دوبارہ آغاز ہوا اور اس نے ہندو کالج سے بیچلر کا امتحان پاس کیا۔ گھر کا ماحول شعر و ادب کا تھا۔ منوج کمار کو بھی ادب سے دلچسپی تھی۔ اسے فلمیں دیکھنے کا بھی شوق تھا۔
اسے یاد ہے جب اس نے ”جگنو‘‘ فلم دیکھی تھی تو کیسے دلیپ کمار کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ ”جگنو‘‘ کے بعد اس نے دلیپ کمار اور کامنی کوشل کی فلم ”شبنم‘‘ دیکھی۔ اس فلم میں دلیپ کمار جو کردار ادا کر رہا تھا اس کا نام منوج تھا۔ فلم دیکھنے کے بعد ایبٹ آباد میں پیدا ہونے والے بچے ہری کرشن گوسوامی نے اپنا نام منوج کمار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ منوج کمار دہلی میں تھا لیکن اس کے دل میں فلموں میں کام کرنے کی خواہش مچل رہی تھی۔ منوج کمار کو اچھی طرح یاد ہے کہ وہ 9 اکتوبر 1956ء کا دن تھا جب وہ اپنے خوابوں کے تعاقب میں دہلی سے بمبئی آیا تھا۔ اس وقت اُس کی عمر 19 برس تھی۔وہ ایک وجیہ نوجوان تھا جس کا قد چھ فٹ ایک انچ تھا‘ جو کرکٹ اور ہاکی کا بہترین کھلاڑی تھا۔ وہ بمبئی آ تو گیا لیکن فلمی دنیا میں داخل ہونا اتنا آسان نہ تھا‘ لیکن اس کی خوش قسمتی کہ کچھ عرصہ پہلے ہی اس کے چچا بمبئی آ چکے تھے اس لیے اس کی رہائش کا مسئلہ حل ہو گیا۔ بمبئی آنے کے اگلے سال منوج کمار کو ایک فلم ”فیشن‘‘ (1957ء) میں ایک کردار ملا۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ ایک نوے سال کے بوڑھے کا کردار تھا جبکہ منوج کی عمر اُس وقت صرف 20 برس تھی۔ اس کے بعد اسے چند اور فلموں سہارا (1958ء)‘ چاند (1959ء)‘ ہنی مُون (1960ء) میں مختصر کردار ملے۔
1961ء میں منوج کمار کو پہلا لیڈنگ رول فلم ”کانچ کی گڑیا‘‘ میں ملا‘ اسی سال اس نے تین اور فلموں ”پیا ملن کی آس‘‘، ”سہاگ سندور‘‘ اور ”ریشمی رومال‘‘ میں کام کیا۔ اگلے ایک سال میں اس نے کئی فلموں میں کام کیا جن میں ”اپنا بنا کے دیکھو‘‘، ”ڈاکٹر دویا‘‘ اور ”گرہستی‘‘ شامل تھیں۔ تب منوج کمار کے فلمی سفر میں وہ موڑ آیا کہ اس کے لیے شہرت کے دروازے کھل گئے۔ یہ تھی راج کھوسلہ کی فلم ”وہ کون تھی؟‘‘ جو 1964ء میں ریلیز ہوئی اور جس نے باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس کی کہانی‘ اداکاری اور موسیقی نے اسے ایک کامیاب فلم بنا دیا تھا۔ اسی فلم میں لتا منگیشکر کے گائے ہوئے دو گیتوں ”لگ جا گلے‘‘ اور ”نیناں برسیں رِم جھم رِم جھم‘‘ شامل تھے۔ یہ وہ کامیابی تھی جس کا منوج کمار کو دیر سے انتظار تھا۔ اگلا سال اس کی فنی زندگی کا ایک اور یاد گار سال تھا۔ جب اس کی فلم ”شہید‘‘ آئی جو بھگت سنگھ کے حوالے سے تھی۔ فلم میں منوج کمار نے بھگت سنگھ کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں منوج کی اداکاری کی لوگوں نے والہانہ پذیرائی کی۔ اسی سال اس کی ایک اور کامیاب فلم ”ہمالہ کی گود میں‘‘ ریلیز ہوئی۔ اسی سال کے آخر میں منوج کمار کی ایک اور فلم ”گمان‘‘ آئی۔ 1966ء میں منوج کمار کی ایک اور کامیاب فلم ریلیز ہوئی جس کی ڈائریکشن راج کھوسلہ نے دی تھی۔ اس فلم کے گیت نگار شکیل بدایونی تھے اور اس میں رفیع اور لتا نے اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ فلم کے گیتوں میں رفیع کا ”رہا گردشوں میں ہر دم‘‘ اور لتا کا ”لو آ گئی اُن کی یاد‘‘ شامل تھے۔
اب منوج کمار فلمی دنیا میں اپنے قدم جما چکا تھا اور یہاں کے اَسرار و رموز جان چکا تھا۔ اب اس نے ہدایت کاری کے میدان میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھانے کا فیصلہ کیا۔ یوں 1967ء میں اس کی ہدایت کاری میں فلم ”اُپکار‘‘ ریلیز ہوئی جس نے باکس آفس پر کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ لوگوں نے منوج کمار کے فلموں میں کرداروں کو پسند کیا کیونکہ وہ وطن سے محبت کا اظہار تھے۔ اسے منوج کمار کے بجائے بھارت کمار کا نام دیا گیا۔ 1968ء میں اس نے ”نیل کمل‘‘ اور ”آدمی‘‘ فلم میں کام کیا۔ نیل کمل میں اس کے ساتھ راج کمار اور ”آدمی‘‘ فلم میں دلیپ کمار نے کام کیا۔ 1969ء میں منوج کی ایک اور کامیاب فلم ”ساجن‘‘ ریلیز ہوئی جس نے باکس آفس پر اچھا بزنس کیا۔ اگلے ہی سال ایک اور بلاک بسٹر فلم ” پورب اور پچھم‘‘ نے منوج کمار کی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔ 1972ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”بے ایمان‘‘ میں منوج کو بہترین اداکاری پر فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال اسے فلم ”شور‘‘ پر بھی فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ منوج کی اگلی فلم ”روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ تھی۔ اس فلم میں اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ہدایت کار بھی تھا۔ اسی فلم میں اس نے امیتابھ بچن کو بھی موقع دیا تھا۔ یہ فلم بھی باکس آفس پر کامیاب ہوئی اور پھر معروف بلاک بسٹر فلم ”کرانتی‘‘ جس میں وہ دلیپ کمار کو پانچ سال کی خاموشی کے بعد دوبارہ فلمی دنیا میں لے آیا تھا۔ اس فلم میں اس نے اداکاری کے ساتھ ہدایات بھی دی تھیں۔ یہ فلم اس سال کی بہترین فلم قرار پائی۔
”کرانتی‘‘ کے بعد بھی منوج کی فلموں کا سلسلہ جاری رہا لیکن اب یہ ڈھلوان کا سفر تھا۔ اب فلمی دنیا کے تقاضے بدل رہے تھے۔ منوج نے اپنے بیٹے کنال گوسوامی کو فلم ”جے ہند‘‘ میں بطور ہیرو کاسٹ کیا لیکن یہ ایک فلاپ فلم ثابت ہوئی۔ اب منو ج کمار کا کامیابیوں سے جگمگاتا فلمی سفر اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ فلمی دنیا میں اس کی خدمات پر اسے فلم فیئر ایوارڈ کے علاوہ پدم شری ایوارڈ اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ یہ اس شخص کی شاندار کارکردگی کا اعترف تھا جو بیک وقت سکرین پلے رائٹر‘ اداکار‘ گیت نگار‘ ہدایت کار اور ایڈیٹر تھا۔ اب منوج کمار 90ء کی دہائی میں ہے۔ اس کی فلموں کی مصروفیات ختم ہو چکی ہیں لیکن بیتے دنوں کی چاندنی اس کے حال کو روشن کیے ہوئے ہے۔ کبھی کبھار جب اسے لاہور‘ ایبٹ آباد اور جنڈیالہ شیر خان کی یاد آتی ہے تو وہ ان گلی کوچوں میں جانے کو بیقرار ہو جاتا ہے جہاں اس کے بچپن کے دنوں کی چاندنی اسے بلاتی ہے۔