: لاہور میں بارش کا 44 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔اگر صرف اس ایک بارش کا پانی ذخیرہ کر لیا جاتا تو واسا کو اگلے ایک مہینہ تک اپنے ٹیوب ویل چلانے کی ضرورت نہ تھی۔ اندازاً 1 لاکھ ایکڑ فٹ پانی لاہور پر ایک دن میں برس گیا جو کہ اس شہرِ بے مثال کے زمینی پانی کے ایک سال کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے کافی تھا۔ شہر میں ابھی مون سون سیزن کی کئی اور بارشیں متوقع ہیں۔ واسا کے 1800 سے زاید ٹیوب ویل لاہوریوں کے لیے روزانہ 400 کروڑ لٹر پانی زمین سے کھینچ رہے ہیں۔ صنعتی استعمال کے لیے 150 کروڑ لٹر پانی مزید کھینچا جارہا ہے جب کہ ہزاروں کی تعداد میں نجی واٹر پمپ اور موٹریں اس کے علاوہ ہیں۔لاہور میں پینے کے لائق پانی 600 فُٹ نیچے جاچکا جب کہ 1300 فٹ نیچے جانے پر زمینی پانی ختم ہوجائے گا۔لاہور میں زمینی پانی کی سالانہ کھپت اور ریچارج میں تقریباً 1 لاکھ ایکڑ فٹ کا فرق ہے جسے بارش کے پانی کو استعمال کرتے ہوئے باآسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔لیکن لاہور میں ایک لاکھ ایکڑ فٹ یا اس سے زیادہ کیپیسٹی کا ڈیم یا رین واٹر سٹوریج کیسے بنائی جا سکتی ہے ؟ کچھ تجاویز حاضر ہیں۔
1- دریائے راوی پر سیریز میں بنے ربڑ ڈیم
لاہور کی ایکوائفر کے ری چارج کا سب سے بڑا ذریعہ بوڑھا دریائے راوی ہے جو کہ اب خشک پڑا ہے۔ لاہور کے سارے ڈرین بارش کے پانی کو دریائے راوی میں جاکر گراتے ہیں جسے دریائے راوی پر متعدد ربڑ ڈیم بنا کر کشادہ جھیل کی شکل میں کھڑا کرکے زیرزمین پانی کو ریچارج کیا جاسکتا ہے۔ ربڑ ڈیم کی تعمیر کی ایک بہترین جگہ راوی پر ریلوے پُل سے اوپر / پہلے ہو سکتی ہے جب کہ اس کے نیچے بھی کچھ مناسب جگہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لاہور کے پاس دریائے راوی کا پیندہ ہر تین ہزار فٹ کے بعد ایک فٹ نیچے ہو جاتا ہے اس لئے سات آٹھ فٹ بلند ربڑ ڈیم سے بھی ہزاروں فٹ لمبی پانی کی سطح اوپر اٹھ آئے گی جو کہ دریا میں کئی دن رکی رہے گی اور ریت میں جذب ہو کر لاہور کی ایکوئفر کو مسلسل ریچارج کرتی رہے گی۔ربڑ ڈیم ایک بہت بڑی ٹیوب ہوتی ہے جسے کسی مضبوطی سے موجود پل یا خاص طور پر ڈیم کے لئے بنائے گئے پختہ ستونوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ اس ٹیوب کو ہوا/ پانی یا دونوں کو اندر بھر کر مطلوبہ بلندی تک پُھلایا جاسکتا ہے اور یہ اپنے پیچھے ڈیم کی طرح پانی کو روک لیتی ہے۔ دریا میں سیلاب یا زیادہ پانی کی صورت میں اس میں سے ہوا یا پانی خارج کر کے اس کو خالی کیا جا سکتا ہے تاکہ سیلابی پانی، مٹی اور کچرہ آگے بڑھ جائے اور پانی کی روانی بہتر ہوتے ہی اس کو دوبارہ ہوا بھر کر پُھلا دیتے ہیں۔لاس اینجلس شہر کو پانی دینے کے لئے دُنیا کا سب سے پہلا ربڑ ڈیم 1958 میں امریکا میں دریائے لاس اینجلس پر بنا تھا ۔ چائنا کہتا ہے کہ اس نے 2000 سے زیادہ ربڑ ڈیم بنا رکھے ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت نے بھی کئی ربڑ ڈیم بنا رکھے ہیں ۔ بھارت کے سب سے لمبے گایاجی ربڑ ڈیم کا افتتاح دو سال پہلے ہی ریاستِ بہار میں ہوا ہے۔
2- رین واٹر سٹوریج ریزروائرز یا ٹینک
ٹوکیو شہر کو اربن فلڈنگ سے بچانے کے لئے زیرِ زمین کنکریٹ کے بہت بڑے بڑے ٹینک بنائے گئے ہیں جو بارش کی صورت میں زائد پانی کو سٹور کر لیتے ہیں جب کہ بارش کے بعد اسے دریا میں پمپ کرکے بہا دیتے ہیں۔لاہور شہر میں واسا نے باغ جناح، لارنس روڈ، شیرانوالہ گیٹ اور کشمیر روڈ پر بالترتیب 1.4 ملین گیلن اور 1.5 اور 1.5 ملین گیلن کی گنجائش کے ساتھ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے تین رین واٹر سٹوریج ٹینک بنائے ہیں اور اسی طرح کے ٹینک دیگر جگہوں پر بناکر تقریباً 21 ملیئن گیلن پانی ذخیرہ کرنے کا پروگرام ہے۔ اس طرح کے متعدد سٹوریج ٹینک لکشمی چوک، گلبرک، جوہر ٹاون اور دیگر نشیبی علاقوں میں بنائے جائیں جوکہ بارش کے زاید پانی کو سڑکوں پر آنے کی بجائے سٹور کرلیں اور بعد میں اسے ری چارج کر لیاجائے یا استعمال کرلیا جائے۔ یہ ٹینک مون سون کے تین مہینوں پانی سٹور کریں اور باقی کے 9 مہینے انہیں بطور پارکنگ، شادی ہال، جمنازیم وغیرہ کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ SMART ٹنل کا منصوبہ پچھلے 15 سالوں سے اسی بنیاد پر کامیابی سے چل رہا ہے۔لاہور میں 30 سے 40 ایسے ٹینک بن جائیں تو بارش کا پانی سڑکوں پر نظر نہیں آئے گا۔
3- ریچارج ویل یا پانی چوس کنویں
لاہور کو باغوں اور پارکوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ دیگر سرکاری عمارتوں اور تعلیمی اداروں میں ابھی تک بھی بہت کھلے گراونڈ یا لان موجود ہیں جوکہ قدرتی طور پر نیچے ہیں یا انہیں تین تین فٹ نیچا کرکے ان میں پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے جسے ریچارج ویل یا پانی چوس کنوؤں کے ذریعے زیرِ زمین ریچارج کر دیا جائے۔ خصوصا کوآپریٹو سایئٹیوں کے اندر اس طرح کی کافی کھلی جگہیں موجود ہیں۔لاہور کو کم ازکم 5 ہزار پانی چوس کنوؤں کی ضرورت ہے جب کہ شہر میں اس وقت صرف 1 سو ریچارج ویل بنے ہیں۔ سڑکوں کے گرین بیلٹس بھی ریچارج کے لئے مقصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔
4- رین واٹر ہارویسٹنگ ٹینکس
ایل ڈی کے بائی لاز میں ہر نئے گھر میں رین واٹر ہارویسٹنگ ٹینک بنانا ضروری ہے جس پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے۔ ۔ اسی طرح رضاکارانہ طور پر چھت کے اوپر، زمین پر یا زیرِ زمین واٹر سٹوریج ٹینک بناکر بارش کا بہت سا پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ سروس اسٹیشنز اور صنعتیں ایسے ٹنکس بنانے کی پابند کردی جائیں۔مندرجہ بالا اقدامات سے نہ صرف شہر میں اربن فلڈنگ میں کمی آئے گی بلکہ سڑکیں، پُل اور عمارتیں بھی ٹو پھوٹ سے بچیں گی۔ راستے کُھلے ہونے کی وجہ سے شہری بھی دفتروں میں اور کام پر جا سکیں گے۔ جب کہ اس کا سب سے بڑا فائدہ لاہور شہر کے زمینی پانی کی سطح بلند ہونے کی صورت میں ہوگا۔
لاہور میں کل سب سے زیادہ بارش تاج پورہ میں 315 ملی میٹر ہوئی جب کہ لکشمی چوک میں 170 ملی میٹر، جوہر ٹاؤن میں 109 ملی میٹر، قرطبہ چوک میں 152 ملی میٹر، جیل روڈ میں 69 ملی میٹر، ایئرپورٹ میں 85 ملی میٹر، مغل پورہ میں 145 ملی میٹر، اپر مال میں 130 ملی میٹر اور گلشن راوی میں 151 ملی میٹر بارش ہوئی۔ اس کے علاوہ نشتر ٹاؤن میں 162 ملی میٹر، چوک ناخدا میں 155 ملی میٹر، پانی والا تالاب میں 151 ملی میٹر، فرخ آباد میں 140 ملی میٹر، اقبال ٹاؤن میں 152 ملی میٹر اور گلبرگ ٹاؤن میں 105 ملی میٹر بارش ہوئی۔