مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کی نویں برسی آج منائی جا رہی ہے ۔سردار محمد عبدالقیوم خان تحریک آزادی جموں کشمیر کے بانیوں میں سے تھے۔ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان جیسی عظیم، تاریخ ساز، ہمہ جہت اور دوراندیش شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ ان عظیم شخصیات کا وجود کسی بھی قوم کے وقار اور خوش نصیبی کی علامت ہوتا ہے۔ یہ شخصیات نہ صرف کسی خاص علاقے، قوم یا ملک تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی برادریوں کیلئے سرمایہ افتخار ہیں۔مجاہد اول صرف اےک عظےم سےاسی رہنما ہی نہیں بلکہ بلند پایہ ادیب اور شعلہ بیاں مقرر بھی تھے۔ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان سیاستدان اوراعلیٰ اخلاق کے مالک عظیم انسان تھے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی تحریک آزادی کشمیر اور دونوں اطراف کے کشمیریوں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔مجاہد اول سردار محمد عبدالقےوم خان نظرےہ الحاق پاکستان کے زبردست حامی تھے اور آپ نے اپنی پوری زندگی اس نظریے کے لیے نہ صرف جدوجہد کی بلکہ کشمیریوں میں بھارت سے آزادی کا جذبہ بھی پیدا کیا، وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے پرجوش حامی تھے اور انہوں نے کشمیریوں میں پاکستان کے ساتھ وابستگی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے” کشمےر بنے گا پاکستان“ کا نعرہ دیا تھا۔ جدوجہد آزادی کے لیے مجاہد اول کی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، انہوں نے اس راستے پر عمل کیا جسے وہ درست سمجھتے تھے اور وہ کشمیر اور دنیا بھر میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں کے لیے ایک مضبوط آواز تھے۔
تحرےک آزادی جموں و کشمےر کے لیے سردار عبدالقےوم خان کی خدمات کا تذکرہ کشمیر کی تاریخ میں سنہری الفاظ سے کیا جائے گا۔مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کشمیر کی سیاست میں ایک بڑا نام تھے، وہ ایک زیرک سیاستدان تھے ،آزادکشمیر کی سیاست پر بالخصوص اور پاکستان کی سیاست پر بالعموم وہ انمٹ نشانات چھوڑ گئے۔انہوں نے ہر شعبے میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا ۔ آزادکشمیر میں سپریم کورٹ، قانون ساز اسمبلی، صدر، وزیراعظم اور دیگر تمام ادارہ جات کے قیام کے سلسلہ میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کی رحلت سے کشمیری قوم ایک عظیم رہنما محروم ہو گئی۔
مجاہد اول سردار محمد عبدالقےوم خان اور ان کے ساتھےوں نے 1947ءمیں کشمیر کی آزادی کے لیے جس بے سرور سامانی کے عالم میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اُسی کے نتیجے میں یہ خطہ آزادہوا اور آج ہم آزادی کی سانسیں لے رہے ہیں۔ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان 4 اپریل 1924 کو ریاست کشمیر کے ضلع باغ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم کے بعد وہ برٹش انڈین آرمی کی انجینئرنگ کور میں بھرتی ہوئے۔1942 سے 1946 تک افریقہ کے صحرا¶ں سے لے کرمڈل ایسٹ تک کے مختلف ممالک میں تعینات رہے اس دوران انھوں نے فلسطینی آپریشن کے ابتدائی ایام بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وطن واپسی کے بعد1946ءمیں ملازمت سے استعفیٰ دے کر تحریک آزاد ی کشمیر میں شامل ہوگئے۔ 1947 میں تحریک آزادی کشمیر کی مسلح جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا۔ وہ 1956 میں پہلی بار آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے، بعد ازاں 1971، 1985 اور 1990 میں بھی صدر بنے البتہ انہوں نے 1991 میں صدارت سے مستعفی ہو کر قانون ساز اسمبلی کا انتخاب لڑا اور وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 1996 میں وہ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔مجاہد اوّل سردار محمد عبدالقیوم خان نے کشمیر کے قومی تشخص کو سامنے رکھتے ہوئے نظریہ الحاق پاکستان و استحکام پاکستان کا پرچار کیا۔ سردار عبدالقیوم خان نے پوری دنیا میں کشمیریوں کو عزت ووقار دیا، کشمیر کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی۔ سردارمحمد عبدالقیوم خان پہلی دفعہ 1955 ءمیں محض31 سال کی عمر میں قائد ملت چوہدری غلام عباس، غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان، میر واعظ کشمیر سید محمد یوسف شاہ، راجہ حیدر خان، سردار فتح محمد کریلوی اور کے ایچ خورشید کی موجودگی میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے اس کے بعد مختلف ادوار میں 14 مرتبہ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوتے رہے۔کم عمری میں مسلم کانفرنس کے صدر بننے کا یہ اعزاز آپ کے سوا ریاست جموں وکشمیر کی کسی اور سیاسی شخصیت کوحاصل نہیں۔2000 ءمیں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا تاحیات سپریم ہیڈ مقرر کیا گیا۔ انہیں کشمیری قوم کی طرف سے مجاہد اول کے مقبول خطاب سے نوازا گیا۔ انہوںنے کئی کتب بھی تصنیف کیں جن میں ”کشمیر بنے گا پاکستان ،مقدمہ کشمیر،مذاکرات سے مارشل لا ءتک،آزاد کشمیر شاہراہ ترقی پر،خطبات ناروے،تعمیر و ترقی میں انتظامیہ کا کردار،نظریاتی کشمکش،کشمیر کی دفاعی اہمیت،کشمیر اور عالم اسلام،مسئلہ کشمیر،تحریک آزادی کشمیر،مسلم کانفرنس کے کارکنوں کی ذمہ داریاں،سیاست میں اخلاقی قدروں کی اہمیت،اچھی حکمرانی،فتنہ انکار سنت ،انہوںنے انگریز ی زبان میں بھی متعدد کتب لکھیں۔ سردار محمد عبدالقیوم خان مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت رکھتے تھے، وہ پاکستا نیوں سے بڑھ کر پاکستانی تھے ۔سردار عبدالقیوم خان 10 جولائی 2015 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن بعض اموات ایسی ہوتی ہیں جو ان مٹ اثرات چھوڑ جاتی ہیں انکی موت بھی ایک ایسی ہی موت تھی۔